کہروڑ پکا لاوارث تحصیل اوربے بس عوام

1991ء میں لودھراں کو ضلع کا درجہ ملا اور تحصیل کروڑ پکا بنی مگر یہاں چند لوگوں نے ہمیشہ اپنے مفاد کو مدنظر رکھا اور شہر کے بنیادی مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔موجودہ صورتحال کی طرف نظر دوڑائیں تو تقریباً تمام روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور سیوریج لائنیں تقریباً 35سال پرانی ہونے کی وجہ سے ہر وقت بند رہتی ہیں اور سیوریج کا گندا پانی سڑکوں پر ہر وقت جمع رہتا ہے۔ شہر کے عین وسط میں کہروڑ پکا کی مین داخلہ سڑک دنیا پور روڈ ٹیلی فون ایکسچینج کافی عرصے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ عرصہ قبل ضمنی انتخابات میںپیپلز پارٹی کے امیدوار کے مقابلہ میں جیت کرمحمد اختر خان کانجو نے کہروڑ پکا کے عوام کو سیوریج سسٹم سڑکیں اور سٹریٹ لائٹس کا تحفہ دیا تھا ، اب دس سال ہونے کو ہیں کوئی قابلِ ذکر ترقیاتی منصوبوں پر کام نہیں ھوا۔سابقہ بلدیاتی انتخابات کے بعد ترقیاتی منصوبوں کیلئے بے تحاشا فنڈز تو جاری ہوئے لیکن منتخب بلدیاتی ممبران کو ذاتی معیشت کو سنوارنے کا موقع فراہم کیا گیا جس کے نتیجے میں عام انتخابات میں ان ممبرانِ نے اپنے محسنوں کو کامیاب کروا کر بدلہ اُتار دیا۔ ادارے اور ایجنسیاں حقائق سے آگاہ ہونے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کر سکے۔اس طرح عوام کے ٹیکسز کی رقوم سے عوام کو توصرف مہنگائی و بدامنی ملی لیکن منتخب ممبران اور اداروں کے افراد خوشحال زندگی گزارنے کے قابلِ ہوگئے۔اسی طرح تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں کسی قسم کی کوئی سہولت موجود نہیں ہے اور اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو اسے فوراً بہاولپور ریفرکر دیا جاتا ہے۔ ہسپتال میں موجود ڈاکٹر نے اپنے پرائیویٹ کلینک بنا رکھے ہیں اور آنے والے مریضوںکو اپنی کلینک کی طرف روانہ کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہاں پر کوئی سہولت موجود نہیں ہے ۔
 تین بوائز ہائی سکول کے اساتذہ نے اپنی پرائیویٹ اکیڈمیوں کو آباد کیا ہوا ہے۔ شہر میں ایک ہائر سیکنڈری سکول اور ایک گرلز ہائی سکول ہے مگر عمارت نہ ہونے کی وجہ سے ہائی سکول کی کلاسز اب تک جاری نہ کی جاسکیں ۔ موجودہ اور سابقہ حکومت نے پٹواری کلچر ختم کرنے کیلئے اراضی سنٹر بنائے مگر اراضی سنٹرز نے پٹوارکلچرکا بھی ریکارڈ توڑ دیا اور سائلوں کو مزید ذلیل و خوار کرتے نظر آتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کو بری طرح ہوا میں اُڑا دیاگیا ہے۔ بااثر پٹواریوں کے فنکار منشی بدستور کام کر رہے ہیں انتقالات منشی لوگوں کے گھروں اور ڈیروں پر جا کر درج کر تے اور عملہ ریونیو افسران سے حکم دیکر پاس کرواتے ہیں۔ فاتر العقل بوڑھی خواتین اور غیر قانونی طور پر کمرشل اور سکنی عمارات کو زرعی رقبہ پر انتقالات کی شکایات زبان زدِ عام ہیں ۔
 تحصیل آفس میں ڈیڑھ ماہ قبل اسسٹنٹ کشمنر کاتبادلہ ہوا اور ابھی تک کوئی اسسٹنٹ کشمنر تعینات نہیں کیا گیا تین ماہ میں چار رجسٹری محرر تبدیل ہوئے مگر عوام کو کوئی سہولت نہ مل سکی اور جو بھی آیا اس نے اپنے طریقے سے کرپشن کاریکاڈ توڑا ، ہر رجسٹری پر ون پرسنٹ رشوت لینا اپنا مادری پدری حق سمجھتے ہیں اور نہ دینے والے کو اعتراض لگاکر کئی کئی روز تک پریشان کیا جاتاہے۔بالآخر اسے درباری فیس ادا کرنا پڑتی ہے۔ اسسٹنٹ کشمنر نہ ہونے کی وجہ سے عوام بے یارو مددگار ہیں ہر طرف مہنگائی کاطوفان اور چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کو ہے ۔نجانے کمشنر ملتان ڈپٹی کمشنر لودہراں اور تحقیقاتی ادارے سب علم ھونے کے باوجود اپنا کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔کیا کہیں یہ حکومت کو ناکام کرنے کی کوئی سازش تو نہیں۔ پولیس کی کارکردگی صفر ہے ۔آئے روز کوئی نہ کوئی ڈکیتی یا چوری کی وارداتیں ہوتی ہیں جھوٹی ایف آئی آر تو روایت بن چکی ہے ڈی پی او صاحب تو عوام اور پولیس دوریاں ختم کرنے کی پوری کوشش میں لگے ہوئے ہیں مگر پولیس میں چند کالی بھیٹروں کی موجودگی میں یہ دوریاں ختم نہیں ہو رہیں۔ ٹریفک اہکار اپنی روزی بنانے کے چکر میں شہر سے باہر جاکر ناکے لگا کر اپنی روزی بناتے ہیں اور شہر میں سارا دن ٹریفک جام رہتا ہے ۔میونسپل کمیٹی کے عملے کی کارکردگی یہ ہے کہ شہر میں ہر طرف گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں کیوں کہ میونسپل کمیٹی کو ختم کرکے ضلح کونسل کو فعال کیا گیا اور اس پر بھی عوام کو پریشانی کاسامنا ہے۔ یہ  تمام صورت حال دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاھے کہ بے بس عوام   جائیں تو جائیں کہاں؟

ای پیپر دی نیشن