ایک شخص سڑک کنارے کھڑا گنڈیریاں چوس رہا تھا۔ اس کی چوس کر پھینکی ہوئی گنڈیریاں پاس کھڑا دوسرا آدمی اٹھاتا اور اپنے منہ میں ڈالتا جاتا۔ پہلا بولا،’تم کتنے کمینے ہو کہ میری زمین پر پھینکی ہوئی گنڈیریوں کے چھلکے اٹھا کر چوس رہے ہو؟‘ ’اپنی کمینگی کے بارے کیا خیال ہے ، تم ان چھلکوں میں کوئی رس کہاں چھوڑتے ہو ؟‘ دوسرے کا جواب تھا۔ امیر غریب ، کمزور طاقتور، دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں۔انسانی معاشرے میں طبقات ختم نہیں کیے جا سکتے۔ ان کا وجود ایک فطری امر ہے۔ ایک طبقہ دوسرے طبقے کا استحصال کرتا ہے۔ مغربی معاشرے میں اوپر والا طبقہ نچلے طبقوں کے لیے اتنا کچھ ضرور چھوڑ دیتا ہے کہ وہ زندہ رہے۔ اسی لیے وہ اپنے مزدوروں کی صحت ، علاج معالجہ ، روٹی پانی اور رہائش کی فکر رکھتا ہے۔ ادھر، ہمارا بالا دست طبقہ بہت ظالم ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایک مزدور مر جائے گا تو اس کی جگہ لینے کئی حاضر ہوں گے۔ ’ماشاءاللہ‘ہمارے ہاں آبادی بہت ہے۔ اسی لیے لیبر بھی سستی اور وافر موجود ہے ۔
مسلم لیگ کا المیہ یہ ہے کہ اس میں نیا ویژن رکھنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پھر ان کے کارکنوں میں حسن ناصر شہید سا ایک بھی نہیں۔یہ امیر کبیر گھرانے کا درد دل رکھنے والا نوجوان تھا۔ اسے اپنی نہیں دوسروں کی بھوک بے چین رکھتی تھی ۔ مسلم لیگ بنیادی طور پر نوابوں ، جاگیرداروں اور آجروں کی جماعت تھی۔ اس طبقے سے جو چندلوگ مسلم لیگ میں شامل ہونے سے رہ گئے وہ تحریک پاکستان کے آخری دنوں میں جا شامل ہوئے۔ نواب آف کالا باغ کو جب پنجاب کے آخری برطانوی گورنر Sir Evan Mereditchنے بتایا کہ ہم جلد ہندوستان چھوڑ کر جا رہے ہیںتو اس نے اسی وقت مسلم لیگ میں شامل ہونے کا ارادہ ظاہر کیا۔ انگریز گورنر کے پوچھنے پرکہ کیا اس سلسلے میں اسے کوئی دقت تو پیش نہ آئے گی؟ وہ کہنے لگا، میں کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کو باقاعدگی سے چندہ دیتا چلا آرہا ہوں۔ ان لوگوں کے اپنے طبقاتی مفادات تھے۔ لیکن قائد اعظم کی قد آور شخصیت کے باعث ان کی زندگی میں انھیں اپنا کھیل کھیلنے کی جرا¿ت نہ ہو سکی۔
ان کی بے وقت موت کے بعد قیام پاکستان کے مخالف مذہبی گروہوں کے ساتھ مل کر انھوں نے ملک کو انتشار اور لاقانونیت کی ایسی راہ پر دھکیل دیا جس سے ہم آج تک ہٹ نہیں سکے۔ قائد اعظم کے بعد ہمارا کوئی ہیرو نہ رہا۔ قومی سطح پر کسی قومی ہیرو کی غیر موجودگی بے سمتی کی احساس کو جنم دیتی ہے۔ 68ءکی عوامی تحریک نے بھٹو کی شکل میں قوم کو ایک ہیرو مہیا کر دیا۔ پھر ایک بڑے قومی المےے سقوط ڈھاکہ کے بعد نئے قومی سفر کا آغاز ہوا۔ 73ءکے متفقہ آئین نے ملک میں قانون کی حکمرانی کی راہ ہموار کی۔ قدرے سمت کا احساس ہونے لگا لیکن 77ءکی مارشل لاءنے قوم کو پھر اندھیری راہ میں دھکیل دیا۔ اسی مارشل لاءنے ہمارے طویل سیاسی عمل کو بے اثر کر کے ہمارے ہاں لسانی، مذہبی اور علاقائی تعصبات کا اک طوفان کھڑا کر دیا۔ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا ہندوستان جاگیرداروں اور راجواڑوں سے کب کی نجات پا چکا۔ادھر جنرل ضیاءالحق کے ساتھ ہی جاگیرداری سے نجات کا پروگرام ہماری سیاست کو نگل چکا ہے۔ اب جاگیرداری کا خاتمہ تو دور کی بات ، ہمارے ملک میں زرعی ٹیکس کا نفاذ بھی ممکن نہیں رہا۔
ہماری تمام سیاسی جماعتیں جاگیرداروں کے نرغے میں ہیں۔ نہایت چابک دستی سے دین اسلام کو جاگیرداری کی حمایت میں لا کھڑا کیا گیا۔ جاگیروں پر ہاتھ ڈالنے کا مطلب سوشلزم لیاجاتا ہے ۔ حالانکہ ہندوستان میں وراثتی جاگیروں کا آغاز انگریزوں نے اپنا وفادار طبقہ پیدا کرنے کے لیے کیا تھا۔ اسلام کی تفسیر اور تشریح قبائلی نظام کی صورت میں کی جا رہی ہے۔ اسلام کے بنیادی اصولوں سے قطع نظر اسلام کو محض رسومات اور عبادات تک محدود کیا جارہا ہے۔ اسلام کی برکتوں، علم، تدبر اور فقر کا کہیں ذکر نہیںکہ اس سے موجودہ لوٹ کھسوٹ کے نظام پر زد پڑتی ہے۔ ہمارے علماءنے دور جدید کے تقاضوں کے مطابق اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے کوئی علمی کام نہیں کیا۔ علامہ اقبال کی اس سلسلہ میں مولانا سلیمان ندوی سے ملاقات رہی ۔ انکے درمیان یہ سوال زیر بحث تھے ۔ اول، اسلامی ریاست میں انتخاب کا طریقہ کیا ہوگا؟دوسرا سوال ریاست کے مالیاتی نظام کے بارے میں تھا۔ اس سلسلہ میں سود کی تشریح کی ضرورت ہے ۔ تیسرا سوال اسلامی ریاست میں عورت کی سماجی حیثیت کے بارے میں ہے ۔ چوتھا سوال یہ تھا کہ اجتہاد کون کریگا؟ علامہ اقبال یہ اختیار پارلیمنٹ کو دینے کے حق میں تھے لیکن اس سلسلے میں اسمبلی کی رکنیت کی اہلیت کیلئے بہت سی علمی شرائط کی ضرورت پڑے گی ۔
اس سلسلے میں یہ بات قابل غور ہے کہ ہمارا سیاسی ڈھانچہ بی اے کی شرط بھی برداشت نہیں کر سکا۔ 2011ءمیں یادگار پاکستان میں ایک نئے قومی ہیرو کا ظہور ہوا۔ نوجوان پڑھی لکھی ، قدرے خوشحال نسل نے جانبدار عمران خان کی قیادت میں موجودہ سیاسی سیٹ اپ سے بیزاری کا اظہار کر دیا لیکن ہمارا قومی مرض اتنا شدید ہے کہ عمران خان کا اس کیلئے ہومیو پیتھک سا علاج محض کرپشن کی روک تھام اور ٹیکس کلیکشن کافی و شافی دکھائی نہیں دے رہا۔ اب ہمارے قومی امراض کا آپریشن کے بغیر علاج ممکن نہیں۔ ہمارا باوسائل طبقہ ایثار کرنے کو قطعاً تیار نہیں۔ یکطرفہ احتساب اک مذاق بن چکا ہے ۔ یہ برملا اعتراف کیا جارہا ہے کہ ہمارے معاشرے نے کرپشن قبول کر لی ہے ۔ کون چور ہے اور کون سادھ، یہ بات اب بامعنی نہیں رہی ۔ کھاتے پیتے لوگ ، کھا پی کر ’آپھر‘ چکے ہیں۔ چھوٹی موٹی کٹیا ، قبر ، پاپی پیٹ بھرنے کو اناج ، سب ماڑے بندوں کی پہنچ سے باہر ہو گیا ہے ۔