کرونا کی تیسری لہر

پچھلے برس جب کرونا کی پہلی لہرملک میں پھیلنا شروع ہوئی تو اسے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں افراد کرونا سے متاثر ہوئے۔ہزاروں افراد اس بیماری کو سمجھ نہ سکنے کے باعث اپنی جان سے گئے۔اپنی صحافتی اور فنی ذمہ داریوں کے باعث مجھے پورے ملک میں سفر کرنا ہوتا ہے۔لہٰذا یہ سفر کرونا کی پہلی لہر کے دوران بھی جاری رہا۔ رب کریم کے فضل و کرم اورکچھ حفاظتی اقدامات ، ہاتھ دھونا ، ماسک پہننا ، سینی ٹائزرکا استعمال اور فاصلے کا خیال رکھنا وغیرہ سے فائدہ ہوا۔ اسی طرح پچھلے اکتوبر میں دوسری لہر بھی گزرگئی۔ مختلف علاقوں کے سفر کے بعد مشاہدہ یہی ہے کہ من حیث القوم ہمارا رویہ زیادہ محتاط نہیں رہا۔ 2020ء میں لاک ڈاؤن کے باعث معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ غریب لوگوں میں دوکروڑ سے زائد افراد کا اضافہ ہوا۔ لاک ڈاؤن میں جو احتیاطی تدابیر ہم نے برتیں اسکے ختم ہوتے ہی سب بھلا دیں۔ بازاروں، اجتماعات، ریلیوں اور جلسوں میں رج کے بے احتیاطی کی ہے۔ اس میں عوام کے ساتھ حکومت اور اپوزیشن برابرکے شریک رہے ہیں۔ پچھلے برس دسمبر میں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور سے میں نے اہلیہ سمیت کرونا کی آزمائشی ویکسین لگوائی۔جزوی اطمینان ہوا کہ احتیاطی تدابیراور آزمائشی ویکسین کے بعد صورتحال قابو میں رہے گی۔ ان تمام باتوں سے بالا تر ہمیشہ سے میں ایک بات کا قائل ہوںکہ کرونا ایک چھپا ہوا دشمن ہے۔لہٰذا حفاظت بھی چھپی ہوئی ذات کرتی ہے۔ کرونا سے احتیاط کسی ایک فردکی نہیں بلکہ ہم سب کی مجموعی ذمہ داری ہے۔ اگر ایک شخص محتاط بھی ہو لیکن بازار، دفاتر اور اجتماعی جگہوں پر محتاط رویے نہ ہوں تو خود کو محفوظ رکھنا کافی مشکل ہوجاتا ہے۔ اب کرونا کی تیسری لہر خاصی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ وائرس پہلی دونوں لہروں سے زیادہ طاقتور اور ہئیت بھی تبدیل کر چکا ہے۔ اس لئے آزمائشی ویکسین لگوانے کے باوجود بھی کرونا حملہ آور ہوگیا۔اس بار اس کی علامات بھی کافی عجیب ہیں۔ مختلف لوگوں کو مختلف علامتیں ظاہر ہو رہی ہیں۔ میرے کیس میں سب سے پہلے پیٹ خراب ہوا۔ ساتھ ہی اسی رات تیز بخار ہو گیا۔ ڈاکٹر کے مشورے سے پہلے تو یہی سمجھ آیا کہ پیٹ کا علاج کیا جائے۔تیسرے روز گلے میں شدید تکلیف شروع ہوئی جو کہ ٹانسلز نہیں تھی۔ ڈاکٹر نے اینٹی بائیوٹکس دیں۔ چار روز استعمال کے بعد گلے کا درد اور پیٹ تو ٹھیک ہوئے لیکن طبیعت سنبھل نا سکی۔ شدید نقاہت اور سانس میں دشواری کی علامتیں ظاہر ہونا شروع ہو گئی۔ تو کرونا ٹیسٹ کروانے کا ارادہ کیا۔ چھوٹے بھائیوں جیسے ذوالقرنین رانا جو کہ ہیلتھ رپورٹر ہیں کے توسط سے جنرل ہسپتال میں کرونا ٹیسٹ کیلئے گیا۔ ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر سید جعفر حسین نے کافی انتظار کرانے کے بعد یہ کہہ کر واپس بھجوا دیا کہ آؤٹ ڈور مریضوں کے ٹیسٹ نہیں کر رہے۔اس دوران خیال آیا کہ کیوں نہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز جہاں سے آزمائشی ویکسین لگوائی ہے رابط کیا جائے۔ لہٰذا ڈاکٹر حسیب سے رابطہ کیا اور علامات بتائیں تو انہوں نے فوراً اگلے دن ٹیسٹ اور معائنے کا انتظام کر دیا۔ کرونا ڈیسک کی انچارج ڈاکٹر طیبہ نے اچھی طرح معائنے کے بعد سانس کی بحالی اور امیونٹی بہتر بنانے کی ادویات اور تجاویز دیں۔ ٹیسٹ کی رپورٹ اگلے دن آئی جو کہ نئے برطانوی وائرس ’’سارس کووڈ 2‘‘ پازیٹو تھی۔اسی دوران اہلیہ کو بھی علامات ظاہر ہونا شروع ہوئیں۔ان کا بھی ٹیسٹ ہوا تو یہی وائرس حملہ آور ہو چکا تھا۔ اب یہ معلوم ہوچکا تھا کہ کرونا کے نئے وائرس سے لڑنا ہے۔ ایک تنہا فیملی کے طور پر ہم دونوں کیلئے نہایت مشکل مرحلہ سامنے تھا۔ گھر میں ایک سے نو برس کے چار بچوں کے ساتھ تمام حفاظتی تدابیر کے ساتھ رہنا یقینی طور پرکافی مشکل تھا اس لئے پوری فیملی کو آئیسولیٹ کر لیا۔کرونا کی تیسری لہر میں وائرس میوٹیٹ ہو چکا ہے۔ میرے ذاتی تجربے میں یہ سانس کے ساتھ پورے اعصابی نظام اور قوت مدافعت پر شدید طریقے سے حملہ آور ہوتا ہے۔ کئی راتیں تو ایسی گزریں کہ لگتا تھا کہ جیسے کسی نے سختی سے کندھے جکڑ رکھے ہوں اور سینے کے درمیان سے روح کھینچ لے گا۔ مریض کو پتا نہیں چلتا لیکن وزن بھی تیزی سے کم ہونے لگتا ہے۔ میں نے خود تقریباً 9 کلو وزن کیا ہے۔ اس مرض میں بچاؤ کا بہترین طریقہ مستقل بھاپ کا استعمال ، وٹامنز اور منرلز سے بھرپور غذا کا استعمال ہے۔ جو کا دلیہ، دیسی چکن یا مٹن کی یخنی، دستیاب موسمی پھلوں میں، سنگترے،کیوی، امرود، چیکو، سیب، کیلے، پپیتا اور کھجور کا استعمال ضروری ہے۔ دارچینی، لونگ ،بادیان کے پھول ، ادرک اور پودینے کا قہوہ ہمراہ خشک میوہ جات (بادام، اخروٹ، کاجو) دن میں کم از کم دو بار توانائی بحال کرنے میں نہایت مدد گار ہیں۔ مجھے اس تمام غذا و دوا کا اہتمام کرنا بطور تنہا فیملی ایک مشکل ٹاسک تھا۔آن لائن خریداری سے کافی مدد ملی لیکن اس دوران یہ احساس ہوا کہ سماجی اعتبار سے ہمیں کرونا کے مریضوں کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہئے۔ بنا کہے ہی دوستوں، رشتہ داروں اور جاننے والوں کی حسب توفیق مدد کرنی چاہئے۔ سب سے زیادہ ذمہ داری ریاست کی ہے جوکہ تمام مریضوں کے کوائف رکھتی ہے۔ خاص طور پر ایسے لوگ جو وسائل نہیں رکھتے اور اگر اس وائرس کی زد میں ہیں تو انکی براہ راست مدد کی جائے۔ ہماری فیملی وقت مکمل کرنے کے بعد اب روبہ صحت ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا کرونا ٹیسٹ بھی پازیٹو آچکا ہے۔ رب کریم انہیں صحت یاب کرے۔ ہوسکتا ہے کہ اس تکلیف سے گزرنے کے بعد ان میں عام آدمی کا درد محسوس کرنے کی استعداد بڑھ جائے۔تمام حفاظتی انتظامات کے باوجود اگر وزیر اعظم متاثر ہو سکتے ہیں تو کوئی بھی اسکی زد میں آسکتا ہے۔ لہٰذا احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ 

ملک عاصم ڈوگر  …منقلب 

ای پیپر دی نیشن