گلستان فن کا کنول مرجھا گیا

Mar 27, 2021

ندیم اپل
فنون لطیفہ کی دو لیجنڈ شخصیات  گذشتہ روزہم سے روٹھ گئیں ۔ایک تومعرف ناول نگاراورمنفرد ڈرامہ نگار حسینہ معین  اور دوسری اہم ہستی پاکستان کی پہلی خاتون انائونسر اور چھوٹی سکرین کی پہلی ہیروئن کنول نصیر تھیں جو نشریات کی دنیا کی بے تاج ملکہ آپا شمیم المعروف موہنی حمید کی صاحبزادی تھیں ۔
کنول نصیر کی اگر بات کریں تو آواز کی دنیا میں وہ اس وقت جلوہ گر ہوئیں جب خواتین کااس طرف آنیکا رجحان بہت کم تھا بلکہ اس فیلڈمیں خواتین کا آنا ہی معیوب سمجھا جاتا تھامگر موہنی حمید کی صاحبزادی جنہیں ورثہ میں خوبصورت آوازاور فن کی میراث ملی تھی اور پھر جس طرح سے کنول نصیر نے اپنی صلاحیتوںکواس میدان میںاجاگرکیا اس کا ہر کوئی معترف تھا۔
ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ کنول نصیر اور طارق عزیز اس زمانے میں نشریات کی دنیا میں آئے جب ابھی پاکستان میں ٹیلی وژن نے آنکھ نہیں کھولی تھی مگر اس کے باوجود ان دونوں فنکاروں نے جس طرح سے حرف و صوت کی دنیا میں اپنے فن کی دھاک بٹھائی  اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی اپنی خوبصورت آوازوں سے کروڑوں ہم وطنوں کو اپنے گرویدہ بنا لیا  ایسی عزت،شہرت اور مقبولیت  بہت کم خوش نصیبوں  کے حصے میں آیا کرتی ہے۔
کنول نصیر کی موت پر سب سے دکھی لیجنڈ اداکارہ نئیر کمال دکھائی دیں جو فن کی دنیا میں انکی دیرینہ دوست تھیں ۔وہ کہنے لگیں ایسا لگتا ہے جیسے آج میرے جسم کا ایک حصہ مجھ سے جدا ہو گیا ہے ہم دونوں نے ابتدائی دن ریڈیو کی دنیا میں ایک ساتھ گزارے اور ہمارے دوست احباب تو ہم دونوںکو ریڈیو کی جوڑی قرار دیا کرتے تھے۔آج بھی جب میں کنول کو یاد کرتی ہوں تو ریڈیو پاکستان کے ابتدائی دن مجھے یاد آجاتے ہیں ۔وہ کہنے لگیں کنول کی محض اردو خبروں اور ڈراموں کے حوالے سے پہچان نہیں تھی بلکہ انہوں نے ریڈیو اور پاکستان ٹیلی وژن سے پنجابی زبان میں جو شو کیے اور ان میں وہ اپنے منفرد انداز میں جو پنجابی بولا کرتی تھیں وہ آج بھی ریڈیو کے سامعین اور ٹی وی کے ناظرین کو یا د ہے۔
کنول نصیر بہت چھوٹی تھیں جب وہ اپنی والدہ موہنی حمید کے ساتھ لاہور ریڈیو اسٹیشن آیا کرتی تھیں ،شروع شروع میں تو انہوں نے اپنی والدہ کے بچوں کے ریڈیو پروگرام  ہونہار میں شرکت کی اور جب حوصلہ بڑھا اور شعور کو پہنچیں تب فن کے کنول کا پھول کھلتا چلا گیا۔
کنول نصیر کی رحلت پر معروف اداکارہ  بشری انصاری خاصی آبدیدہ  تھیں کہنے لگیں سچی بات تو یہ ہے کہ کنول فن اور نشریات کی دنیا کی پائنیر تھیں ان کو دیکھ کر میں نے بہت کچھ سیکھا بلکہ میں تو یہ کہوں گی کہ وہ نئے فنکاروں اور صداکاروں کے لیے ایک اکیڈمی کا درجہ رکھتی تھیں، میں زندگی میں ایک تو معین اختر کی موت پر اسقدر دکھی ہوئی تھی اور دوسرا بڑا صدمہ مجھے کنول کی موت سے پہنچا ہے ۔
بہروز سبزواری کہنے لگے کنول آپی فن کا سکول تھاٹ آف تھیں جن سے موجودہ سینئر فنکاروں اور صدا کاروں نے بھی بہت کچھ سیکھا۔کنول آپی نے طارق عزیز کے ساتھ مل کر پی ٹی وی کے کئی لائیو شوز کی میزبانی بھی کی ۔یہ دونوں فنکار جب ایک جگہ اکٹھے ہوتے تھے تو نہلے پر دہلے والی بات ہوتی تھی۔
کنول نصیر کی عمر 70برس تھی اور کافی عرصہ سے علیل تھیں ۔ان کو ذیابطیس کا مرض لاحق تھا جو بالآخر جان لیوا ثابت ہوا ۔آپ اسلام آباد کے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(پمز) میں زیر علاج تھیں ۔
کنول ںنصیرنے 17برس کی عمر میں باقائدہ اپنے فنی کیرئیر کا آغاز کیا اور بہت تھوڑے عرصہ میں اپنی پہچان بنا لی جیسا کہ سطور بالا میں بیان کیا گیا ہے کہ طارق عزیز کے ساتھ آپ کی کمپیئرنگ دیکھنے والی ہوتی تھی اس کی ایک  بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ کنول نصیر اورطارق عزیز نے 26نومبر1964کو پہلی بار مل کر ٹی وی شو کیا تھا جس کے بعد انہوں نے بہت سے ٹی وی پروگرامز اور یادگار شو اکٹھے کیے جو آج بھی پاکستان ٹی وی کا اثاثہ ہیں۔
کنول نصیر نے ٹی ٹائم کو بہت پہلے دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کا مقصد صرف اداکاری نہیں ہے بلکہ وہ اپنے فن کے ذریعے اپنے ملک کی ثقافت کلچراور تہذیب کی دنیا بھر میں شناخت کروانا چاہتی ہیں کیونکہ ہر فنکار کا چہرہ اپنے ملک کی پہچان ہوتا ہے اور وہ جہاں بھی چلا جائے اپنے ملک کاسفیرہوتا ہے۔اسی انٹرویو میںانہوں نے اپنی والدہ موہنی حمیدکے بارے میں بتایاتھا کہ وہ جتنی بڑی فنکارہ اور صداکارہ تھیں اس سے کہیں بڑی وہ ایک ماںتھیںجنہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت مثالی ماں بنکر کی۔مجھے یاد ہے کہ میری والدہ اس زمانے میں سائیکل پر ریڈیو اسٹیشن جایا کرتی تھیں ۔ایک بار میری والدہ کی سائیکل کے آگے اچانک سڑک پر سانپ آگیا میری والدہ  کی سائیکل کے نیچے آنے کی وجہ سے سانپ زخمی ہوگیا جسے موقع پر موجود کچھ راہگیروں نے مار دیا جس کے میری والدہ کو کئی روز تک دکھ رہاوہ کہا کرتی تھیں سانپ دشمن ہی سہی مگر دشمن سے بھی کبھی برا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔
کنول نصیر نے بتایا  وائس آف امریکہ نے ان کی والدہ کی آواز اور نشریاتی تجربہ سے متاثر ہو کر اپنے ہاں بلالیا اور زندگی کے آخری سانسوں تک وہ وائس آف امریکہ سے وابستہ رہیں۔ کنول نصیر ایک عظیم اور بہادر ماں کی بہادر اور باصلاحیت بیٹی تھیں جو انہوں نے اپنی فنی صلاحیتوں سے بھی ثابت کیا۔آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ان کی پیشہ ورانہ زندگی اورفن پاروں کو عہد حاضر کے فنکار مشعل راہ ضرور بناسکتے ہیں ۔

مزیدخبریں