نوائے وقت اوردوقومی نظریہ کا استحکام

Mar 27, 2021

میں ان خوش نصیبوں میں سے ہوں جس نے کالج کے زمانے 1960 ء میں علمبردار صحافت مرحوم و مغفور حمید نظامی کو ناصرف دیکھا بلکہ ان سے ملاقات بھی کی جب میں نے 1957 ء میں مڈل پاس کر لی تب سے  گھر میںروزنامہ نوائے وقت لاہور آنا شروع ہو گیا اسکی وجہ یہ تھی روزنامہ نوائے وقت کو حمید نظامی نے ایک دبنگ اخبار بنا دیا تھا جس نے جنرل ایوب کے مارشل لاء کے دور میں حق گوئی کا راستہ اختیار کر لیا۔ حمید نظامی کی طبیعت سچ گوئی‘ مفادپرستی اور  چاپلوسی سے مبرا تھی اس وقت ملک میں دیگر اخباروں کی ناصرف اجارہ داری تھی بلکہ ان میں چاپلوسی کا انصر زیادہ تھا چنانچہ اس روش کے برخلاف حمید نظامی نے اپنی خبروں میں ایسا راستہ اختیار کر رکھا تھا یعنی جابر سلطان کے سامنے حق لکھتے نہیں ڈرتے تھے یہی وجہ تھی ایک خاص سنجیدہ طبقہ اس کا قاری بن گیا تھا پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہرپڑھنے والے کے ہاتھوں میں نوائے وقت ہی نظر آنے لگا دیگر اخباروں کی جگہ نوائے وقت کا اداریہ  بڑا دبنگ ہوتا تھا اس اداریہ میں حکومت وقت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے انہیں بہتری کی راہ بھی دکھائی دیتی تھی۔ 23 مارچ 2021 ء کو یہ اخباراکاسی سال کا ہو گیا ہے ایک پڑھا لکھا ‘ جہاندیدہ طبقہ اب بھی اسکے اداریے کو اسی طرح سراہتا ہے۔1962 ء میں حمید نظامی کے چھوٹے بھائی مجید نظامی لندن میں تھے حمید نظامی اس وقت بہت بیمار تھے جیسے ہی وہ لندن سے لاہور آئے حمید نظامی نے اپنے دور کی اخباری پالیسی انہیں سونپ کر رخت سفر باندھ لیا اس وقت مجید نظامی مرحوم نے اپنے بڑے بھائی کی میت پر یہ عہد کیا کہ نوائے وقت نے اخباری صنعت میں اپنے وقار و عزت کا بھرم قائم رکھے گا اس مجاہد صحافت نے نظریہ پاکستان کو اپنے اخبار کی زینت بنا کر ناصرف روزنامہ نوائے وقت کو آب و تاب سے جاری رکھا بلکہ قائداعظم کا دو قومی نظریے کو مزید تقویت دینے کیلئے ایک بڑے رقبے پر نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور ایوان قائداعظم قائم کر کے اس نظریے کو ہمیشہ کیلئے امر کر دیا۔ روزنامہ نوائے وقت نے 23 مارچ 1940 ء کو پندرہ وزہ کے طور پر حمید نظامی کی قیادت میں آغاز کیا۔ سرمایہ کم اور وسائل محدود ہونے کی وجہ مسائل لامحدود تھے پھر بھی حمید نظامی مرحوم ایک لگن اور شوق کے تحت اپنے مقصد سے وابستہ رہے وہ خود ہی اسکے مدیر تھے اور سخن ہائے گفتنی کے عنوان سے مختلف مسائل پر اپنی رائے بھی پیش کرتے تھے۔ 1942 ء میںہفت روزہ اور پھر 22 مارچ 1944ء میں یہ اخبار روزانہ چھپنے لگا۔ حمید نظامی مرحوم طالب علمی کے دور سے تحریک پاکستان سے وابستہ ہو گئے تھے اسلئے ان کا یہ اخبار بہت جلد مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کا ترجمان بن گیا اس اخبار کو آج بھی ہر طبقہ فکر میں مقبولیت حاصل رہی ہے نیز نوائے وقت کا اپنا ایک حلقہ قارئین ہے ۔ حمید نظامی نے پاکستان بننے کے بعد جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنے کی رسم نبھائی انکی وفات کے بعد انکے چھوٹے بھائی مرحوم مجید نظامی نے اس روش کو برقرار رکھا۔ نوائے وقت کی ایک خصوصیت رائے عامہ کی تشکیل ہے حکومتی اقدامات اگر مفاد عامہ کیخلاف ہوں تو یہ اخبار ان حکومتی اقدامات کیخلاف رائے عامہ کی تشکیل کرتا ہے اسی طرح نوائے وقت مثبت فکری رویوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جناب مجید نظامی کی وفات کے بعد انکی ذہین و فتین بیٹی رمیزہ مجید نظامی نے مجید نظامی کے مشن کو برقرار رکھنے کیلئے بڑے احسن طریق سے ذمہ داری سنبھالی۔روزنامہ نوائے وقت نظریاتی سرحدوں کا محافظ بھی دشمنانِ پاکستان کیلئے برہنہ قلمی تلوار بھی ہے ۔ اس اخبار میں شائع ہونے والا کالم سرراہے اپنے بیباک تبصروں کی وجہ سے لوگوں کی مرکزِ نگاہ بنا ہوا ہے۔
٭٭٭٭٭

مزیدخبریں