وہ مدرس بنے، وہ معلم بنے 

Mar 27, 2023

قاضی عبدالرؤف معینی


فیض عالم

قاضی عبدالرئوف معینی
یہ حقیقت ہے کہ تعلیم کسی بھی قوم کے لیے ترقی کی ضامن ہے۔تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ وہی قومیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں جنہوں نے تعلیم کو سنجیدگی سے لیا۔آج بھی وہی قومیں ترقی یافتہ ہیں جو سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے ہیں۔ہمیںبھی اگر آگے بڑھنا ہے تو تعلیم کے رستہ پر چلنا ہو گا۔افسوس ہمارے پالیسی سازوں نے اس حقیقت کو نہیں سمجھااس لیے پاکستان کی ترقی ایک خواب ہی ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں ڈھائی کروڑ سے زیادہ بچوں اور بچیوں کو سکول جانا نصیب نہیں اور جو ڈھائی کروڑ جاتے بھی ہیں وہ معیاری تعلیم سے محروم ہیں۔سرکاری تعلیمی ڈھانچہ تباہی کے قریب ہے لیکن کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔وجہ یہ ہے کہ پالیسی سازوں اور اداروں کے سربراہوں کے بچے تو نجی تعلیم اداروں میں پڑھتے ہیں۔سیانے کہتے ہیں کہ اگر ایسا قانون بن جائے کے تمام پالیسی سازوں اور افسروں کے بچے نجی تعلیمی اداروں میں نہیں داخل ہو سکتے صرف سرکاری ادا روں میں پڑھیں گے تو چند سالوں میں ہمارا سرکاری تعلیمی نظام راہ راست پر آسکتا ہے۔سرکاری نظام تعلیم کا زوال ایک الگ داستان ہے۔حکومتی کردار اپنی جگہ پر ہمارے محترم و محتشم اساتذہ کرام اور معاشرہ بھی بھر پور حصہ ڈال رہے ہیں۔اساتذہ کرام اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور بھر پور تنخواہوں سے بھی استفادہ کر رہے ہیں۔اس کے باوجود نتائج ’’حیران کن ‘‘ ہیں۔سرکاری تعلیمی اداروں میں طلبا کی تعداد روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔یہ واحد شعبہ ہے جہاں نصف سال رخصت ہوتی ہے۔اگر یہی چال چلن رہا تو مزید تباہی کا انتظار فرمائیں۔ہزاروں اساتذہ کو مستقل نہیں کیا جا رہاجس کی وجہ سے وہ بے یقینی کا شکار ہیں۔جب احتجاج کرتے ہیں توان معماران وطن پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی جاتی ہے۔جھوٹے وعدے کر کے ٹرخایا جا رہا ہے۔اس طرح کے ماحول میں درس و تدریس کا سلسلہ کیسے ممکن ہے۔تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کے لیے اساتذہ کرام کو اصل مقام دینا لازم ہے۔
 ا سلام نے حصول علم اورفروغ تعلیم پر بہت زور دیا۔معلم اعظم ?نے جہاں علم کے حصول کی ترغیب دی وہاںمعلم کے اعلیٰ رتبہ کا تعین بھی فرما دیا۔آپ ? کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ میں معلم بنا کر بھیجاگیا ہوں‘‘حضرت علی ? کا فرمان ذیشان ہے کہ ’’جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا وہ میرا استاد ہے اور میں اس کا غلام ہوں چاہے تو مجھے آ زاد کردے چاہے تو مجھے رکھ لے‘‘۔ معلم کی عظمت کو والدین کے بعد سب سے زیادہ بڑا مقام حا صل ہے۔معلم قوم کا محسن بھی ہوتا ہے اور قوم کا معماربھی۔یہ معلم ہی ہے جس کی وجہ سے باشعوراور تعلیم یافتہ معاشرہ معرض وجود میں آتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی
قوموں کی عزت کا راز استاد کی عزت میں ہے۔وطن عزیز میں نظام الٹ ہے۔معلم بسوں میں دھکے کھاتے ہوئے جا رہا ہوتا ہے اور اسی رینک کا بیوروکریٹ لینڈکروزر کے سفر سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے۔رعب اور دبدبے میں پولیس کا سپاہی ایک پروفیسر سے آگے ہے۔
معلم کے ساتھ عقیدت و محبت اور احترام کا جو تعلق ہونا چاہیے وہ آج کل کم نظر آرہا ہے۔معاشرہ کا یہی رویہ اس کے زوال اور خجل خواری کا سبب ہے۔قانون فطرت ہے کہ با ادب با نصیب ، بے ادب بے نصیب۔اساتذہ کی عزت افزائی کا مشاہدہ کرنا ہو تو گھر سے باہر نکل کے کر لیں۔سبز چولا پہنے جو مخلوق گلیوں میں ایک دروازہ سے دوسرے دروازہ تک خجل خوار ہو رہی ہے وہ اس بد نصیب اور بے ادب قوم کے معزز اساتذہ کرام اور معماران وطن ہیں۔مردم شماری پر اساتذہ کی ڈیوٹی لگانے والے پالیسی سازوں اور پھرسبز چولا پہنانے والے بزرجمہروں کی ’’دانش‘ کو سلام۔امسال یوم پاکستان کے وقع پر اندھا دھند ایوارڈز تقسیم کیے گئے ان میں سے پانچ سا ت ان’’ عظیم دماغوں ‘‘ کو بھی پیش کر دیے جاتے۔کوئی ان عقل کے اندھوں سے پوچھے کہ کیا اساتذہ کرام کا کام یہی ہے۔اس کے لیے ان لاکھوں تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کی خدمات بھی تو حاصل کی جا سکتی تھیں۔اسی بہانے ان کو ایک ماہ کا خرچہ ہی مل جاتا۔معزز اساتذہ کرام کو بھی چاہیے کہ وہ ایسی ذمہ داریاں قبول کرنے سے انکار کریں جو ان کے وقار کے منافی ہوں۔درس و تدریس اورامتحانی ذمہ داری کے علاوہ اساتذہ کرام سے کوئی اور کام نہیں لیا جانا چاہیے۔ الیکشن ڈیوٹی کے لیے بھی کوئی متبادل انتظام ہونا چاہیے۔معلمین حضرات کو درس و تدریس تک محدود ہونا چاہیے۔
ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں اساتذہ کرام کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے اس کی ایک جھلک ہدیہ قارئین ہے۔معروف دانشورجناب اشفاق احمد صاحب کو ایک دفعہ اٹلی کی عدالت میں پیش ہونا پڑا۔دوران گفتگو جب انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ میں معلم ہوں تو جج سمیت عدالت میں مو جود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے۔اسلام کا سنہری دور اساتذہ کرام کے احترام کے حوالے سے ہزاروںایمان افروز واقعات سے بھرا ہوا ہے۔انشائ￿ اللہ یہ واقعات کسی کالم میں تفصیل سے بیان کیے جایئں گے۔اگر تعلیمی نظام کو بچانا ہے تو ہمیں معلمین کو معاشرہ میں بلند مقام دینا ہوگا۔تاکہ ذہین طلبہ کی ترجیح سول سروس یا بیوروکریسی نہ ہو وہ معلم بنیں۔

جس کی دنیا منور ہو ایمان سے 
جس کو الفت ہو ہر اک انسان سے
جس نے پائی ہو تعلیم قرآن سے
وہ مدرس بنے، وہ معلم بنے
جو کہ لالچ کا ہر گز پجاری نہ ہو
جو غم درد ملت سے عاری نہ ہو
جس نے چادر حیا کی اتاری نہ 
وہ مدرس بنے ،وہ معلم بنے
اللہ پاک ملت اسلامیہ کو صحیح معلمین اور مدرسین عطا فرمائے۔اور پالیسی سازوں کو معیاری تعلیمی پالیسی تیار کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

مزیدخبریں