ملتان کا ادبی میلہ


آج کل موسم بہار میں ہر طرف جشن بہاراں منانے اور سجانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ مختلف شہروں میں کئی علمی و ادبی میلے ٹھیلے منعقد کیے جا رہے ہیں، کہیں ان میلوں ٹھیلوں کا ٹھیکہ چند مخصوص افراد کے حوالے کر کے انھیں ناکام کرانے کا خود ہی اہتمام کر دیا جاتا ہے اور کہیں عوام کی شرکت سے یہ کامیاب پاتے ہیں۔ شہرِ اولیاءمیں عوام کے لیے پھولوں کی نمائش اور جشن بہاراں کا جو اہتمام ہوا اس میں عوام کی دلچسپی دیدنی رہی جس کے لیے ضلعی انتظامیہ پی ایچ اے کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ تاہم دو روزہ ادبی میلہ ادب کے چند ٹھیکے داروں کی وجہ سے وہ پذیرائی حاصل نہ کر پایا جس کی بہاولپور کے شاندار ادبی فیسٹیول کے بعد اہل ملتان توقع کر رہے تھے گویا صورتحال اس شعرکے مصداق رہی:
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ¿ خوں نہ نکلا
ہمارے جنوبی پنجاب والے سارا سال اپنی محرومیوں، پسماندگی اور نا انصافیوں کا رونا روتے رہتے ہیں اور جب کسی حکومتی پلیٹ فارم اور گورنمنٹ کے فنڈز سے کسی اہم تقریب یا میلے کا اہتمام ہوتا ہے تو پھر صورتحال ’وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور کی چھت پر برس گئیں‘والی دکھائی دیتی ہے۔ اپر پنجاب اور تخت لاہور کی پذیرائی میں اپنے وسیب اور اپنے وسیب کے لوگوں کو نظر انداز کر کے پس پشت ڈال دیا جاتا ہے جبکہ بڑے شہروں والے بھی شاذ ونادر ہی جنوبی پنجاب والوں کی پذیرائی کرتے ہیں، سو یہی حال جنوبی پنجاب کے دو روزہ ادبی میلے کا بھی ہوا جس میں چند مخصوص افراد کی ذاتی خواہشات اور پسند و ناپسند نے پورے جنوبی پنجاب کے ادیبوں، شاعروں کو ناراض کر دیا۔ جنوبی پنجاب کے اہل قلم خواہ وہ شاعر ہوں یا ادیب، توانا آوازاور قد آور شخصیات کے مالک ہیں، ایسے میں بہت سے سینئر اور نمائندہ اہل قلم کو نظر انداز کر کے اس ادبی میلے کی افادیت اور اہمیت کو ختم کر دیا گیا۔ 
جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ نے اس میلے کے لیے نمائندہ ادیبوں، شاعروں کی مشاورتی کمیٹی بنانے کی بجائے اسے چند مخصوص افراد کے حوالے کر دیا جنھوں نے اسے عام لوگوں سے دور رکھنے کی حتی المقدور کوشش کر کے خود ہی اسے فلاپ کر دیا۔میڈیا اور سوشل میڈیا پر مختلف علمی اور ادبی تنظیموں نے اس حوالے سے اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے۔ اگر میلے کے فنڈز کو سوچ سمجھ کر استعمال کیا جاتا تو جنوبی پنجاب کے بہت سے شعراءکرام کو نمائندگی دے کر ان کی دلجوئی کی جاسکتی تھی۔ خطے کی بیشتر خواتین شاعرات کا بھی گلہ ہے کہ انھیں آٹے میں نمک کے برابر بھی نمائندگی نہیں دی گئی۔ بہت سے سینئر شاعر اور ادیب بھی ایک دوسرے سے اس ادبی میلے میں نہ بلائے جانے اور نظر انداز کرنے پر گلہ شکوہ کرتے نظر آئے۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی انتظامیہ اور ان کے تعاون کرنے والے اداروں کی اس پہلی کاوش کا یہ اقدام یقینا لائق تحسین تھا مگر چند مخصوص افراد کی اس دو روزہ میلے میں اپنی پسند اور ناپسند کے ناموں کو شامل کرانے اور نکالنے کی دوڑ نے انتظامیہ کے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا بلکہ اس سارے میلے میں رانجھے سب کے سانجھے کی صدائے بازگشت ہی سنائی دیتی رہی۔
کراچی، لاہور، فیصل آباد اور بہاولپور میں منعقد ہونے والے فیسٹول میں زیادہ سے زیادہ اہل قلم اور جینوئن ادیبوں کو شامل کر کے انھیں کامیاب بنوایا گیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس میلے کے کرتا دھرتا اپنے علاوہ بھی کچھ لوگوں کو اس میلے ٹھیلے میں شامل کر لیتے تو اکثر لوگ اس میلے میں اپنے کمبل گم ہونے کا واویلا نہ مچا رہے ہوتے۔ سرکاری اداروں کے اربابِ بست و کشاد شہر کے سبھی اہل قلم سے واقف نہیں ہوتے بس دربار سرکار تک رسائی حاصل کرنے والوں کی معلومات پر ہی تکیہ کر لیتے ہیں، سو ان اداروں کو سن گن رکھتے ہوئے اپنی معلومات میں بھی اضافہ کرنا چاہیے جبکہ سرکاری اداروں میں کسی بھی گروپ بندی یا لابنگ کی حوصلہ شکنی بھی کرنی چاہیے جس کا بہترین حل یہ ہے کہ آرٹس کونسل اور دیگر علمی و ادبی اداروں کی تقاریب منعقد کروانے اور مشاورت کے لیے شہر کے نمائندہ اور غیر جانبدارا اہل قلم پر مشتمل مشاورتی کمیٹیاں بنائی جائیں تاکہ کسی کی ذاتی پسند ناپسند اور مفادات کے حصول کی نوبت ہی نہ آئے اور تمام معاملات خوش اسلوبی سے میرٹ کے مطابق حل کیے جا سکیں۔ اس حوالے سے چیف ٹریفک آفیسر را¶ محمد نعیم شاہد نے شہر کی نمائندہ شخصیات پر مشتمل افراد کی مشاورتی کمیٹی کو فعال کیا ہے جو ایک لائق تقلید و تحسین اقدام ہے۔ حال ہی میں تعلقات عامہ کے ادب اور کتاب دوست اصغر خان کو ایڈیشنل سیکرٹری ثاقب ظفر کا رابطہ افسر مقرر کیا گیا ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔ یقینا وہ مستقبل میں اس حوالے سے فعال رہیں گے اور اس طرح کی مشاورت سے انتظامی اداروں کی تقاریب اور ادبی و ثقافتی میلوں سے بھی وہ نتائج حاصل ہو پائیں گے جو ادارے یا اس خطے کے عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق ہوں بصورتِ دیگر :
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے 
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...