ٹنڈل رام پرشاد اور ہم 

جہلم خطہ پوٹھوہار کا خوبصورت علاقہ، دریا کی وجہ سے رونقیں اور زیادہ اس شہر سے میری ڈھیر ساری تعلق داریاں، 1974ء میں ایف ایس سی گورنمنٹ انٹر کالج سے کی۔ خاندانی بزرگ و محترم مرزا فضل حق کا سیاسی ہیڈ کواراٹر (ملہال مغلاں سے ممبر صوبائی اسمبلی رہے)، سیرت النبی پر شعرہ آفاق کتاب ’’سیرت میرے حضور کی‘‘ کے مصنف مرزا محمد نواز بیگ کا تعلق ٹھٹھی مغلاں سے جو بڑے بھائی کی حیثیت رکھتے ہیں، بہت ہی پیارے دوست، نیا محلہ کے ملک طاہر نوید اور پھر بات جہلم کی ہو تو ڈاکٹر عرفان مرزا اپنے پہلے دوست اور کلاس فیلو کو کیسے بھول سکتا ہوں جو آج کل وزارتِ صحت سعودی عرب میں ہیں۔ اس علاقہ کی کوئی خاص بات پتا چلے تو بے حد خوشی اور مسرت حاصل ہوتی  ہے۔  قیام پاکستان  سے پہلے ہندوئوں کی بہت زیادہ آبادی پوٹھوہار کے مختلف علاقوں میں آباد تھی۔ ایک ہندو ٹنڈل رام پرشاد کہ جن کا آبائی تعلق دکن (بھارت) سے تھا، وہاں ان کی زمینیں، باغات اور محلات، مگر ان کی تقریباً پونے دو مربع زمین جہلم شہر میں اور باغ محلہ نزد صرافہ بازار دریار کے کنارے عالی شان رہائش گاہ بھی تھی۔ یہ رئیس دکن کے طور پر مشہور تھے۔ 1933ء کی بات ہے کہ ٹنڈل اپنی زمین نزد ڈھوک عبداللہ چہل قدمی کر رہے تھے کہ چند لوگ چارپائی پر کسی کولیے وہاں سے گزرے ٹنڈل یہ سمجھے کہ کسی مریض کو حکیم یا ڈاکٹر کے پاس لے کر جا رہے ۔ جب کہ وہ ایک خاتون کا جنازہ تھا۔ کچھ ہی دیر گذری تو وہ لوگ اسی انداز میں واپس آ رہے تھے۔ ٹنڈل نے معلومات کرنا چاہی تو اس خاتون کا بیٹا آگے بڑھا اور اپنے جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے زار و قطار رو پڑا۔ ٹنڈل نے تسلی دی ۔ گلے سے لگایا، وہ بولا کہ ہم (کمی) نچلی ذات کے  ہیں۔ہماری والدہ فوت ہو گئی تھی دفنانے قبرستان گئے، جو امیر اور بڑے خاندان والے مسلمانوںکا ہے۔ نہ میت دفنانے دی جبکہ بے عزتی بھی کی کہ آپ لوگوں کو یہ جرات کیسے ہوئی؟ یہ سن کر ٹنڈل رام پرشاد آبدیدہ ہو گیا، کہنے لگا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میں ہندو ہوں۔ کیا اپنی والدہ کو میری زمین میں دفنانا پسند کریں گے، یہ سننا تھا تو تقریباً سارے لوگ اس انسانی ہمدردی کو دیکھ کر روتے ہوئے ٹنڈل کے گرد جمع ہو گئے۔ ٹنڈل نے کہا میری زمین میں جو جگہ آپ کو پسند ہے وہاں ماں کی تدفین کر لیں۔ جب یہ سارا عمل مکمل ہو گیا تو گائوں کے دیگر لوگ لواحقین کے ہمراہ ٹنڈل کا شکریہ ادا کرنے پہنچے۔ ٹنڈل رام پرشاد نے اسے اپنے لیے اعزاز سمجھا اور کہا کہ یہ زمینیں اور جاگیریںسب یہیں رہ جائیں گی۔ دعا کریں اللہ ہمیں اچھا انسان بنائے، جب اللہ تعالیٰ کی خصوصی عطا ہوتی ہے تو پھر کلمہ طیبہ بھی نصیب کر دیتا ہے۔ یقینا وہ خاص وقت، گھڑی اور ساعتیں تھیں۔ چند ہی دنوں کے بعد ٹنڈل کی ملاقات ایک ولی کامل سید بخاری شاہ سے ہوئی۔ ٹنڈل کے دل کی دنیا بدل چکی تھی، اللہ تعالیٰ کا اس پر خصوصی کرم ہو چکا تھا اس نے کلمہ پڑھا اور دو اعلان کیے۔ اول کہ میں یہ ساری زمین قبرستان کے لیے وقف کرتا ہوں اور دوسرا اگر رب کو منظور ہوا تو میری تدفین بھی یہیں ہو گی۔ اس واقعہ کے بعد جب بھی ٹنڈل جہلم آتا۔ لوگوں کا ایک ہجوم اس کے پاس رہتا اور وہ بھی صبح سے شام ان کی خدمت میں مگن رہتا۔ ادھر دکن میں ٹنڈل رام پرشاد نے اپنے خاندان اور وکلاء کو ساری تفصیل سے آگاہ کر دیا اور یہ وصیت بھی کی کہ اس کی تدفین جہلم میں ہی کی جائے۔ پاکستان بننے سے چند سال قبل 1942 میں اس کی وفات دکن میں ہوئی۔ اس کی میت ذاتی گاڑی میں جہلم پہنچائی گئی۔ آج بھی اسی قبرستان میں قبر موجود ہے جس پر ٹنڈل رام پرشاد لکھا ہے۔ روایت ہے کہ مسلمان ہوتے وقت اس نے بخاری صاحب سے درخواست کی تھی میں اسی نام سے مرنا چاہتا ہوں جس کی انہوں نے اجازت عطا کر دی تھی۔ اتفاق سے وہ بھی ایک بھرپور سیاسی دور تھا۔ بھارت کے سابق وزیراعظم اندر کمال گجرال کا تعلق بھی ملہاں مغلاں کے ساتھ ایک گائوں ’’پڑی‘‘ سے تھا۔ ان کے والد پنڈت اوتار نارائن پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے، چنانچہ انہوں نے رہائش اور پریکٹس کے لیے جہلم کا انتخاب کیا۔ وہ اس وقت کانگرس ضلع جہلم کے صدر تھے اور اتفاق سے مرز ا مظہرالحق مسلم لیگ ضلع جہلم کے صدر یہ مرزا صاحب مرزا  فضلِ حق کے والد محترم ہیں کہ جن کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں۔ یہ واقعہ تقریباً 85 سال پہلے کا ہے جب مسلمانوں کے لیے ایک نیا ملک بنانے کی باتیں ہورہی تھیں۔ ایک ایسا ملک کہ جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر تھی۔ علامہ اقبال نے جس کا خواب دیکھا تھا اور قائداعظم محمد علی جناح نے جس کو حقیقت بنا دیا۔ اس وقت مسلمانوں کو ملک اس لیے چاہئیے تھا کہ جہاں عزت و احترام اور مذہبی آزادی کے ساتھ رہا جا سکے، کہ جہاں ہماری مائوں بیٹیوں کی عصمت محفوظ رہے، کہ جہاں ہمارا مستقبل بہت خوبصورت اور تابناک ہو۔ ہم ترقی کر سکیں اور بہت آگے جا سکیں۔ بدقسمتی یہ کہ بانی پاکستان کو زندگی نے زیادہ مہلت نہیں دی۔ اور اس کے بعد آنے والی قیادت کسی نہ کسی انداز میں ملکی سلامتی اور بقا کا سودا کرتی رہی۔ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر مختلف کالونیز کا حصہ بنتی رہی۔ اپنے ہی وسائل کو ضائع کرتی رہی۔اب حالت یہ ہے کہ ہم غلام در غلام بن چکے ہیں۔ سوسائٹی دو واقع حصوں میں بٹ چکی ہے ایک امیر اور دوسرا غریب۔ امیروں نے مختلف مافیاز کی شکل اختیار کر لی ہے۔ یہ ہرروز مضبوط سے مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔انہوں نے غریبوں کو پاکستان بننے سے پہلے جینے دیا اور نہ اب جب پاکستان بنے 70 سال سے زیادہ  ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اس وقت بھی غریبوں کو جینے دیا حتیٰ کہ مرنے کے بعد تدفین تک نہ ہونے دی۔ اس وقت زمین تنگ کر دی اب گردن دبانے کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں۔ یہ طاقت میں ہوں تب خوفناک اوراپوزیشن میں ہوں تو پھر اس سے زیادہ خوفناک۔ انصاف ان کے گھر کی باندی ہے اور اگر خود پھنس جائیں تو فیملی سمیت ہفتوں وضاحتیں۔ وقت ایک ایسا نہیں رہتا۔ ایک گھڑی اور ساعت بالآخر ایسی آتی ہے کہ رب تعالیٰ کی ذات ٹنڈل رام پرشاد کے ذریعے غریبوں کے تدفین کا انتظام کر دیتی ہے بالکل ایسے ہی وہ وقت دور نہیں جب رب جلیل ہم جیسے غریبوں ، بے سہارا اور یتیموں کے دل کی فریاد بنتے ہوئے کوئی نیا فیصلہ سنا دیں۔

ای پیپر دی نیشن