اب سبھی خواب سچ ہو جائیں گے

خواہشیں ،امیدیں اور خواب زندہ و جاوید زندگی کی علامات ہیں ۔خواہشیں خوابوں کو اور خواب امیدوں کو جنم دیتے ہیں ۔جب تک آنکھوں میں خواب ہوں ،دل میں خواہشات ہوں اور امیدیں موجود ہوں تو سمجھیں آپ زندہ ہیں کیونکہ خواہشات دل کا ساتھ چھوڑ جائیں تو اذیت ہی اذیت رہ جاتی ہے اور پھر انسان جیتا نہیں بس وقت گزارتا ہے اور ایسی زندگی کسی کام کی نہیںہوتی ،بے حسی یوں طاری ہوتی ہے کہ احساس زیاں کا خیال ہی نہیں رہتا ۔ ہمارے ساتھ یہی ہوا ہے کہ برسر اقتدار آنیوالے ہر سیاستدان نے ہماری آنکھوں کو مستقبل کے سہانے خواب دیے لیکن خوابوں کے بدلے عذاب ملے چونکہ دو وقت کی روٹی میسر تھی اور ناجائز ٹیکسوں کا بوجھ بھی نہیں تھا بایں وجہ ایک موہوم سی امید رہتی تھی کہ
 لمبی ہے غم کی شام مگر
 شام ہی تو ہے آخر ڈھل جائے گی
 اورچین و سکون کی دولت جو ہمیں ساٹھ ستر دہائیوں میں نہ مل سکی بالآخرہماری نسلوں کو ضرور مل جائے گی ۔ ستم یہ ہوا کہ تبدیلی سرکار نے ایسے پر کیف خواب دکھائے کہ نیندیں ہی چھین لیںیعنی ایسی لاتعلقی اختیار کی کہ سب کہا بھلا دیا۔اب بس اذیت ہی اذیت ہے ۔بے ہنگم ،ہوس و بھوک اور عدم برداشت کا شکار بے حس معاشرہ ایک تعفن زدہ لاش کی مانند ہو چکا ہے جس پر کھڑے ہو کر کرتا دھرتاسینہ پیٹ پیٹ کر اپنی ناقص کارکردگیوں کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں لیکن کوئی کسی کی فریاد نہیں سنتا بلکہ اب جبکہ ہر کسی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا ہے تو سبھی سیاسی کاریگر اور رنگباز ایک مسیحائی کے دعوے دار بن کر چبوتروں پر چڑھ گئے ہیں اور عوام الناس کو پکار رہے ہیں کہ اپنے خوابوں کی گٹھڑی اٹھائو اور آجائو۔ ہم جادو کی چھڑی گھمائیں گے اور اب سبھی خواب سچ ہوجائینگے بالکل ایسے ہی جیسے میانوالی میں ایک پاپڑ بیچنے والے غریب کو مار مار کر جان سے مار دیا گیا اور جب وہ مر گیا تو سبھی جانوروں کی طرح لاش کے پاس پاس کھانا کھاتے رہے۔
کیا انسانی جان کی قیمت اتنی ارزاں ہوگئی ؟ کیاانسان درندوں سے بدتر ہوگیا ؟ وہ بھائی چارہ ،اخوت ،تحمل، بردباری اوربرداشت جو ہمارے دین اسلام کی بنیاد تھا وہ ہم نے کب، کیسے، کہاں اور کیوںکھویا ؟
’’ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں
ہم سا کوئی وحشی زمانے میں نہ ہوگا‘‘
دکھ یہ نہیں کہ ہم نے سب کھو دیا بلکہ یہ ہے کہ ہمیں احساس نہیں کھو چکے ہیں 
’’حادثہ سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر‘‘
دراصل یہ تباہی ہوس اقتدار و اختیارکے بھوکوںکی دو عملی لائی ہے کہ جو سرعام جھوٹ بو ل کردلکش خواب بیچتے ہیں،ریاکاروں اور ٹھکرائے ہوئے قلمکاروں کے ڈئیلاگ دیکھ دیکھ کر بولتے جاتے ہیں ،مجبور اور سادہ لوح معمولی انعام و کرام کے لالچ میں ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں اور یہ نام نہاد پیشہ ور سیاستدان ایک بار پھر تاج و تخت لوٹ لیتے ہیں ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ تقریروں میں ریاست مدینہ اور خلافت راشدہ کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے پھر بھی بھول جاتے ہیں کہ ان حکمرانوں کی رعایا پروری کا یہ عالم تھا کہ خوف الہی سے کانپتے تھے کہ ایک جانور کے بھوکا مرنے پر بھی روز حشر ان سے سوال ہوگا جبکہ یہاں کوئی بھوک سے مررہا ہے ،کوئی ہجوم میں مارا جا رہا ہے ،کسی کو لوٹا جارہا ہے اور کسی کو جلایا جا رہا ہے اور انھیں کرسی بچائو تحریک سے فرصت ہی نہیں ملتی ۔ بہرحال ایک بار پھر خوابوں کے سوداگر’’ امر بالمعروف‘‘ اور’’ تحریک عدم استحکام‘‘ کے نام پرمسیحائی کا لبادھا اوڑھ کرنکل پڑے ہیں جبکہ زندوں لاشوں کے ہجوم میںہر آنکھ سوالی ہے کہ جو خواب پہلے دکھائے تھے وہ کس نے پورے کرنے تھے ؟ اسی بے یقینی اور کرب کا اظہار جناب مجیب الرحمن شامی نے چند روز پہلے خاور سلیم آذر کے شعری مجموعے ’’بے خواب نیندیں‘‘ کی تقریب پذیرائی میں کیا کہ خان صاحب نے بھی بہت سے خواب دکھائے تھے مگر ؟سبھی نے ان کی بھرپور تائید کی ۔ چند روز قبل کشف درویش کے زیر اہتمام پنجابی کمپلیکس میں ایڈمن آفیسر سوئی گیس لاہور جناب خاور سلیم آذر کے دوسرے شعری مجموعے ’’بے خواب نیندیں‘‘ کی باوقار تقریب پذیرائی منعقد کی گئی۔ جس میں جناب مجیب الرحمن شامی ،خلیل الرحمن قمر ، نذیر قیصر ،منشا قاضی،ناصر رضوی، خالد شریف اور مجھ ناچیز سمیت ادبی و صحافتی دنیا کے چاند ستاروں کی کہکشاں موجود تھی بلاشبہ کشف درویش کے سرپرست اعلیٰ اعظم منیر نے ادبی و صحافتی دنیا کے زندہ لکھاریوں کی رسم پذیرائی کے اعتراف کی روایت قائم کر دی ہے جس کیلئے سبھی نے انکی کاوشوں کو سراہا اور جناب مجیب الرحمن شامی نے خصوصی طور پر اعتراف کیا جس میں مجھ ناچیز کا تنقیدی جائزہ بھی شامل ہے ۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...