کامیاب انسان وہ ہے جس نے زندگی میں کچھ ایسا کردکھایا ہو کہ مرنے کے بعد بھی لوگ اْس کے کام اور نام کو زندہ رکھتے ہیں۔سچ کہا کسی نے کہ جیو تو ایسے کہ لوگ ملنے کو ترسیں اور مروتو ہمیشہ یاد رکھیں۔مجھے کسی کا کہا ایک جملہ بہت پسند ہے کہ زندگی میں اتنی کامیابی حاصل کرلو کہ تمہارانام تمہارا آٹوگراف بن جائے۔ کامیاب لوگوں کا یوم وفات نہیں ہوتا اس لئے کامیاب لوگوں کا یوم پیدائش منانا اور یاد رکھنا مجھے پسند ہے۔ اگرچہ مارچ کا مہینہ انقلابی شاعر حبیب جالب کاوفات کا مہینہ بھی ہے لیکن مارچ میں ہی اس جرات مند کا یوم پیدائش بھی ہے۔حبیب جالب 24 مارچ1928ء کو ہوشیارپور(پنجاب)میں پیدا ہوئے جبکہ12مارچ 1993ء کو لاہور میں وفات پائی۔اس قدربے باک اور جرأت مند شاعر شاید ہی کوئی دوسرا پیدا ہوا ہو جس نے غریب عوام کے ترجمان کی حیثیت سے اپنی شاعری کے جوہر دکھائے۔سیاستدانوں کے خلاف ببانگ دھل لکھا اور پڑھا۔وہ بھی اس دور میں جب دومتنازعہ جملوں کی سزا جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوا کرتی تھی۔ جالب کا دور آمریت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کادور تھا، مکروفریب اور ریاکاری کا دور تھا۔غریب کے استحصال کا دورتھا۔ایسے میں ہر کوئی اپنا پلو بچا کر زندگی گزارتا ہے۔جالب اگرچہ فاقوں بھری زندگی بھی بسر کررہے تھے لیکن فاقہ کشی اور آمریت کے خوف نے ان پر اپنا تسلط قائم نہیں کیا وہ ان اہل علم و ادب میں سے نہیں تھے جوIllusionکا خیال کرتے ہوئے اپنے اور اپنے الفاظ تک کا سودا کردیا کرتے ہیں۔ایسے جرأت مندانہ الفاظ اْن کے سوا اور بھلا کون کہہ سکا ہے کہ…؎
میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
نہ آمروں کے کہنے پر چلے نہ اْنکے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنے۔کھیتوں میں کام کرنے والے ہاری اور ملوں میں کام کرنے والے مزدور اْن کی شاعری کو سمجھتے تھے لیکن بلندوبالا محلوں کے مکین اْن کی آواز پر یا تو اپنے کانوں پر ہاتھ رک لیا کرتے یا پھر اْنہیں یہ الفاظ سمجھ ہی نہ آتے اور نہ ہی سنائی دیتے تھے۔پاتال جیسی گہری اور ڈر بھری پراسرار خاموشی میں اپنی آواز کی صدا بلند کرنا اس طرح کہ ہر طرف اس آواز کی گونج سنائی دینے لگے اس کیلئے اپنے قدسے بڑے اورعمر سے زیادہ حوصلے اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر تو اپنے قدکے برابر بھی نہیں ہوتے۔
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا
جمہوری اقدار کی نمو کے خواب دیکھنے والے نے سارے عمر جمہوریت کی تگ وتار میں گزار دیئے۔ انقلاب پر آمادہ کرنے والے اس شاعر نے غریب عوام کے وکیل کا کردار ادا کیا اور ساری عمر اْس کی غربت کا مقدمہ لڑنے میں گزار دیا۔نظیر اکبرآبادی ہوں ، اکبر الہ آبادی یا فیض اور اسکے بعد حبیب جالب ہوں، ایک طبقہ تو ان شعراء کو شاعر ماننے ہی سے انکاری ہے۔ میرا سوال ہے کہ ایسے شاعر کیا خودزلف ورخسار کے قصیدوں سے باہر نکل کر کبھی سوچ بھی سکتے ہیں حسن وعشق کی بھول بھلیوں میں گم ان گمنام شعراء کے آج کتنے جان نثار اور یاد رکھنے والے ہیں۔مخصوص طبقے اور مخصوص موضوعات پر شاعری کرنے والا تو پھر شاعری کی دْنیا سے ہی جلاوطن کردیا جاتا ہے۔خیر یہ طبقہ تو علامہ اقبال کو بھی شاعر نہیں مانتا بلکہ اْنہیں فلسفی کہتا ہے۔اسی طبقہ کے باسیوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ حبیب جالب عارضی موضوعات پر شاعری کر رہے ہیں جوکہ تاریخ میں زندہ نہیں رہے گی۔تاریخ گواہ ہے آج بھی نہ صرف حبیب جالب زندہ ہے بلکہ اْس کی شاعری ہرزمانے کے اْونچے طبقے اور لاپراو سیاستدانوں پر اْسی طرح فٹ آتی ہے جس طرح انکے زمانے میں تھی۔ ہاں میں باغی ہوں آج بھی سیاستدان اپنی تقریر میں استعمال کرتے ہیں۔تو شاعری آج بھی ہوئی۔مرتے دم تک شاعر انقلاب نے اپنا مشن جاری رکھا اور ایک ہمدرد انسان، دل سوز کلام اپنے پیچھے بے شمار یادیں چھوڑ کر سفرآخرت کو روانہ ہوئے۔پرجاتے جاتے ایک راستہ دکھا گیا ایک شمع روشن کرگیا۔
جوصدائیں سن رہا ہوں مجھے بس اْنہی کا غم ہے
تمہیں شعر کی پڑی ہے مجھے آدمی کا غم ہے
میں ہوں شاعرزمانہ مرا اورہے فسانہ
تمہیں فکر اپنے گھر کی مجھے ہر گلی کا غم ہے
٭…٭…٭