خواتین کا عالمی دن ، ’’گشت‘‘ اور بازگشت 

خواتین کے عالمی دن کی بازگشت چند سالوں سے ایسے تواتر سے سنائی دے رہی ہے۔ جس کی گونج سارا سال ہر جگہ موجود رہتی ہے۔کہیں ڈھول کی تھاپ پہ رقص کے ساتھ اپنے ہونے کا بلند بانگ دعوی سنائی دیتا ہے اور کہیں تسلی کے لیے حقوق کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ حقوق کی اس جنگ نے گروہی تعصبات کو فروغ دیا ہے۔اس میں حمایت و مخالفت کی سیاست رنگ دکھا رہی ہے۔بلند آواز لے کے ساتھ حقوق کے راگ میں دلیل اپنا رنگ کھو چکی ہے۔اس بے ہنگم منظر نامے میں باشعور ، مدلل اور تخلیقی اذہان کی صدا بہت خوب صورت اور باعث تسکین محسوس ہوتی ہے۔خاص طور پر احساس ذمہ داری سے مزین دماغ کی سوچ جب الفاظ میں ڈھلتی ہے۔لگی بندھی پریڈ کا یہ جواب کس قدر پر اعتماد اور خوب صورت ہے۔’’تعلیمی ادارے نعرے بازی پر یقین نہیں رکھتے بلکہ علمی بحثوں اور ادبی تجزیوں سے معاشرتی مسائل کو جانچنے اور بہتر اقدار کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں‘‘
مکالمہ اور دلیل استاد کا بنیادی وصف ہے سو ڈاکٹر صائمہ ارم کا یہ جواب ایسے منتشر اذہان کی تشفی میں مددگار ہو گا۔اسی لیے عالمی یوم نسواں کی مناسبت سے، جشن ساحر کی افتتاحی نشست میں، ڈاکٹر الماس خانم (استاد شعبہ اردو جی سی یونیورسٹی لاہور) کی تحریک اور شعبہ اردو کی تائید پر پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی وائس چانسلر جی سی یونیورسٹی لاہور نے یونیورسٹی کی ڈیڑھ سو برس سے زائد کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ’’بانو قدسیہ مجلس برائے صنفی آگہی‘‘ یعنی "
Bano Qudsia Society for Gender Sensitization"
کے قیام کی منظوری بھی دی اور اپنے خطاب میں اس کا اعلان بھی کیا. ڈاکٹر الماس خانم کو مجلس کا ایڈوائزر مقرر کیا گیا ہے اور اس مجلس کے فرائض میں بنیادی عمل ایسی بحثوں کا آغاز ہے جس میں صنفی مسائل کے ادراک اور پھر ان کے حل کی طرف راستہ تلاش کرنا ہے۔ پاکستانی جامعات میں صنفی آگہی کے حساس موضوع پر سنجیدہ گفتگو کا آغاز ایک ایسی روایت کا آغاز ہے جس میں راستے مشکل نہیں رہتے۔سر کے بل سفر سے آتش کی مراد شاید ایسا ہی سفر تھا جس میں سوچ و فکر کے جدید رویوں کی تلاش ہے۔دراصل ہمیں یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ حقوق و فرائض کی جنگ نہیں ہوتی ، شعور ہوتاہے اور یہ شعور نسلوں کو سونپا جاتا ہے۔ذمہ داری کا احساس اخلاقیات کے دائرہ کار میں رہے تو ہی حقیقی تبدیلی کی خواہش کی جا سکتی ہے۔ایک استاد ،وہ بھی ایک خاتون نے جس تدبر اور جدت سے لبریز رویوں کو جانچنے کا معیار طے کیا ہے وہ یقینا قابل ستائش ہے۔صنفی حساسیت سے مراد محض حقوق کی تکرار نہیں بلکہ صنفی امتیازی سلوک معاشرے میں موجود تمام اصناف کی حساسیت اور صنفی مساوات کے خدشات کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے تاکہ صدیوں سے رائج حاکمیت کے بے جا احساس اور رویے میں لچک پیدا کی جا سکے۔ اس شعبہ کو بیداری ، آگاہی اور بصیرت کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے جو صنفی انصاف کی بنیاد ہے۔ 
 صنفی کرداروں میں حساسیت کا تصور ذاتی اور معاشی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو کم کرنے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ صنف کی حساسیت جنس سے قطع نظر فرد کے لئے احترام پیدا کرنے میں معاون ہے۔ صنف کی حساسیت مرد و زن کی الزام تراشی نہیں بلکہ احترام و برداشت پر مبنی رویوں کو پروان چڑھانا ہے۔صنفی امتیاز محض شناخت کا عمل نہیں ، نہ ہی آزادی محض نعرہ ہے بلکہ یہ روایت و جدت کا وہ پل صراط ہے جس کو عبور کرنے کے بعد ہی ایک خوش حال ، پر اعتماد معاشرت کی تصویر دکھائی دے سکتی ہے۔ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری آواز کے لیے یونیورسٹیوں میں جدید خطوط پر نئے شعبہ جات کا قیام ہے۔سڑکوں پر نعروں کی آواز مکالماتی تفہیم سے کمزور ہوتی ہے۔ نعروں کو نسلوں تک منتقل نہیں کیا جا سکتا جب کہ مکالمے اور آگہی کا سفر جاری رہتا ہے۔امید ہے یہ آگہی ایک ایسے شعور کا پیش خیمہ ہو گی جس سے متوازن انداز فکر کو تقویت ملے گی۔جی۔سی یونیورسٹی جیسے تاریخی ادارے سے صنفی آگہی اور بانو قدسیہ کا تعلق یقیناً ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ شعبہ اردو کی دونوں استاد مبارک باد کی مستحق ہیں۔

ای پیپر دی نیشن