نوائے وقت کو مختلف اوقات میں دئیے گئے انٹرویوز سے اقتباسات،قندمکررکے طور پرنذر قارئین
عنبرین فاطمہ
پاکستان ٹیلی ویژن پہ ڈرامے کی نئی جہتوں کو متعارف کروانے والی ’’حسینہ معین‘‘ کراچی سے لاہور آنے کی تیاری میں لگی ہوئی تھیں کہ گزشتہ روز اچانک ان کو دل کا دور پڑا جو کہ جان لیوا ثابت ہوا ۔
حسینہ معین نے کبھی ڈرامہ رائٹر بننے کا سوچا نہیں تھا لیکن قسمت نے ڈھیر ساری کامیابیاں لیکر ان کا دروازہ کھٹکھٹایاتو انہوںنے بھی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیااور قلم کی طاقت کو آز مایا۔ ریڈیو کے لئے پہلا ڈرامہ لکھا اس کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے تاریخی اورسبق آموز کہانیاں لکھیں ڈائیلاگز حقیقت کے اتنے قریب ہوتے کہ دیکھنے والے کو ایسا گمان ہوتا جیسے کہ ان کی زندگی کی ہی کہانی ہے۔حسینہ معین نے نوائے وقت کو کئی یادگار انٹرویوز دئیے ہم انہی انٹرویوز سے کچھ اقتباسات آپ کی نذر کر رہے ہیں ۔2014 اور 2019میں انہوں نے ہم سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ریڈیو اور ٹی وی دونوں کے لئے لکھا لیکن میرے حساب سے ریڈیو اور ٹی وی کے لئے لکھنے میں بہت فرق ہوتا ہے اور اس فرق کو سمجھنے کے لئے لکھاری کو باریکیوں میں جانا پڑتا ہے ۔میں نے بڑوں کے ساتھ بچوں کی تفریح کے لئے دونوں جگہ پر بہت کچھ لکھا مجھے یاد ہے کہ 1976میں بچوں کے لئے ’’رومی اور گڈو‘‘ کے نام سے ایک سیریل لکھی اورمیری عادت تھی کہ میں اپنے ہر سیریل میں ایک بچے کا کردار ضرور رکھا کرتی تھی اس کی مثال انکل عرفی اور ان کہی ہے ۔انکل روفی کو تو اتنی شہرت ملی کے اس کے اختتام پر شائقین رو دئیے تھے اس کی آخری قسط کے روز جن جن گھروں میں شادیاں تھیں انہوں نے شادی کے کارڈ پر چھپوایا تھا کہ ’’ انکل عرفی‘‘ کی آخری قسط ہم سب ساتھ ملکر کر شادی کے پنڈال میں دیکھیں گے،لوگوں نے ٹریجک end کو قبول نہ کیا بلکہ کئی شادیوں سے لوگ قسط دیکھنے کے بعد کھانا کھائے بغیر چلے گئے۔ روحی بانو کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایاکہ وہ کمال کی فنکارہ تھیں کیمرے کے سامنے آتیں تو ذاتی زندگی کو بھول جاتیں اوحقیقت کے قریب ترین تاثرات کے ساتھ سین ریکارڈ کرواتیں ،وہ بہت اچھی انسان تھیں لیکن ساتھ ہی ساتھ زندگی کی پریشانیوں نے انہیں حساس بھی بنا دیا تھا۔میرے ڈرامے کے سیٹ پر ان کی خالدہ ریاست کے ساتھ اَن بَن ہو گئی تھی۔حسینہ معین نے انٹرویو زکے دوران یہ بھی بتایا کہ وہ بہت شرارتی ہوا کرتی تھی کالج میں انکی ساری اساتذہ انہیں شیطان کہا کرتی تھیں ،وہ اردو کی کلاس لینے کے لئے کبھی وقت پر نہیں پہنچ پاتی تھی ان کی اردو چونکہ بہت اچھی تھی انکی ٹیچر ان سے بہت خوش تھی اس لئے وہ انکی حاضری لگا دیا کرتی تھیں۔
انہوں نے انٹرویو کے دوران یہ بھی بتایا کہ انہوں نے ٹی وی کے لئے لکھنا کیوںچھوڑا کہتیں کہ آج کل جیسا لکھا جا رہا ہے وہ میرا مزاج نہیں ہے ۔میں نے 30سال لگاکر عورت کے امیج کو تبدیل کیا لیکن افسوس کہ مظلوم عورت کا امیج پھر سے واپس آگیا ہے۔ The Potrait of a lady کتاب سے حسینہ بہت متاثر تھیں اسکی وجہ پر بات کرتے ہوئے حسینہ نے نوائے وقت کو بتایا کہ اس کتاب میں عورت کی مضبوطی اور اس کے حقیقی کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اسی کتاب کو پڑھ کر مجھے سمجھ میں آئی کہ عورت کسی بھی طرح مردوں سے کم نہیں ہے ۔ اس کتاب نے مجھے عورت کے حقیقی کردار کو اجاگر کرنے کے لئے متحرک کیا۔ اسی کتاب کو پڑھنے کے بعد میں نے بھی خود سے وعدہ کیا کہ عورت کی اصلی پہچان کیا ہے اس کا کردار کیا ہے یہ چیز ہمیشہ میں اپنی رائٹنگز میں نمایاں رکھوں گی اور آپ میری ہرکہانی اٹھا کر دیکھیں اس میں آپ کو اس قسم کی کامیاب کوشش ضرور نظر آئیگی۔ ڈرامہ سیریل ’’ پرچھائیاں‘‘ کا پائلٹ دیکھ کر حسینہ نے رد کیوں کیا؟اس سوال پر انہوں نے کہا کہ میں نے ’’پرچھائیاں‘‘ بہت ہی محنت سے لکھاتھا میں چاہتی تھی کہ اس ڈرامے کو محسن علی اور شیریں خان ڈائریکٹ کریںلیکن ان دونوں کی بجائے کسی اور کو پائلٹ بنانے کے لئے دے دیا گیا۔ جب پائلٹ بنا اور مجھے ہیڈ کوارٹر میں پائلٹ دیکھنے کے لئے بلوایا گیا تو میں نے رد کر دیا کیونکہ جومیں چاہتی تھی اس میں وہ چیز نظر نہیں آ رہی تھی۔ میں نے فوراً جی ایم سے کہا مجھے محسن علی، شیریں خان کے ساتھ کام کرنا ہے اگر وہ یہ ڈرامہ نہیں بنائیں گے تو میں مزید نہیں لکھوں گی۔ جی ایم نے ڈرامہ محسن علی شیرین خان کے حوالے کیا اور کاسٹ بھی میری مرضی کی رکھی۔
حسینہ نے ایک ڈرامے کے لئے 2 ڈائریکٹرز کا تصور متعارف کروایا اس میں ان کو کامیابی بھی ملی ،اس حوالے سے حسینہ کہتی تھیں کہ ایک ڈرامے کیلئے2 ڈائریکٹرز کا تصور شروع میں لوگوں کو عجیب لگا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ سلسلہ زیادہ آگے تک نہیں جائیگا لیکن ہمارا ٹیم ورک اتنا مضبوط تھا کہ باتیں کرنے والوں کی زبانیں بند ہوگئیں۔ حسینہ کے ڈراموں میں او ایس ٹی بہت کم سننے کو ملا اس کی وجہ کو یوں بیان کیا اور کہا کہ اگر ڈرامے کی کہانی مضبوط ہوتو ٹائٹل سانگ سمیت دیگر چیزوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ آجکل کہانیاں تو ہوتی نہیں اس لئے ڈراموں کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول کروانے کے لئے ٹائٹل سانگز کا سہارا لیا جاتا ہے۔حسینہ معین نے زیبا بختیار کو فلم حنا کے لئے ریکمینڈ کیا سوچ کر کیا اس پر انہوں نے کہا کہ میں نے ’’ تان سین‘‘ تاریخی ڈرامہ لکھا تھا اس میں زیبا بختیار نے اعلیٰ ادا کاری کی تھی اس میں وہ تمام خوبیاں دیکھی جو کس ادا کارہ میں ہونی چاہئے مجھ سے حنا کے لئے کسی پاکستانی ادا کارہ کے بارے میں جب پوچھا گیا تو میں نے زیبا کا نام دیا۔
آج کی خواتین رائٹرز کے بارے میں وہ کہا کرتی تھیں کہ آج کی سب تو نہیں لیکن زیادہ ترخواتین رائٹرز وقت گزاری کے لئے لکھتی ہیں،ڈائجسٹوں کی کہانیوں کو سیریل بنا دیا جاتا ہے۔ آج ہر دوسرے ڈرامے کی کہانی ایک جیسی ہے۔ آج کی رائٹرز میں اچھا لکھنے والوں میں عمیرہ احمد کا نام قابل ذکر ہے، خاصا سلجھا ہوا لکھتی ہیں۔ حسینہ معین کہا کرتی تھیں کہ شیریں خان، محسن علی، شہزاد رانا، سائرہ کاظمی، روحی بانو، نیلو فر عباس، شہلا احمد، راعت کا ظمی، شہناز شیخ مرینہ خان کے ساتھ کام کرنا انکے لئے بہت ہی یادرگار ہے۔
حسینہ معین نے جو ڈرامے لکھے ان میں شہ زوری ،کرن کہانی ،انکل عرفی ،زیر زبر پیش،پرچھائیاں ،محبت ہو گئی تم سے ،انجانے نگر ،میری بہن مایا ،تنہائیاں نئے سلسلے،تنہا،کشمکش،چھوٹی سی کہانی،آئینہ ،کیسا یہ جنون،اک نئے موڑ پر ،تم سے مل کر،تیرے آجانے سے ،شاید کے بہار آئے ،آنسو،دیس پردیس ،پل دو پل ،جانے انجابے ،کوہار،تان سین،کسک،پڑوسی،آہٹ ،بندش، دھوپ کنارے ،تنہائیاں ،پرچھائیاں قزبل ذکر ہیں ان کے لانگ پلیز میں نیا راستہ ،ہیپی عید مبارک،گڑیا ،مہم جو،عید کا جوڑا ،رابطہ،روشنی ،مائیکے کا بکرا،چلتے چلتے ،ساگر کا آنسو،چھوٹی چھوٹی باتیں ،دھندلے راستے،چپ دریا ،سنگسار ،موسم گل ،دعا ،گھروندا ،وقت کو تھام لو ،اوپر گوری کا مکان،بڑی سکرین کے لئے بھی لکھا یہاں سے وہاں،نزدیکیاں،حنا کہیں پیار نہ ہوجائے۔حسینہ نے ریڈیو اور ٹی وی تھیٹر کے لئے لکھا زمانہ طالب علمی سے ہی انہوں نے لکھنے کے سلسلے کو شروع کر دیا تھا ۔انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا ان کے لکھے ہوئے کو نہ پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارتی نقاد بھی بے حد سراہتے تھے ۔
نوائے وقت نے جب انور مقصود سے رابطہ کیا تو انہوں نے ہیلو کرتے ہی نہایت رنجیدہ ہو کر کہا کہ میںاس قدر صدمے میں ہوں کہ میں چاہوں گی تو حسینہ معین پر کوئی بات نہیں کر سکتا۔
ماضی کے معروف اداکار راحت کاظمی نے کہا کہ میری اہلیہ ساحرہ کاظمی کی حسینہ آپا سے بہت دوستی تھی ،میں نے ان کے لکھے ہوئے بہت سے ڈراموں میں کام کیا ۔مجھے جو ا نکی ایک بات بے تحاشا پسند تھی وہ یہ تھی کہ وہ دوبارہ لکھنے سے نہیں گھبراتی تھیں جب تک مطمئن نہ ہو جاتیں بار بار لکھتیں۔انہوں نے عورتوں کو مضبوط ضرور دکھایا لیکن عورت کی نزاکت کی جھلک کو نمایاں رکھا ۔ایک بار ہم کِنجر جھیل پر شوٹنگ کے لئے گئے میں اور ساحرہ ایک کمرے میں تھے حسینہ اور شیریں دوسرے کمرے میں تھیں رات کو ساحرہ اٹھ کر ان کے پاس چلی گئیں ان کا خیال میں سو گیا ہوں انہوں نے میرے حوالے سے کچھ باتیں کیں تو میں نے آواز لگائی اور کہا کہ او ہیلو تم سب یہ نہ سمجھو کہ میں سو گیا ہوں میں نے سب سن لیا ہے یعنی اس طرح کا مذاق چلتا رہتا ہے ۔حسینہ ہمارے گھر میں لاہور آکر کچھ دن بھی رہیں جس کی مجھے آج تک خوشی ہے وہ سیٹ پر آتیں تو کبھی بھی کام میں بے جا مداخلت نہیں کرتی تھیں میری ان کے ساتھ پیار محبت میں لڑائی چلتی رہتی تھی میں کہا کرتا تھا یہ ٹھیک نہیں اسے ایسے لکھ دیں تو وہ کہا کرتی تھیں ارے تمہیں کیا پتہ۔