میں نے اپنے سابقہ کالم میں لکھا تھاکہ جب مئی 1947ءمیں تقسیم ہند کا فیصلہ ہوا تو سب سے مشکل کام جی ایچ کیو کی تقسیم تھی جس میں لاکھوں فائلز کی چھانٹی درکار تھی۔ بد قسمتی یہ ہوئی کہ ہمارے پاس کوئی ایسا ٹیکنیکل سٹاف بھی موجودنہ تھاجو یہ کام کرسکتا جی ایچ کیومیں کام کرنے والاکلریکل سٹاف ہندوو¿ں اور سکھوں پر مشتمل تھا۔ میجر رینک تک آفیسرز بھی ہندو یا سکھ تھے۔اِس سے اوپر تمام آفیسرز انگریز تھے، لہٰذا ان سے کسی قسم کے تعاون کی امیدبھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ حکومت نے اردگرد کی تمام یونٹوں میں مسلمان آفیسرز تلاش کیے جو پاکستان کے لیے سامان علیحدہ کرتے۔ محض کچھ لفٹین اور کپتان رینک کے آفیسرز ملے جنھیں اِس کام کے لیے جی ایچ کیو پوسٹ کیا گیامگر یہ بری طرح ناکام ہوئے کیونکہ ایک تو انھیں کوئی تجربہ نہ تھادوسرا اِن سے کسی نے تعاون ہی نہ کیا، لہٰذا کسی مسلمان سینئر آفیسرکی تلاش شروع ہوئی تو پونا میں مقیم ایک راجپوت رجمنٹ میں میجر حق نواز ملا جسے فوری طور پر جی ایچ کیو پوسٹ کر دیا گیا۔ جی ایچ کیو میں اسے لیفٹیننٹ کرنل کے رینک پر ترقی دے کر پاکستان کے لیے فائلز علیحدہ کرنے کا کام سونپ دیا گیا۔کرنل حق نواز نے دائیں بائیں یونٹوں سے مسلمان کلرک اکٹھے کر کے دن رات محنت کی اوربالآخرپاکستان کے حصے کی فائلز علیحدہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔پھر یہ سامان سپیشل ملٹری ٹرینز میں پاکستان بھیجنا شروع کیا۔حفاطت کے لیے بلوچ گارڈ ساتھ روانہ کی جس نے شاندار ڈیوٹی سرانجام دی۔تین ٹرینیں تو باحفاظت پاکستان پہنچ گئیں لیکن چوتھی ٹرین کو بہادر گڑھ کے ریلوے سٹیشن پر آگ لگا دی گئی۔کوشش کے باوجود یہ ٹرین بچائی نہ جا سکی۔
اسی دوران دہلی میں سخت ہنگامے پھوٹ پڑے۔ مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ ہندو بلوائی بھڑتیے بن گئے۔ مسلمانوں کو ڈھونڈڈھونڈ کر مارنا شروع کیا۔یہ بڑی حیران کن بات تھی کہ دہلی کم از کم آٹھ سو سال مسلمان حکمرانوں کا پایہ¿ تخت رہا۔ اس لحاظ سے تو دہلی پورا کا پورا مسلمان آبادی کا شہر ہونا چاہیے تھا مگر بد قسمتی سے ایسا نہ تھا۔ ہندو آبادی نہ صرف مسلمانوں سے زیادہ تھی بلکہ مسلمانوں سے زیادہ دولت مند اور طاقتور بھی تھی۔ ہندو آبادی مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھا نا چاہتی تھی۔اِن کی مدد کے لیے کچھ بیرونی شہروں سے تربیت یافتہ غنڈے بھی منگوائے گئے۔ اِن کا پروگرام تھا کہ کوئی بھی مسلمان یہاں سے زندہ بچ کر نہ جائے۔یہ لوگ آٹھ سو سال کی حکمرانی کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ہندوو¿ں کے مقابلے میں مسلمان باقی جگہوں کی طرح نہ صرف تعداد میں کم تھے بلکہ مالی طور پر بھی کمزور تھے۔ اور سب سے اہم بات کہ اِس خونی موقع کے لیے تیار بھی نہ تھے۔ مسلمانوں کا خیال تھا کہ اتنے عرصے سے ہم اکٹھے رہتے رہے ہیں۔ہمارے تعلقات بھی ہندوو¿ں سے بہت اچھے ہیں۔یہ لوگ الٹا ہماری حفاظت کریں گے۔ بھولے مسلمان ہندو ذہنیت کو سمجھ ہی نہ سکے۔
ہندوو¿ں نے جب جتھوں کی صورت میں حملے شروع کیے تو مسلمان جوابی طور پر کچھ بھی نہ کر سکے۔ہندو غنڈے کچھ نوجوان لڑکیاں بھی پکڑ کر لے گئے۔اب مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں تو وہ ایک خان بہادر کی حویلی میں اکٹھے ہوئے اور اپنی حفاظت کے لیے سوچ بچار کی۔پولیس تو ان کی حفاظت کے لیے تیار نہ تھی۔ وہ تو الٹا ہندو بلوائیوں کی مدد کر رہی تھی۔اِن حالات میں نگاہ فوج کی طرف اٹھی مگر فوج سے بھی کسی کا کوئی تعلق نہ تھا۔نہ ہی کوئی واقفیت تھی۔کوئی سینئر جنرل عہدے کا مسلمان بھی دہلی میں موجودنہ تھا، لہٰذا چند لوگوں کا وفد کرنل حق نواز سے آکر ملااور اپنی حفاظت کی درخواست کی۔کرنل صاحب کے پاس نفری تو نہ تھی جسے دہلی شہر میں بھیج کر ان کی حفاظت کا بندوبست کیا جاتا، لہٰذا کرنل صاحب نے کوئی اور راستہ نکالنے کا سوچا۔انھوں نے ایک دفعہ پھر نہایت جرا¿ت تمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہلی کے مسلمانوں کو پرانے قلعے میں جمع کر کے بلوچ رجمنٹ کی گارڈ لگا دی۔ کھانے کے لیے ہندوستانی حکومت سے اپیل کی۔ کچھ راشن وہاں سے ملنا شروع ہوا۔ باقی کرنل حق نواز نے کراچی اطلاع دی اور یہاںسے بھی جتنا ممکن ہو سکا بذریعہ ہوائی جہاز راشن پہنچایا گیا۔
ہنگاموں کے دوران ٹرینوں کا حصول ناممکن ہو گیا۔ بہادر گڑھ کے اسٹیشن پر ٹرین جلانے سے اندازہ ہوا کے بلوائی اب منظم حملے کر رہے ہیں اور اِن کے پاس خطرناک ہتھیار بھی ہیں۔ پاکستان جانے والا کوئی بھی راستہ محفوظ نہیں تھا، لہٰذا کرنل صاحب نے سامان بحفاظت پہنچانے کے لیے ایک اور طریقہ اختیار کیا۔ ان حالات میں کرنل حق نوازنے ایک ایک دو دو بوگیاں لے کر مختلف ملا ٹرینوں کے ساتھ لگا دیں لیکن ڈپٹی کمشنر اور سٹیشن ماسٹر نے بلوچ گارڈز ساتھ لے جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ کرنل حق نواز نے ہمت نہ ہاری اپنے آدمیوں اور سامان کو بغیر گارڈز کے بھیجنا مناسب نہ سمجھا، لہٰذا آدمیوں کو ٹرینوں سے اتارلیا گیا۔ اب کرنل حق نواز نے چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بنا کر اپنے آدمیوں کو بذریعہ فوجی جہاز اور عام جہاز بھیجنا شروع کیا اور ساتھ ضروری سامان بھی۔ یہ طریقہ کافی کارآمد رہا۔ علا وہ ازیں دونوں ممالک کے درمیان فوجیوں کی نقل و حرکت کے لیے جو ٹرینیں چل رہی تھیں ان میںبھی لوگ اور سامان بھیجنا شروع کیا۔ اس طرح بھی لوگ اور سامان بحفاظت منزل مقصود تک پہنچتے رہے۔
اس مقصد کے لیے ٹروپ بسز (Troop Buses) کی سروس سے بھی استفادہ کیا گیا۔ بعض حالات میں بھیس بدل کر بھی لوگوں کو بھیجا گیا۔ کرنل حق نواز نے اپنی یونٹ اور دوسرے جانے والے افسروں سے بھی مدد لی۔ کرنل صاحب کی ہمت اور عظمت کو سلام کرنا پڑتا ہے کہ انھوں نے ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کر کے دہلی کے مہاجرین، اپنے فوجی اور جی ایچ کیو کا سامان بحفاظت پاکستان پہنچا دیا۔ بعض حالات میں بلوائیوں نے حملے کیے، ٹرینوں کو آگ بھی لگائی گئی لیکن شاباش ہے بلوچ رجمنٹ کے جوانوں پر جنھوں نے کم سے کم نقصان برداشت کر کے سامان اور مہاجرین بحفاظت پہنچائے۔ بلوچ رجمنٹ کا نام ہر مہاجر اور جی ایچ کیو کے ہر آدمی کی زبان پر رہا۔ جس بھی ٹرین کے ساتھ بلوچ گارڈ ہوتی وہ حفاظت کی ضمانت بنی۔ بلوچو ں نے اِس کے علاوہ بھی مسلمان مہاجرین قافلوں کی بہت مدد کی۔ مثلاً کئی مقامات پر پیدل چلتے قافلوں پر بلوائیوں نے حملے کیے وہاں سے گزرنے والی ٹرینوں کے ساتھ بلوچی جوانوں کی یونٹ پر نظر پڑتی تو نزدیک ترین سٹیشن پر گاڑی رکوا کر مدد کے لیے آپہنچتے۔ جہاں بھی بلوچ رجمنٹ کا نام آتابلوائی دوڑ جاتے۔
23 ستمبر تک کرنل حق نواز نے اپنا مشن مکمل کر لیا۔ لوگ اور سامان پاکستان پہنچ چکے تھے۔ ان سخت فسادات میں وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خود دہلی سے نکلا۔ دہلی سے روانہ ہونے والا پاکستان آرمی کا وہ آخری آفسر تھا۔ دہلی سے پونا پہنچا۔ وہاں سے بچتا بچاتا بمبئی پہنچا۔ وہاں خوش قسمتی سے ایک کراچی آنے والے بحری جہاز میں جگہ مل گئی اور پاکستان کا یہ محافظ کراچی پہنچا۔ کرنل حق نواز نے ان مشکل حالات میں قوم کے لیے بہت بڑا کام کیا۔ دشمنوں کے منہ سے چھین کر پاکستان کا سامان بحفاظت لے آیا جس کے بغیرجی ایچ کیو کا کام کافی مشکل کا شکار ہو جاتا۔