گیلانی اپوزیشن لیڈر سینٹ مقرر بے وفائی کی بھاری قیمت ہوگی

اسلام آباد+ لاہور (نمائندہ خصوصی+ نیوز رپورٹر) پی پی پی کے سینئر رہنما سابق وزیراعظم اور اسلام آباد سے سینیٹر  یوسف رضا گیلانی  کو سینٹ  میں قائد حزب اختلاف مقرر کر دیا گیا۔ اس سلسلے میں سینٹ سیکرٹریٹ نے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے۔ اس سے قبل 30سینیٹرز کے دستخطوں کے ساتھ درخواست جمع کرائی گئی تھی۔ پی پی پی ذرائع نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کی حمایت میں دستخط کرنے والے ارکان میں سینٹر ہدایت اللہ، ہلال الرحمن، مشتاق احمد اور نوابزادہ ارباب عمر فاروق بھی شامل ہیں۔ ایوان بالا میں اپوزیشن جماعتوں میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد سب سے زیادہ یعنی 21 ہے۔ سینیٹر شیری رحمن نے بتایا تھا کہ انہیں اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لیے جماعت اسلامی کے ایک، سابق فاٹا کے 2 اور دلاور خان کے آزاد گروپ کے 4 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ واضح رہے کہ ایوانِ بالا کے نئے اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں اختلافات ابھر کے سامنے آئے تھے۔ قبل ازیں مسلم لیگ (ن)  سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کو اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لیے نامزد کرنے کی درخواست جمع کروا چکی تھی۔ اعظم نذیر تارڑ کی نامزدگی کے لیے مسلم لیگ (ن) کے 17 ارکان سینٹ نے دستخط کیے۔ اس کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 5 سینٹرز‘ نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 2، 2 ارکان نے حمایت کی یقین دہانی کروائی تھی۔ اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے نیب پیشی ملتوی ہونے پر اپنی رہائش گاہ جاتی امراء میں پی ڈی ایم رہنماؤں کے اعزاز میں ناشتہ کا اہتمام کیا جس میں پیپلز پارٹی کا وفد قمر الزماں کائرہ اور جمعیت علماء اسلام کا وفد مولانا عبدالغفور حیدری کی زیر قیادت ناشتہ میں شریک ہوا۔ جبکہ بی این پی رہنما جہانزیب جمالدینی، مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال، پرویز رشید، سینیٹر اعظم نذیر تارڑ سمیت دیگر رہنما بھی جاتی امراء آئے اور ناشتہ کا پروگرام سیاسی اجتماع میں بدل گیا۔ جس میں ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ جاتی امراء کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کیلئے پیپلزپارٹی کی درخواست پر شدید دھچکا لگا۔ اس مسئلے کو پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں اٹھائیں گے۔ احسن اقبال نے کہا کہ کچھ اچھا اور مناسب نہیں لگا  کہ اس  چیئرمین کے پاس جائیں  عرضی لیکر جس پر دھاندلی سے جیتنے کا الزام ہے۔ باپ کا کردار سب کو پتہ ہے۔ باپ کو شامل کرکے سینیٹرز کی حمایت حاصل کرنا پی ڈی ایم کے اتحاد کو نقصان پہنچائے گا۔ پورا اسلام آباد جانتا ہے کس کے کہنے پر ووٹ ڈالا جاتاہے۔ پی ڈی ایم کی شفاف سیاست کیلئے مناسب نہیں کہ لیڈر آف اپوزیشن کیلئے پیپلزپارٹی کو چیئرمین سینٹ کے پاس  جانا چاہئے۔ پی ڈی ایم جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر اپوزیشن لیڈر سینٹ کیلئے تمام اتحاد کو دھچکا لگا۔  پی ڈی ایم کی جماعتوں نے اعظم نذیر تارڑ پر اعتماد کیا۔ ہمیں دکھ پہنچا ہے اے این پی نے یکطرفہ فیصلہ کیا۔ یہ سوالات پی ڈی ایم کے اجلاس میں اٹھائیں گے۔ نیب کا دائرہ اختیار وسیع، قومی اداروں کے بیان پر ایکشن لے سکتا ہے۔ نیب نے کرونا پر مریم نواز کی طلبی منسوخ کر دی تو وزیر اعظم کو کرونا ایس او پیز کی خلاف ورزی پر ایک نوٹس جاری کیا جائے۔ پی ڈی ایم بائیس کروڑ عوام کی امیدوں کی مرکز ہے۔ میوزیکل چئیر والا کھیل ختم کیا جائے۔ جمہوریت مستحکم کرکے معیشت کو مضبوط بنایا جائے۔ ریاست کا آدھا تیتر اور آدھا بٹیر ختم کیا جائے۔ پاکستان کے وکلائ‘ طالب علم‘ نوجوان‘ محنت کش‘ کسان سمجھتے ہیں ملک کا مستقبل آئین سے مشروط ہے۔ پی ڈی ایم بہت مضبوط منشور پر زندہ ہے۔ جس نے بھی پی ڈی ایم کے اغراض و مقاصد سے بے وفائی کی وہ بہت  بھاری قیمت ادا کرے گا۔ پی ڈی ایم نے فیصلہ کیا ستائیس ممبران اعظم نذیر تارڑ پر اعتماد کر چکے ہیں۔ سینٹ قومی اسمبلی میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ پی ڈی ایم غور کرے گی۔ سب کی بقاء جدوجہد میں ہے۔ رانا ثناء اللہ خان نے کہا کہ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں معاملہ لے کر جائیں گے۔ مریم نواز کو سیاسی طور پر نیب نے نوٹس بھیجا، نیب اپنا کام درست طریقے سے نہیں کر رہا، یہ سیاسی انتقام تھا۔ مبینہ ویڈیوز شہزاد اکبر کے پاس بھی ہیں۔ لیگی رہنمائوں کاکہنا تھا کہ اگر پیپلزپارٹی نواز شریف سے قائد حزب اختلاف پر ووٹ مانگتی تو وہ بخوشی یہ عہدہ انہیں دے دیتے۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ہماری قیادت نے ضمنی انتخابات اور سینٹ الیکشن میں حصہ لینے کیلئے پی ڈی ایم قیادت کو قائل کیا جس میں ہمیں کامیابی نصیب ہوئی۔ ہم نے لانگ مارچ کیلئے مکمل تیاری کر رکھی تھی لیکن استعفوں کو لانگ مارچ کیساتھ منسلک کرنے پر ہم نے پی ڈی ایم سے مہلت مانگی تھی۔ پیپلزپارٹی کا ہمیشہ موقف ہے کہ پارلیمانی آپشن نہیں چھوڑنا، پارلیمنٹ کی آواز عوام کی آواز ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ میں 30ووٹوں کیساتھ سینٹ میں اپوزیشن لیڈر بن گیا ہوں۔ یہ میری نہیں پی ڈی ایم کی فتح ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پی ڈی ایم قائم رہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈبل بنچ یا سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف، سابق چیئر مین سینٹ سید نیئر حسین بخاری، سینیٹرز روبینہ خالد، پلوشہ خان اور نذیر ڈھوکی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پی ڈی ایم نے فیصلہ کیا کہ قومی اسمبلی سے سینٹ سیٹ پر میں امیدوار ہوں گا۔ ہم نے سب کیساتھ مل کر اس پر کامیابی حاصل کی۔ بلاول بھٹو کی تجویز تھی کہ تحریک عدم اعتماد لائی جائے۔ استعفوں کو آخری آپشن رکھا جائے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کہا کرتی تھیں 1985 کے انتخاب کا بائیکاٹ ہماری بڑی غلطی تھی۔ مشرف دور میں وطن واپس آکر بھی محترمہ نے نواز شریف کو تیار کیا کہ انتخابات میں حصہ لیں گے۔ بینظیر بھٹو  کی شہادت کے بعد نواز شریف نے ایک بار پھر الیکشن کے بائیکاٹ کی بات کی تاہم آصف زرداری نے انہیں الیکشن میںحصہ لینے پر قائل کر لیا۔ ہم نے پی ڈی ایم اجلاس میں درخواست کی کہ استعفے نہ دئیے جائیں، جمہوریت میں اختلاف رائے چلتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن یہ کہہ کر چلے گئے کہ دس میں سے نو جماعتیں متفق ہیں۔ ہمیں پی ڈی ایم نے وقت دیا کہ اپنی مجلس عاملہ میں جاکر فیصلہ کریں۔ ہماری مجلس عاملہ میں اس بارے غور ہوگا۔ یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ سینٹ میں لیڈر آف اپوزیشن کے معاملہ میں پی ڈی ایم کے ایک چھوٹے گروپ میں بات ہوئی۔ میرا انتخاب بہت سخت تھا۔ ہم نے پریس کانفرنس میں بات کی تھی کہ اپوزیشن لیڈر سینٹ کا فیصلہ اتفاق رائے سے کریں گے۔ آصف علی زرداری نے نواز شریف، فضل الرحمن سمیت سب سے رابطہ کیا۔ بہت سی جماعتوں نے ہم سے رابطہ کرکے کہا کہ یہ پیپلزپارٹی کا حق ہے۔ ان جماعتوں سے ہماری بات چلتی رہی۔ ہمارے پاس 21ووٹ تھے۔ جماعت اسلامی، اے این پی نے ہمارے ساتھ وعدہ کیا، فاٹا کے آزاد اراکین نے بھی ہماری سپورٹ کی، دلاور صاحب جن کا ن لیگ سے کافی تعلق تھا انہوں نے چار آزاد اراکین کا گروپ بنایا۔ اس آزاد گروپ نے ہمارے ساتھ تعاون کیا اور ہمارے30 ووٹ بن گئے۔ اس طرح سے میں سینٹ میں اپوزیشن لیڈر بن گیا۔ میں پہلے ہی چیئرمین سینٹ بن چکا تھا جو کیس اب عدالتوں میں ہے۔ آج مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما کی جانب سے بیان آیا ہے کہ یہ سرکاری اپوزیشن ہے۔ سرکاری اپوزیشن ہونے کا تاثر دینا درست نہیں ہے۔ ماضی میں لوگ مجھے (ن) لیگ کا وزیر اعظم کہتے تھے۔ میں پاکستان کی تاریخ کا واحد اتفاق رائے سے بننے والا وزیراعظم تھا۔ ہم چاہتے ہیں کہ پی ڈی ایم قائم رہے۔ پی ڈی ایم کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اکٹھے ہیں۔ میں اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلوں گا۔ میں سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر عوام کے حقوق کی جنگ لڑتا رہوں گا۔ بلاول بھٹو زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا جس میں بلاول نے یوسف رضا گیلانی کو سینٹ میں اپوزیشن لیڈر بننے کی مبارک باد دی۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن کے تمام سینیٹرز کو ساتھ لے کر چلنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ آپ سینٹ میں عوام دشمن حکومتی اقدامات کے خلاف اپوزیشن کی بھرپور ترجمانی کریں۔ اپوزیشن مل کر اور متحد رہ کر حکومت کو ہر محاذ پر شکست دے سکتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے  عوامی نیشنل پارٹی خیبرپی کے کے صدر ایمل ولی خان کو فون کیا اور اپوزیشن لیڈر کیلئے پی پی امیدوار کی حمایت پر شکریہ ادا کیا، ایمل ولی خان نے سینٹ میں پی پی پی کا اپوزیشن لیڈر منتخب ہونے پر مبارک باد دی۔ نجی ٹی وی کے مطابق قبل ازیں رہنما پیپلز پارٹی سینیٹر شیری رحمن نے اپنے امیدوار کے لیے 30  سینیٹرز کی حمایت حاصل ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ پیپلزپارٹی کا حق تھا، پی ڈی ایم کا کوئی جنازہ نہیں پڑھا گیا۔ احسن اقبال نے کہا ہے کہ سراج الحق نے بالٓاخر جماعت اسلامی کا پیپلز پارٹی سے الحاق کر دیا۔ سراج الحق ڈسکہ الیکشن ‘ چیئرمین ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں غیر جانبداری کا اعلان کرتے رہے۔ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کو نیا سفر مبارک ہو۔ ذرائع کے مطابق مریم نواز شریف کے زیر صدارت ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے اجلاس میں کہا اس حوالے سے شدید تحقیقات کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس  میں لیگی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت حاصل کرکے پی ڈی ایم کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ لیگی رہنماؤں نے اس بات پر شدید  برہمی  کا اظہار اور شکوے کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کو ساتھ لے کر چلنا اب مشکل ہوگا۔ پیپلز پارٹی اب سرکاری اپوزیشن بننے جا رہی ہے۔ بی اے پی کے سینیٹرز نے پیپلز پارٹی کی حمایت کیوں کی، اب سب چیزیں سامنے آ گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سب کو پتا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کس کے کہنے پر پیپلز پارٹی کو ووٹ ڈال رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو اب سختی سے کہا جائے گا کہ جب پی ڈی ایم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ سینٹ میں اپوزیشن لیڈر (ن) لیگ کا ہوگا تو پیپلز پارٹی نے ایسا کیوں کیا۔ ذرائع کے مطابق لیگی رہنماؤں نے کہا کہ اب پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کے ساتھ چلنا مشکل ہو گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے اپنا اپوزیشن لیڈر لانے پر اپوزیشن کی اکثر جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا۔ ذرائع  کے مطابق پیپلزپارٹی کے سینیٹر یوسف رضا گیلانی کے سینٹ میں اپوزیشن لیڈر مقرر ہونے پر پی ڈی ایم میں اختلافات مزید بڑھتے نظر آرہے ہیں اور اپوزیشن کی اکثر جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ  مولانا فضل الرحمن  پی ڈی ایم کے قائدین کے ساتھ ٹیلیفونک رابطہ کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کی قیادت کے درمیان آپس میں ٹیلیفونک رابطہ ہوا، جس میں مسلم لیگ (ن) کی اعلی قیادت نے پیپلز پارٹی کے فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ مولانا فضل الرحمن بھی پی ڈی ایم اتحاد کو نظر انداز کرنے پر پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سے خفا ہیں۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف بھی پیپلز پارٹی کے فیصلے پر نالاں ہیں اور انہوں نے مولانا فضل الرحمن سے اس حوالے سے بات بھی کی۔ دونوں رہنماؤں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ پہلے مولانا غفور حیدری کو ووٹ نہیں دیا اور پھر اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر بھی پیپلز پارٹی نے سولو فلائٹ لی۔

ای پیپر دی نیشن