شاہد حمید بھٹہ
ناقص منصوبہ بندی خراب معاشی حالات موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال اور ملک میں دستیاب وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال نہ کرنے کے باعث ملک میں غذائی بحران کا اندیشہ ہے مہنگے زرعی مداخل ڈیزل کھاد کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ اور 2022 میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے رہی سہی کسر سر پوری کر دی ہے۔ گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں پہلے ہی نمایاں کمی کا اندیشہ تھا اس کے بعد طوفانی بارشوں اور ژالہ باری نے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے کاشتکار کی امیدوں پر ہی پانی پھیر دیا ہے۔ اور ملک میں غزائی بحران کے اثرات ابھی سے نمودار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔موسمیاتی تبدیلی کے باعث رواں مالی سال میں پنجاب کے ساتھ ساتھ سندھ کا ایک بڑا حصہ سیلاب سے متاثر ہوا 2022 میں آ نے والے پے در پے سیلابوں نے سندھ کو سب سے زیادہ متاثر کیا اور سندھ کا تقریباً 50 فیصد گندم کی کاشت کے علاقے میں اس سال گندم کاشت نہیں کی گئی اور پنجا ب نے ملک کے دیگر صوبوں کے ساتھ ساتھ سندھ کی گندم کی ضروریات کو بھی پورا کرنا تھا۔ گندم کی کاشت کے حوالہ سے پنجاب میں بھی صورت حال کوئی اتنی اچھی حوصلہ افزا نہیں پنجاب میں گنے کے کرشنگ سیزن میں تاخیر سے گندم تقریباً20 فیصد کم رقبے پرکاشت کی گئی ہے۔حکومت کی طرف سے گندم کی امدادی قیمت کے بروقت اعلانات نہ ہونے مہنگے ڈیزل کھاد نہری پانی کی کمی اور مہنگی بجلی کے باعث کسانوں نے گندم کی بجائے دیگر منافع دینے والی فصلوں کو زیادہ اہمیت دی جس سے گندم کے بحران کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔ حکومت کی ناقص حکمت عملی اور شوگر ملز مالکان کی طرف سے بروقت کرشنگ سیزن شروع نہ کرنے کی وجہ سے جو کاشتکار گنے کے بعد گندم کی فصل لگانا چاہتے تھے وہ کاشت کے سیزن میں تاخیر کے باعث گندم کاشت نہیں کر سکتے کیونکہ باقاعدہ پلاننگ کے تحت گنے کی کاشت کے رقبہ پر گندم کاشت کرنے کے خواہشمند کاشکاروں کا راستہ روکا گیا ہے اور شوگر مالکان حکومت کی ملی بھگت سے اس پلاننگ میں کامیاب بھی ہوئے۔چیک اینڈ بیلنس کا منظم نظام نہ ہونے کے باعث کھادوں کی قیمتوں میں ہو شربا اضافے۔گندم کی کاشت کے بعد پہلے پانی کے ساتھ لگنے والی کھاد وں کی بلیک میں فروخت نے بھی گندم کی پروڈکشن پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ملک میں موجود ویلیو ایڈڈ انڈسٹری کے لیے خام مال کی عدم دستیابی کے باعث ضروریات ز ندگی کی اشیاء کی تیاری اور مارکیٹ میں دستیابی بھی ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے ابھی ملک کی انڈسٹری مکمل طور پر فعال نہیں ہو سکی۔انڈسٹریل سیکٹر کی ان پٹ کاسٹ بڑھنے سے ضروریات زندگی کی اشیاء غریب ،تنخواہ دار اور متوسط طبقے کی پہنچ سے دور ہو گئی ہیں۔ ویلیو ایڈڈ انڈسٹری سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ انھیں ضروریات زندگی کی اشیاء کی تیاری میں دو طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔اندرونی مسائل میں لوکل خام مال جس میں گندم اور اس سے نکلنے والی دیگر ضروری اشیاء سوجی میدہ اور دیگر ضروری اشیاء کی مارکیٹ میں دستیابی نہیں ہے دوسری طرف بیرون ممالک سے آنے والا خام مال مصالحے اور دیگر اجزاء مارکیٹ میں روانی کے ساتھ دستیاب نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ویلیو ایڈڈ انڈسٹری نہ صرف ضروریات کے مطابق اشیاء تیار نہیں کر پا رہی ہے بلکہ ان کی ایکسپورٹس بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ڈالر کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ، ملک میں ڈالر کی قلت کے باعث روزانہ کی بنیاد پر اتار چڑھاؤنے زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو متاثر کیا ہے۔اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ملازم پیشہ طبقہ اور غریب لوگ ہوئے ہیں جس سے پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے افراد کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ ایک ایسا ملک جس کی 70 فیصد آبادی بالواسطہ یا بلاواسطہ زرعی شعبے سے منسلک ہے جو جغرافیائی لحاظ سے ضروریات زندگی کی تمام اشیاء پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ہوا ایسے ملک کے اندر غذائی بحران پیدا ہونا حیران کن بھی ہے اور حکومتوں کیلئے لمحہ فکریہ بھی۔ حکومتوں کی ناقص معاشی پالیسیوں اور زرعی شعبے کو مسلسل نظرانداز کرنے اور روایتی طریقہ کاشت کو جدید طریقہ کاشت میں تبدیل نہ کرنا بھی ایک زرعی ملک کو غذائی بحران کا شکار کرنے کے اہم اسباب ہیں۔پاکستان بننے سے اب تک کسی بھی حکومت نے بنجر زرعی زمینوںکو قابل کاشت بنانے اور معدنیات سے مالا مال ملک میں موجود وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کرنے کی کوئی بھی قابل قدر پالیسی نہیں بنائی گئی۔ اسی وجہ سے پاکستان میں پیدا ہونے والی تیل دار اجناس، گندم ،دالوں۔چاول ، فروٹس اور دیگر ضروریات زندگی بیرون ملک سے امپورٹ کرنے پر بھی اربوں ڈالر کا زر مبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اب وقت کا تقاضہ ہیکہ حکومت اپنی ترجیحات میں زرعی شعبہ کو شامل کرکے موجود بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنائے اور ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے شعبوں کو حقیقی ریسرچ پر لگا کر زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے انتظامات کرے