دوستو آج ایک اہم مسئلے کی طرف توجہ دلانے کا دل چاہ رہا ہے۔مسئلہ کچھ ایسا ہے کہ اس بارے میں بہت سوچا اور پھر قلم چلائی۔ کچھ روز قبل مجھے گلے محلے کی آوارہ کتے کی وجہ سے شدید پریشانی کاسامنا کرنا پڑا۔ میں گھر جارہا تھا کہ وہ نجانے کیوں اور کیسے میرے پیچھے پڑ گیا۔ میری تو جیسے جان ہی نکل گئی مرتا کیا نہ کرتا میں نے جان چھڑانے کیلئے بھاگنا شروع کردیا وہ بھی اور تیز ہوگیا میری سانس پھول گئی۔بھلا ہو ایک واقف کار کا میں نے اس کے گھر میں گھس کر جان بچائی لیکن میں اس واقعے کوبرسوں تک نہیں بھول پایا۔ مدعا شہر کی گلیوں کے آوارہ کتے ہیں۔کراچی سمیت اندرون سندھ بلکہ سارے ملک میں گلی محلوں میں دن رات آوارہ کتے، جن میں پاگل کتے بھی شامل ہوتے ہیں، دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ کتے لوگوں کو کاٹتے، بھنبھوڑتے رہتے ہیں، بچے ان کا خصوصی نشانہ ہوتے ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ خون آشامی کا شکار زخمی جب ہسپتال جاتے ہیں تو وہاں کتے کے کاٹے کی ویکسین نہیں ہوتی۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ انتظامیہ اگر ان آوارہ کتوںکو ختم کرنے کیلئے کچھ کرنا بھی چاہے تو کچھ ’’ہم درد‘‘ سامنے آ جاتے ہیں بجا ہمدردی بجا لیکن انسان زخمی ہو رہے ہیں، ہوش کھو رہے ہیں، جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ دس بیس، سو پچاس کے باؤلے ہوجانے، دنیا سے اٹھ جانے سے ایسا کون سا فرق پڑ جائے گا۔ تاہم ایسے کچھ ہمدردوں کی بھی ایک ٹیم سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے ایسے پیغامات دیتی ہے کہ بڑے بڑوں کا دل پسیج جاتا ہے۔ عام صورتحال یہ ہے کہ کراچی ہو یا اندرون سندھ اور پنجاب آوارہ اور پاگل کتوں نے بستیوں اور آبادیوں میں ایک آفت برپا کر رکھی ہے۔
آوارہ کتوں سے جان چھڑانے کے لئے مہم تو ترجیحی طور پر غریب اور متوسط آبادیوں میں چلائی جانی چاہیے جہاں نہ صرف یہ کہ آوارہ کتوں کی بھرمار ہے بلکہ لوگوں کی بڑی تعداد پیدل اور موٹرسائیکلوں پر آتی جاتی ہے جن میں بچے، بوڑھے، عورتیں، مرد سبھی شامل ہوتے ہیں جبکہ بچوں کا اکثر تنہا بھی باہر نکلنا ہوتا ہے اور یہ لوگ آوارہ کتوں کا نشانہ بنتے ہیں جب کہ پوش علاقوں میں صورت حال مختلف اور لوگ مقابلتاً محفوظ ہوتے ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جانوروں کے حقوق پر بات کرنے والے آوارہ کتوںکو ختم نہ کرنے کاتو کہتے ہیں لیکن اسکے ساتھ ساتھ اس کا کوئی حل نہیں بتاتے۔ میونسپل اداروں کے پاس بڑا سادہ حل ہے جان چھڑانے کا، زہر آلود خوراک اندھیرے میں سڑکوں پر پھینک دو؛ افسوس صد افسوس ہے تو یہ غلط لیکن کیا کیاجائے کوئی حل بھی تو نہیں بتاتا۔اور تو اور اگر قبرستانوں میں دیکھا جائے تو یہ آوارہ کتے جابجا ہوتے ہیںاورا س طرح سے قبرستان آنے والے بھی پریشانی کا شکار ہوتے ہیںاور قبرستان انتظامیہ بھی اس سلسلے میں بے بس ہی نظر آتی ہے۔ہمارے معاشرے میں اس سے بڑا کام رکھوالی کا لیا جاتا ہے۔ صرف گھروں کا محافظ نہیں بلکہ قوم کی حفاظت میں بھی اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ ہمارے اداروں کے پاس کتوں کی ایک تعداد موجود ہے جو دھماکہ خیز مواد کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایک مخصوص ادارہ ہے جہاں ان کو خاص اس کام کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔کتا شکار میں بھی مدد دیتا ہے۔ قدرتی آفات میں انسانوں کو تلاش کرسکتا ہے، جانوروں کے ریوڑ کو کنٹرول کرنے میں بھی اس کا کردار ہوتا ہے۔ نابینا اور معذور افراد کا سہارا بھی بنتا ہے۔ کھیل کود سمیت اور بھی بہت سارے کام ہیں جو دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف انداز کے ساتھ کتوں سے لئے جاتے ہیں۔کچھ تعمیری سوچ کے افراد کاکہنا ہے کہ آوارہ کتوں سے جان چھڑانے کا ایک طریقہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت کوئی ایسی جگہ مخصوص کردے جہاں آوارہ کتوں کو محدود کر دیا جائے۔ یقیناً یہ ممکن نہیں کہ جہاں انسانوں کو بنیادی حقوق میسر نہ ہوں وہاں اس درجہ کی پلاننگ کی توقع کس طرح کی جا سکتی ہے۔ دوسرا طریقہ یہ کہ عوام آوارہ کتوں کو پالنا شروع کردے لیکن بھی ممکن نہیںہے۔کتا آوارہ ہو یا کسی کے گھر کا پلا ہوا، ایک بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ وہ جاندار ہے اور تکلیف کو اسی طرح محسوس کرتا ہے جیسے ہم کرتے ہیں اس لئے زہر کا استعمال کسی طرح سے بھی مناسب نہیں ہے۔ اس طرح کھلے عام زہر پھینک دینے سے انسانی جان کے ضیاع کا بھی خدشہ ہے۔ کتوں کو مارنے کے ان کی بڑھتی نسل کو کنٹرول کیا جائے یعنی کتوں کی خاندانی منصوبہ بندی ہونی چاہئے تاہم اسکے لئے بھی باقاعدہ منصوبہ بندی ضروری ہے۔
دوستو!مدعا صرف یہ نہیں ہے بلکہ جس طرح آبادی بڑھ رہی ہے اسی طرح بے ہنگم ٹریفک کا مسئلہ بھی ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت شدید ہوجاتا ہے جب سورج میاں آنکھیں دکھاتے ہیں یا پھر ہمارے شہر میں میچز کا انعقاد ہوتا ہے۔ سرکاری حکام تو یہ کہتے نظر آتے ہیںکہ شہریوںکی سہولت کیلئے سارے انتظامات ہیں۔ لہذا ہر شہری کو اپنا کردارادا کرنا ہوگا تاکہ معاشرے کابگاڑ ختم ہوسکے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی