افغانستان گزشتہ بیالیس برس سے جنگوں اور خانہ جنگی کا شکار ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں اور جن کا براہ راست پاکستان پہ گہرا اثر پڑا۔ اس شورش زدہ علاقے میں امن لانے کی کوششیں بھی کی جاتی رہیں لیکن کچھ فریقین کی بدنیتی کے باعث افغانستان میں امن قائم نہ ہو سکا۔ اب پھر سے امن مذاکرات شروع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ برطانوی تخت کے وائسرائے لارڈ کرزن نے پیشگوئی کی تھی کہ "ترکستان، افغانستان، ٹرانسکاسپیا، فارس….یہ شطرنج کی بساط کے مہرے ہیں جنہیں استعمال کر کے دنیا کے غلبے کیلئے کھیل کھیلا جا رہا ہے۔" یقیناً بھارت اور پاکستان کے دنیا کے تسلط کے لئے اس طرح کے عزائم نہیں تھے لیکن انہوں نے 1947 میں آزادی کے بعد سے ہی افغانستان کو خطے میں اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ اپنے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر بھارت اور پاکستان نے افغانستان میں کئی دہائیوں سے براہ راست اور بلاواسطہ لڑائی لڑی ہے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں ممالک افغانستان میں اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے کے خواہاں ہیں- پاکستان اپنے اندرونی امن کی خاطر اور بھارت پاکستان کو زیر کرنے کے لیے۔ بھارت نے افغانستان میں درجنوں قونصل خانے کھول رکھے ہیں جن کی آڑ میں بھارتی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی "را،، پاکستان میں دہشتگرد حملے کراتی ہے۔ گشتہ ہفتے روس نے افغانستان میں امن کی خاطر افغانستان کے پڑوسی ممالک بشمول پاکستان کو ان مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی تھی- بھارت جو افغانستان کا پڑوسی ہے ان مذاکرات میں شامل نہیں تھا۔ یہ الگ معاملہ ہے کہ اس کا فورا بعد افغان وزیرِ خارجہ حنیف اتمرنے نئی دہلی میں اپنے بھارتی ہم منصبجے شنکر سے پیر کو ملاقات کی۔ بھارتی وزیرِ خارجہ نے اس موقع پہ کہا کہ بھارت پرامن، خوشحال اور متحد افغانستان کے لیے افغان حکام کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔ملاقات کے بعد بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ایس جے شنکر نے بات چیت کے دوران افغانستان کو ایک متحد، پرامن، عوامی خواہشات کا احترام کرنے والا اور ایک خوشحال جمہوری ملک بنانے کے بھارت کے دیرینہ عزم کا اعادہ کیا۔افغانستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس دورے کا مقصد نئی دہلی کے سینئر عہدے داروں کے ساتھ افغان امن عمل، سیکیورٹی اور اقتصادی تعاون پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔
واضح رہے کہ عنقریب امریکہ کی ایماء پر اقوام متحدہ نے بھی افغانستان میں امن کی خاطر مذاکرات کے لیے مختلف ممالک کو دعوت دی ہے، جن میں بھارت بھی شامل ہے- پاکستان نے بھارت کی شمولیت پہ اعتراض کیا ہے کہ وہ افغانستان کا پڑوسی نہیں اور اسکا افغان امن مذاکرات میں کوئی رول نہیں۔بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت افغانستان میں امن و استحکام کے سلسلے میں ایک بڑا اسٹیک ہولڈر ہے۔ اس نے افغانستان کی مدد اور تعمیر نو میں دو ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس نے نومبر میں متعدد منصوبوں کے لیے 80 ملین ڈالر کے نئے پیکج کا بھی اعلان کیا تھا۔وزیرِ اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ماہ افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ساتھ ایک ورچوئل میٹنگ میں افغانستان میں تشدد کے خاتمے کے لیے جامع سیز فائر پر زور دیا تھا۔بھارت کی بنیادی پالیسی یہ ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو اور گزشتہ برسوں میں جو جمہوری نظام قائم ہوا ہے وہ برقرار رہے۔ لیکن اسی کے ساتھ بھارت کو یہ اندیشہ بھی رہتا ہے کہ طالبان دوبارہ افغانستان میں خلافت قائم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ حالاںکہ امریکہ نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ اسے تسلیم نہیں کرے گا۔افغانستان میں قیامِ امن کے لیے جو مذاکرات چل رہے ہیں ان کی کامیابی کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ امن عمل کی راہ میں اب بھی کئی رکاوٹیں ہیں۔ خاص طور پر طالبان کا اسلامی طرزِ حکمرانی کے قیام پر اصرار کرنا جس پر بعض افغان دھڑوں اور امریکہ کو بھی تحفظات ہیں۔درحقیقت بھارت کی کوشش ہو گی کہ افغانستان میں ایسی حکومت قایم ہو جو اسکی طابع ہو تا کہ وہ افغان سرزمین کو استعمال کر کے پاکستان کو غیر مستحکم کر سکے- بھارت افغانستان میں دو ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے- کیا افغانستان اور امریکہ وہ دن بھول گیے جب سوویت حملے کے وقت پاکستان نے کیا قربانیاں دیں جبکہ بھارت سویت حلیف تھا-پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کا اپنی سرزمین پہ خیرمقدم کیا اور اپنا پیٹ کاٹ کر انکی میزبانی کی اور ابتک کر رہا ہے۔ افغان مجاہدین کی پشت پناہی کی پاداش میں سوویت یونین نے پاکستان کو حملوں کا ہدف بنایا جب طالبان کی حکومت قایم ہوئی تو اس وقت بھارت نے ان کے حریف شمالی اتحاد کا ساتھ دیا تھا پاکستان اور افغانستان ایسے رشتے میں بندھے ہیں جو انتہائی قریبی ہے- خطے میں خصوصی طور پر پاکستان اور چین کے ترقیاتی منصوبوں میں افغانستان کا بڑا حصہ ہے' جیسے چین-پاکستان اقتصادی راہداری' وسطی ایشیا کے ساتھ ترقیاتی منصوبے، یہ سب افغان امن کے مرہون منت ہیں- بھارت کبھی ایران کی چاہ بہار بندرگاہ میں سرمایہ کاری کر کے افغانستان کو گمراہ اور چین اور پاکستان کو زک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی امریکہ کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داریکو استعمال کرتے ہوے افغان امن عمل مِیں دخل اندازی کرتا ہے- درحقیقت بھارت افغانستان میں امن کا خواہاں نہیں کیوں کہ وہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں شورش بپا رہے اور خانہ جنگی قایم رہے تا کہ ان کی آڑ میں پاکستان کے ترقیاتی منصوبے رکے رہیں اور بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا اپنا گھناوء نا کھیل جاری رکھ سکے-امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے نیٹو ممالک کو یقین دلایا ہے کہ امریکہ نیٹو اتحاد کی تشکیل نو اور افغانستان سے افواج کے ممکنہ انخلا کے معاملے پر رْکن ممالک کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ اور نیٹو اتحاد کے تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں۔ ٹرمپ یہ کہتے رہے ہیں کہ نیٹو اتحاد اپنی افادیت کھو چکا ہے۔پاکستان افغانستان میں امن کی ہر کوشش کا خیر مقدم کرتا ہے بشرطیکہ بھارت کا اس میں کوئی عمل دخل نہ ہو.
کیا بھارت کا افغانستان کے امن مذاکرات میں کوئی کردار ہے
Mar 27, 2021