ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم
drharoonsgd@gmail.com
عزیزم محمد حذیفہ بچپن ہی سے ذہانت و فطانت میں اپنے ہم عمر ساتھیوں کے لیے قابلِ مثال رہا۔ اس کے والد گرامی معروف شاعر و ادیب، محقق ، مترجم، مقرراور دانش ور ، پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامرنے اپنے بچوں کی تربیت مشرقی اندازمیں کی۔مصر کے تدریسی سفر میں زاہد منیر عامر نے بچوں کو تحقیق و تدوین کی راہ دکھائی۔اچنبے کی بات ہے کہ زاہد منیر عامر کا گھر ٹیلی ویڑن سے تاحال محروم ہے۔ اس کے باوجود بچے علمی وا دبی سرگرمیوں سے آگاہ رہتے ہیں۔اْن کا گھر گہوارہ علم و دانش ہے۔ اَدبی تربیت کے تمام مواقع موجود ہیں۔ محمد حذیفہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرم رہتا ہے۔ اوائل عمری میں ہی مشاہدات ، تجربات اور تجزیات نے اس کی شخصیت کو کندن بنا دیا۔محمد حذیفہ پاکستان ٹیلی ویڑن کے علاوہ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز پربھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکا ہے۔تحقیقی سفر کسی ایک نقطے پر مرکوز نہیں رہتا۔ مختلف نوعیت کے تحقیقی کارنامے انجام دیتا رہتا ہے،اِس کی ایک مثال اْس کی کتاب ’’ ترکیہ ایک گم شدہ خزانہ ( امر ؤ القیس اور ترکیہ ) اْردو ، ترکی اور انگریزی زبان پر مشتمل ہے۔محمد حذیفہ نے اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت کے ملک الشعرائ امر ؤالقیس کا مطالعہ کیا۔ اس نے امرؤ القیس کے ادبی دور کی ورق گردانی بھی ہے۔ اسے پتہ چلا تھا کہ امر ؤالقیس ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں اسودہ خاک ہے۔ محمد حزیفہ نے اپنے ایک خط میں بتایا ہے کہ پاکستان اور ترکی تاریخ ، مذہب او رثقافت ادبیات اور طرز زندگی میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ دونوں ملکوں میں محبت کا انمول بندھن بھی قائم ہے۔
ایک وقت تھا جب پاکستان ، ایران اور ترکی ایک خصوصی معاہدے آر سی ڈی میں مربوط تھے۔ اس معاہدے کو حالات کی نظر لگ گئی اور یہ اتار چڑھا ؤ کا شکار ہوگیا۔ ترکی کے مغرب میں بحیرہ ایحبین او ریونان ہے۔اس کے شمال میں بلغاریہ اوربحیرہ اسود واقع ہے۔ مشرق میں روس اور ایران جب کہ جنوب میں عراق و شام اور بحیرہ روم واقع ہے۔ ترکی ایک پہاڑی ملک ہے جس کا دو تہائی رقبہ2500 فٹ سے زیادہ بلند ہے ملک دو جزیرہ نما سے مل کر بنا ہے۔ ایک اناطالین نما ہے جو ایشیائ کے مغربی سرے پر ہے جس کے حصے یونان اور بلغاریہ کے ساتھ ملتے ہیں اور صرف 23764مربع کلو میٹر ترکی کے ساتھ ملتے ہیں۔ یہاں ترکی کا سب سے بڑا شہر استنبول موجود ہے جس کا قدیم نام بائز نیتیم ‘ ہے۔انقرہ ترکی کا دارالحکومت ہے جب کہ استنبول اس ملک کا سب سے بڑا شہر اور بندرگا ہے۔ترکی ایشیائ اور یورپ کے دو قریبی جزیروں پر مشتمل ہے۔ استنبول شہر ایسے مقامات پر دونوں طرف آباد ہے جہاں سے ایشیائ اوریورپ سرزمین کا فاصلہ ایک کلومیٹر ہے سے بھی کم رہ گیا ہے۔ اس کا بیشتر حصہ براعظم یورپ میں ہے جو یورپی ترکی کہلاتا ہے ہر ایک قدیم تاریخی شہر ہے جس کا پرانا نام قسطنطنیہ ہے۔ جمہوری حکومت کے قیام سے پہلے بہت عرصے تک استنبول ترکی کا دارالحکومت رہا۔ استنبول ایک تجارتی مرکز ہے دنیا کے مختلف علاقوں کے لوگ بھی یہاں آباد ہیں۔
محمد حذیفہ نے ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں اْس کا مقبرہ تلاش کرنے کی ٹھان لی۔ اس مہم جوئی میں اْس نے راستے کی رکاوٹوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ان کا حسنِ تدبر اور ذخیرہ معلومات اس کا جادہ راہ ثابت ہوئے۔ انہوں نے لکھا ہے :
’’ آج کل میں استنبول میں ہوں ، خوش قسمتی سے پچھے ہفتے مجھے انقرہ جانے کا موقع ملا او رمیں نے پہلی فرصت میں اس جگہ جانے کا ارادہ کیا۔ خیال تھا کہ اب تو میں انقرہ میں ہوں جب چاہوں اس کے مقام پر جا سکتا ہوں لیکن جب یہ عزم کر کے نکالاتو معلوم ہوا کہ یہ اتنا بھی آسان کام نہیں تھا۔ میں اپنے مقام کزلائی سے چلا۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے کوئی چالیس منٹ تک سفر کر بعد ایک پہاڑی کے قریب پہنچا۔ گوگل سے مدد لیتا رہا۔ مسجد قیس کے علاقے میں پہنچا۔ وہاں پہنچ کر جستجو کرنے پر معلوم ہوا تھا کہ انقرہ میں حضرلک کے نام سے ایک پہاڑی ہے۔ خیال ہے کہ اس پہاڑی پر ہی اس عظیم شاعر کی آخری آرام گاہ ہے ۔ میں ا س سے پہلے انقرہ یونی ورسٹی جا چکا تھا میں نے حضر لک کے بارے میں جاننے کے لیے انقرہ یونی ورسٹی کے ایک استاد صاحب کو فون کیا اور پھر گوگل کی مدد سے تلاش کرتا ہو ا حضرلک پہاڑی پر پہنچ گیا لیکن یہاں پہنچ جانے پر بھی کچھ واضح نہ ہوا تھا کہ مجھے کس جانب جانا ہے اِدھر اْدھر مختلف لوگ اپنی اپنی دلچسپیوں میں گم جاتے دکھائی دیے۔ میں نے چاہا کہ کسی سے اس بارے میں دریافت کیا جائے کہ عام طور سے علاقے کے لوگوں کو اپنے علاقے کے بارے میں کچھ نہ کچھ معلوم ہوتا ہی ہے۔ چناںچہ بعض لوگوں سے اس بارے میں استفسار کیا۔ ان میں سے اکثر تو بالکل ہی بے خبر تھے بعض لوگوں نے قبر کا سن کر اسی پہاڑی پر موجود ایک قدیم قبرستان کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں جا کر ڈھونڈ لو۔ میں بھی آج ارادہ کر کے گیا تھا کہ اس مقام کو دریافت کر کے آ ؤں گا چناںچہ ہمت کر کے پہاڑی پرچڑھ گیا اور وہاں موجود قبرستان میں پہنچ گیا یہ ایک قدیم قبرستان تھا جو شاید اب استعمال میں بھی نہیں ہے۔ میں نے وہاں جا کر مختلف قبور دیکھنا شروع کیں۔ ایک ایک کر کے قبریں دیکھتا چلا گیا لیکن اس ساری کوشش سے کوئی خاص تسلی نہ ہوئی۔‘‘
ممتاز شاعر و ادیب و محقق ، ماہر تعلیم ، ماہر لسانیات پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی کو عربی زبان و اَدب کا انسائیکلوپیڈیا کہا جاتاہے۔ انھوں نے محمد حذیفہ کی اس کاوش کے بارے میں لکھا ہے :
’’ صدیوں کے فاصلے سے امر القیس کا تعاقب کرتے ہوئے حذیفہ بالآخر اس پہاڑ کی چوٹی کے قریب جا پہنچا جہاں اس کی قب ر کے ہونے کا امکان بتایا جاتا ہے۔ مگر طلسم کشائی کی یہ ریت چلی آتی ہے کہ جب شہزادہ ، طلسم کو توڑنے کے آخر مرحلے میں آجاتا ہے تو چاروں طرف سے نادیدہ عفریتوں کے چیخنے چلانے اورخوف ناک قہقہے لگانے کی آوازیں اسے ڈراتی اور لوٹ جانے پر آمادہ کرتی ہیں۔ یہاں بھی یہی ہوا۔ چوٹی پر پہنچتے پہنچتے حالات بہت سنگین ہوگئیا ور پے بہ پے ہمت شکنی نے ہمارے اس نو عمر مہم جو کو عین اس وقت پلٹ آنے پر مجبور کر دیا جب لب بام بس دو چار ہاتھ ہی رہ گیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ حذیفہ کی سنائی یہ کہانی آخری سطر تک آپ کی دل چسپی کا مرکز بنی رہے گی۔ ‘‘
6 ملین ڈالر مین کی طرح امر ؤ القیس کی قبر کی تلاش میں محمد حذیفہ بے خوف و خطر اپنی منزل کی تلاش میں عازمِ سفر رہا۔ طلسماتی کہانیوں کی طرح حذیفہ نے ایک نئی کہانی رقم کی۔ ڈاکٹر خورشید رضوی مزید لکھتے ہیں:
’’ اس گتھی کو مکمل طور پر سلجھانے میں اگرچہ حذیفہ کو کامیابی نہیں ہو سکی تاہم اس نے نامعلوم کے گھپ اندھیرے میں روشنی کی ایک لکیر ضرور بنا دی ہے جو آئندہ اس مہم پر نکلنے والوں کی رہنمائی کر سکے گی۔ حذیفہ کا برادرِ عزیز ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا فرزندہ ہونے کا شرف حاصل ہے اور ڈاکٹر زاہد منیر کا گھر ماشاء اللہ ’’دارالمصنفین ‘‘ کہلانے کا مستحق ہے۔ حذیفہ نے یہ تحریر اردو ہی میں نہیں ترکی میں لکھی ہے اور اس کتابچے کے ساتھ ہی اس کا انگریزی ترجمہ بھی منسلک ہے جو حذیفہ کی چھوٹی بہن ندیا خان کے قلم سے ہے۔‘‘
امرا? القیس بن حجر۔ نبی پاک ؐکی پیدائش سے سو سال پہلے کا شاعر تھا۔ عرب شعرائ اور ناقدین نے اسے جاہلی معاشرے کا ممتاز ترین شاعر قرار دیا۔اس کی پیدائش اور سلسلہ نسب کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ ایک رائے کے مطابق وہ کندہ کے آخری بادشاہ کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔ باپ نے بے ہودہ، محزب اخلاق اور شہوانی شاعری کرنے کی وجہ سے اسے دو مرتبہ دربار سے نکالا۔ امر ؤالقیس آوارہ گردی کرنے لگا۔ ہر حسیں عورت کے بارے میں شعر کہنا اس کی عادت بن گئی۔ امر ؤ القیس کے بارے میں یہ بات بہت مشہور ہے کہ اس نے اپنی سوتیلی ماں …یا باپ کی کنیز ’’ہِر‘‘ پر بھی عشقیہ شاعر ی کرنے لگا تو باپ نے ناراض ہو کر اسے محل سے نکال دیا۔ وہ دوستوں اور ہم مشربوں کے ساتھ گھومتا پھرتا رہا اسی لیے اس نے ’’الملک الضلیل ( بھٹکتا ہواشہزادہ یا شاہ گم راہ ) کے لقب میں شہرت پائی۔ امر ؤ القیس نے بہت عمدہ شاعری کی ہے لیکن گمراہی والی شاعری نے اسے بہت رسوا بھی کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک باغی بدو قبیلے بنو اسد نے امر ؤ القیس کے باپ کو قتل کردیا۔ امرا القیس نے تن تنہا انتقام لینے کا ارادہ کیا۔اس ضمن میں ڈاکٹر خورشید رضوی اپنی کتاب ’’تاریخ عربی ادب قبل از اسلام ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ جی بھر کر شراب پی لینے کے بعد امر ؤالقیس نے قسم کھائی کہ جب تک باپ کا بدلہ نہیں لے لیتا نہ گوشت کھائے گا نہ شراب پیے گا نہ سر دھوئے گا نہ تیل ڈالے گا اور نہ کسی نازنین کے قرب سے لطف اندوز ہوگا۔ رات ہوئی تو بجلی کوندتی دکھائی دی۔ طبیعت کا گداز یوں موزوں ہوا :
’’رات کو کوندتی ہوئی بجلی نے مجھے سونے نہ دیا
اس کی چمک قلعہ کہسار پر روشنی کرتی رہی
ایک خبر مجھے ملی جس پر مجھے یقین نہ آیا
ایک ایسے معاملے کی خبر جس سے پہاڑوں کی چوٹیاں ڈانواں ڈول ہو جائیں
یہ کہ بنو اسد نے اپنے آقا کا خون کر دیا
سنو ! اس کے سوا کچھ بھی ہو جاتا
اہم نہ تھا۔
امر ¶ القیس کی زندگی لطافت و صلابت ، حضارت و بداوت کا ایک نادر امتزاج تھی۔ وہ گھر سے نکل جانے کے بعد ایک عرصہ صحرا ؤں میں صعالیک کے ساتھ بھی سرگرداں رہا۔ یہ بھی یاد رہے کہ مشکیزوں کا بوجھ اٹھانے کو بعض شارحین نے بارِ حقوق برداشت کرنے کا استعارہ قرار دیا ہے۔ ‘‘
امر ؤ القیس نے بنو اسد پر حملہ کیا اور انھیں بھگا دیا لیکن اس پر بھی تسلی نہ ہونے پر وہ مدد کے لیے ایک کے بعد دوسرے قبیلے کے پاس گیا مگر کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ غسان کے بادشاہ الحارث کی وجہ سے وہ بازنطینی شہنشاہ جسٹینیئن اوّل سے متعارف ہوا۔جس نے اسے اپنی بادشاہت واپس حاصل کرنے کی خاطر امدادی فوج کا ایک دستہ دینے پر رضا مندی ظاہر کی۔ قصے کے مطابق عرب واپس جاتے ہوئے شہنشاہ نے اسے ایک زہر آلود جبہ بھیجا۔ ا اس جبہ کی وجہ سے اس کی موت انقرہ میں واقع ہوئی۔ بصرہ مکتبہ فکر کے ماہرین لسانیات امرا? القیس کو نہ صرف معلقات کا عظیم ترین شاعر بلکہ قصیدہ کا موجد بھی مانتے ہیں۔ قرون وسطیٰ کے عرب محققین نے اس کی شاعری کے کم ازکم تین دیوان مرتب کیے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نے امر ؤ القیس کے دیوان کے حوالے سے ’’ تاریخ عرب ادب قبل از اسلام ‘‘ میں رقم طراز ہیں : ’’ امر ؤالقیس کے کلام کو قدیم ہی سے اہمیت حاصل رہی ہے ۔ اموی دور کا مشہور شاعر فرزوق ، امر ؤالقیس کے حالات او رکلام کا سب سے بڑا راوی سمجھا جاتا تھا۔ موریطانیہ کے مدرسوں میں آج بھی بچوں کو امر ؤ القیس کا کلام حفظ کرایا جاتا ہے۔ شاید اس لیے کہ وہاں کے بہت سے عرب قبائل یمنی الاصل ہیں۔ دیواں امر ؤ القیس کے متعدد مخطوطات ترکی ، مصر، فرانس ، جرمنی ، ہالینڈ او رہسپانیہ میں محفوظ ہیں۔ امر القیس کا دیوان پہلی بار 1836۔1837ء کے دوران میں ، فرانسیسی مستشرق ڈی سلان (de Slane) نے ’’نزہتہ ذوی الگیس وتحفتہ الادبائ فی قصائد امری القیس ‘‘ کے زیر عنوان پیرس سے شائع کی۔
نو آموز محققین میں محمد حذیفہ نے اپنی جگہ بڑی کامیابی سے بنا لی ہے۔ امر ؤ القیس کے معروف اشعار کا ترجمہ اور تفہیم بھی کتاب میں شامل ہے۔ محمد حذیفہ نے ایک مختصر کتاب میں ایک بڑے دور کے شعری تجربات شامل کر کے اپنی تحقیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسلوب کی سادگی اس کتاب کی اہم خوبی ہے۔ عربی ، اْردو ، انگریزی اور ترکی زبانوں کے ملاپ نے اِس کتاب کو عالمی اَدب کا حصہ بنا دیا ہے۔