روزہ اور خواتین
علامہ منیر احمد یوسفی
قرآنِ مجید میں رَبِّ کائنات نے اِرشادِ عظیم فرمایا ہے: ’’اے اِیمان والو !تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی اور پرہیزگار ہو جائو‘‘۔ (البقرۃ: 183)
اِس میں تمام صاحبِ اِیمان مردوں اور عورتوں سے خطاب فرمایا گیا ہے کیونکہ قرآنِ مجید کے اَسلوب ِخطاب کے مطابق یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اُن مَردوں اور عورتوں کے لئے بولا جاتا ہے جو نبی کریم رؤف ورحیمؐ کے فرمانے سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذاتِ اقدس پر اور دیگر بنیادی اِیمانی باتوں پر اِیمان لاتے ہیں۔ جن کی تفصیل قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں موجود ہے۔ روزوں کے اَحکام اور مسائل میں مردوں اور عورتوں کا تفصیل سے ذکر آتا ہے۔ روزے کے آداب جس طرح مَردوں کو بجا لانے ہوتے ہیں‘ اَیسے ہی عورتوں کو بھی تمام آداب بجا لانے ہوتے ہیں جس طرح مَردوں کو رعایتیں حاصل ہیں اَیسے ہی عورتوں کو بھی رعایتیں حاصل ہیں۔
حضرت انس بن مالک کعبی سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اللہ (تبارک و تعالیٰ) نے مسافر سے آدھی نماز معاف فرما دی ہے اور مسافر اور دُودھ پلانے والی اور حاملہ کو روزہ کی رخصت عطا فرمائی ہے‘‘۔ (ابن ماجہ ص121)
روزہ نہ رکھنے کی شرعیِ اجازت سفر‘ عورت کا حاملہ ہونا اور بچے کو دُودھ پلانا ہے۔ اگر کوئی سفر پر ہو یا کوئی عورت حمل اور دُودھ پلانے کی حالت میں ہو تو سرکارِ کائنات حضور رحمۃ للعالمینؐ نے رَحمت فرماتے ہوئے روزہ نہ رکھنے کی رخصت عطا فرمائی ہے۔ اگر مذکورہ بالا اَفراد روزہ نبھانے کی طاقت رکھتے ہوں تو شریعت ِمحمدیہ روزہ رکھنے پر اِعتراض نہیں کرتی۔
عمر کے مدارج کے حساب سے عبادات کی مشغولیت بڑھتی رہتی ہے۔ عموماً جوانی میں لوگ کم عبادت کرتے ہیں مگر جوں جوں بوڑھے ہوتے جاتے ہیں عبادت کا شوق بڑھتا جاتا ہے۔ کئی خوش نصیب اَیسے ہوتے ہیں جو جوانی سے ہی عبادت اور تقویٰ اور زہد کا حسین مرقع ہوتے ہیں۔ خواتین کی اَکثریت بڑھاپے میں عبادت و وظائف وغیرہ میں دلجمعی سے مگن ہوتی ہیں۔ جوان اور بوڑھی نیک عورتوں اور متقی خواتین کا ذوق عبادت بھی دیدنی ہوتا ہے خصوصاً مختلف متبرک راتوں اور دنوں میں۔
اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ سلمی سے روایت ہے‘ فرماتی ہیں: ’’رسولِ کریم رؤف ورحیمؐ مجھے حکم فرماتے تھے کہ میں ہر ماہ تین روزے رکھوں جن میں پہلا روزہ پیر یا جمعرات کا ہو۔‘‘ (ابودائود جلد1 ص339‘ مشکوٰۃ حدیث نمبر2060‘ مرقاۃ جلد4ص488‘ ابودائود حدیث نمبر2450‘ نسائی حدیث نمبر2419)یہ حکم اِستحبابی تھا نہ کہ وجوبی یعنی یہ حکم‘ حکمِ واجب کے طور پر نہیں تھا۔ اِسی واسطے اُمُّ المؤمنین حضرت اُمّ سلمی کے وہ روزے نفلی ہوتے تھے۔
شوہر‘ بیوی کا اور بیوی‘ شوہر کی شریک حیات ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کی خوشیوں‘ دُکھ دَرد‘ اور گھر کی رونق اور آبادی میں وفادار ہوتے ہیں۔ لہٰذا شوہر کو کبھی کبھی روزوں کے بارے میں ڈھیروں نیکیاں کمانے کا اپنی بیوی کو موقع فراہم کرنا چاہئے۔ کیونکہ رسولِ کریم رؤف ورحیمؐ نے روزوں کی اور روزہ رکھنے والوں کی بہت فضیلت بیان فرمائی ہے۔ اگر شوہر کے کہنے پر یا شوہر کی رضامندی‘ خوشی اور اِیثار کی وجہ سے بیوی روزہ رکھے گی تو شوہر کو بھی اللہ تبارک و تعالیٰ اَجروثواب عطا فرمائے گا۔ کیونکہ نیکی کی تبلیغ و تعلیم و ترغیب دینے پر اگر کوئی نیکی کرتا ہے تو جتنا نیکی کرنے والے کو ثواب ملتا ہے اُتنا ہی نیکی کی دعوت دینے والے کو بھی ثواب ملتا ہے۔
فضائل کی چند اَحادیثِ مبارکہ بطور ِشوق و ترغیب پیش خدمت ہیں۔ اللہ نیکی کرنے کی ہمت اور توفیق نصیب فرمائے۔
جب یہ اُس روزے کی شان ہے جو نفلی روزہ ہے تو فرض روزہ کی عظمت و شان کا کیا کہنا۔ روزہ رکھنے میں رضائے اِلٰہی کی قید لگائی گئی ہے۔ کیونکہ عمل بغیر اِخلاص قبول نہیں ہوتا اور نہ ہی اُس کے ثواب اور فوائد کا ظہور ہوتا ہے۔ اس کیلئے حدیث پاک میں کوّے کی ہزار سالہ عمر میں اس کی کل پرواز جیسی دوری کو جہنم سے بچنے کی مثال بیان کیا گیا ہے یعنی ربِّ ذوالجلال والاکرام کی عطائیں ہمارے وہم و گمان سے وراء ہیں۔
حضرت ابوہریرہ ہی سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم رؤف ورحیمؐ نے فرمایا: ’’ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے‘‘۔ (ابودائود جلد1 ص341‘ مجمع الزوائد جلد3 ص182‘ ابن ماجہ حدیث نمبر1745‘ دُرِمنثور جلد1 ص181‘ المعجم الکبیر للطبرانی جلد6 ص193)
روزوں کی برکت سے اکثر آدمی دُبلے ہو جاتے ہیں۔ جسم کا کچھ گوشت گل جاتا ہے۔ خواتین عام طور پر جسمانی طور پر موٹی ہو جاتی ہیں۔ روزے کی برکت سے جسمانی طور پر اُن میں توازن پیدا ہو گا۔ نیز جس طرح مَردوں کو خواہش ہے کہ ہم گناہوں سے پاک ہو جائیں اَیسے ہی مومن مرد کی رفیقِ سفر‘ شریکِ حیات کی بھی خواہش ہو گی کہ گناہوں سے پاک و صاف ہو جائے۔ روزہ کی برکت سے آگ روزہ دار مرد و عورت تک نہ پہنچ سکے گی۔
حضرت ابوہریرہؐ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم رؤف ورحیمؐ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو دعوت طعام دی جائے اور وہ روزہ دار ہو تو کہہ دے‘ میں روزے سے ہوں۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو قبول کرلے پھر اگر روزہ دار ہو تو میزبان کے لئے دُعا کر دے اور اگر روزے دار نہیں تو کھانا کھالے‘‘۔ (ابودائود جلد1 ص341‘ ابن ماجہ حدیث نمبر1750)
اگرچہ نفلی روزہ چھپانا بہتر ہے مگر جب کسی کی دعوت میں آدمی چلا جائے اور کھانا نہ کھائے اور نہ ہی بتائے کہ میں روزہ سے ہوں تو صاحبِ خانہ کے دل میں بدگمانی‘ کدورت‘ عداوت اور رنج و غم پیدا ہو سکتے ہیں‘ اِس لئے اِظہار کرنے میں حرج نہیں۔ میزبان کی خوشی اور مسلمان کو جائز کاموں میں خوش کرنا بھی عبادت ہے۔
حضرت ابوسعید سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ ہم لوگ رسولِ کریم رؤف ورحیمؐ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عورت آئی‘ عرض کرنے لگی یا رسول اللہؐ جب میں نماز پڑھتی ہوں تو میرا شوہر(حضرت) صفوان بن معطل مجھے مارتا ہے اور جب میں روزہ رکھتی ہوں تومیرا روزہ توڑا دیتا ہے اور خود وہ نمازِ فجر نہیں پڑھتا یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جاتا ہے۔
جب یہ عورت باتیں کر رہی تھی تو حضرت صفوان بن معطل بھی وہاں موجود تھے۔ آپؐ نے اُن سے پوچھا‘ تمہاری بیوی کیا کہتی ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا‘ یا رسول اللہؐ یہ جو کہتی ہے کہ نماز پر مجھے مارتا ہے تو اِس کی حقیقت یہ ہے کہ نماز میں دو دو سورتیں پڑھتی ہے میں اِسے منع کرتا ہوں اور یہ سُنتی ہی نہیں تو آپؐ نے فرمایا: ’’ایک سورت پڑھنا ہی لوگوں کو کفایت کرتی ہے‘‘۔ اور یہ جو کہتی ہے کہ میرا روزہ توڑ ڈالتا ہے۔ عرض کیا یا رسول اللہؐ یہ مسلسل روزے رکھتی رہتی ہے اوریہ حق تلفی مجھ میں برداشت کرنے کی طاقت نہیں ۔ چنانچہ آپؐ نے اُس دن سے فرمایا: ’’کوئی عورت اپنے شوہر کی اِجازت کے بغیر نفلی روزے نہ رکھے۔‘‘ اور یہ جو کہتی ہے میں فجر کی نماز نہیں پڑھتا یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جاتا ہے اِس کی حقیقت یہ ہے کہ میں محنت مزدوری کرنے والا آدمی ہوں ،صبح بروقت میری آنکھ نہیں کھلتی ۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جب تیری آنکھ کھلے تو تو نماز پڑھ لیا کر‘‘۔ (ابودائود جلد1 ص340‘ یہ اختیارِ نبی کریم رؤف ورحیمؐ ہے)
حضرت معاذہ عدویہ سے روایت ہے‘ فرماتی ہیں‘ میں نے اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ سے عرض کیا: ’’حائضہ (مخصوص ایام ) کا کیا حال ہے کہ وہ روزہ کی قضاء کرتی ہے نماز کی قضاء نہیں کرتی۔ (اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدہ) عائشہ نے فرمایا: ہمیں یہ عارضہ آتا تھا تو ہمیں روزہ کی قضاء کا حکم دیا جاتا تھا اور نماز کی قضاء کا حکم نہیں دیا جاتا تھا‘‘۔ (مشکوٰۃ ص178 حدیث نمبر 2032‘ مسلم حدیث نمبر(335-69)۔)