لاہور میں واقع ایچی سن کالج بین الاقوامی شہرت کا حامل ادارہ ہے۔ ہر ماں باپ کا خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو وہاں تعلیم دلوا سکے لیکن ایچی سن کالج کی فیس اس کے دیگر اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ عام آدمی وہاں اپنے بچوں کے داخلے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اداروں کی ساکھ میرٹ،کارکردگی، نظم وضبط اور روایات کے باعث برقرار رہ پاتی ہے۔
ہمارے اداروں کی بے توقیری کی بنیادی وجہ بے اصولی اقربا پروری، سمجھوتے، اعلی شخصیات کی خواہشات کی تکمیل کے لیے میرٹ کی قربانی اور طے شدہ امور کی پامالی ہے۔ ایچی سن کالج ایک خاص کلاس کا تعلیمی ادارہ ہے جس سے لوئر مڈل کلاس، مڈل کلاس کا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن عام آدمی کو بھی اسکی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی اور اسکی اعلی روایات پر فخر ہے لیکن جس طرح ہمارے ہاں انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ سمیت دیگر اہم اداروں کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا، ہر صاحب اختیار نے اپنی مرضی کے اصول بنائے اور من مرضی سے چلانے کی کوشش کی یہاں تک کہ آئین اور قانون کی بھی ناک مروڑ کر اپنی مرضی کی جس سے آج عوام الناس کا اداروں سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ آج لوگ کسی ادارے سے توقع کی بجائے صاحب کے موڈ سے توقع لگاتے ہیں۔
دراصل ہم نے نظام کا ایسا بیڑہ غرق کر لیا ہے کہ ہماری اشرافیہ کو انکار سننے کی عادت نہیں ہے۔ ایچی سن کالج کے واقعہ میں بھی ایسا ہی ہوا ہے احد چیمہ جو ماضی کے بڑے بااختیار بیوروکریٹ رہے ہیں اور آج کل غیر منتخب وفاقی وزیر ہیں۔ ان کی اہلیہ محترمہ کا بھی بیوروکریسی سے تعلق ہے۔ احد چیمہ کس کی آنکھ کا تارا ہیں، یہ بھی سب کو پتہ ہے۔ انھوں نے اپنے دو بیٹوں کی فیس معافی کی درخواست پرنسپل مائیکل تھامسن کو دی۔
چونکہ چیمہ صاحب انکار سننے کے عادی نہیں تھے جب پرنسپل صاحب کی جانب سے انھیں انکار ہوا تو انھوں نے اپنی خواہش کو ہر صورت پایہ تکمیل تک پہنچانے کا تہیہ کر لیا اور متعلقہ اتھارٹی گورنر پنجاب سے اس پر ہر صورت عملدرآمد کروانے کے لیے کہا۔ گورنر صاحب کو بھی پتہ تھا کہ احد چیمہ کی خواہش میں، میں نئیں بولدی میرا یار بول رہا ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ جن کی مہربانی سے گورنر صاحب گورنر تعینات ہیں انھوں نے بھی کہا ہوکہ احد چیمہ کی خواہش ہر صورت پوری کی جائے اور آپ لوگوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ پاکستان میں تمام اہم عہدوں پر ان لوگوں کو تعینات کیا جاتا ہے جن پر مکمل اعتماد ہوتا ہے کہ یہ جی حضوری میں کوئی فروگزاشت نہیں برتیں گے۔ حالانکہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمن شریف النفس انسان ہیں لیکن بڑوں کی خواہش کے سامنے سر تسلیم خم کیے بغیر وہ سروایو نہیں کر سکتے لہٰذا انھوں نے بھی احد چیمہ کے بچوں کی فیس معافی کے لیے آخری حد تک جانے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے اپنی سفارشات کے ساتھ ایچی سن کالج کی ایگزیکٹو کمیٹی کو بھجوایا کہ دونوں بچوں کی فیس معاف کر دی جائے۔ کمیٹی نے بھی اپنے رولز کے خلاف عملدرآمد کرنے سے انکار کر دیا تو دوبارہ پرنسپل صاحب کو کہا گیا کہ آپ کے رولز اس کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں لیکن آپ یہ کر دیں۔ پرنسپل مائیکل تھامسن نے پھر بھی انکار کر دیا تو گورنر پنجاب نےبورڈ کی میٹنگ بلوا کر خود فیس معاف کرنے کا حکم دے دیا اور آئندہ سے اس آپشن کو رولز میں شامل کرنے کی بھی ہدایت کر دی۔ یعنی کہ ان بچوں کی بھی فیس معاف کر دی جائے اور آئندہ بھی کسی طاقتور شخصیت کا یہ رعایت حاصل کرنے کے لیے دل مچلے تو اس کی خواہش بھی پوری ہو سکے۔ لیکن پرنسپل ایچی سن کالج مائیکل تھامسن نے اس اقدام کو ایچی سن کالج کے معاملات میں سیاسی مداخلت قرار دیتے ہوئے استعفیٰ دے دیا اور ان کے موقف کو سراہتے ہوئے سید بابر علی نے بھی، جو کہ ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر ہیں، مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ سید بابر علی خاندانی بندے اور اصول پرست ہیں جوکہ پاکستان میں بہت کم رہ گئے ہیں۔ مائیکل تھامسن فارنر ہیں انھوں نے اپنے ملک چلے جانا ہے لیکن سید بابر علی نے پاکستان میں رہنا ہے۔ پاکستانیوں کے لیے انکار زیادہ مشکل ہے کیونکہ اشرافیہ کی خواہشات کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے والے کو نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے، اس کاجینا دوبھر کر دیا جاتا ہے، اس کا ایسا ناطقہ بند کیا جاتا ہے کہ وہ آنے والی نسل کو بھی سمجھا جاتا ہے کہ اشرافیہ کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش نہ کرنا۔
مائیکل تھامسن صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے 2016ءسے لے کر آج تک ایچی سن کالج کو بچائے رکھا اور جب انہیں مجبور کر دیا گیا تو پھر بھی انہوں نے اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کی بجائے مستعفی ہونے کو ترجیح دی۔ لیکن انہوں نے جاتے جاتے سسٹم کو زناٹے دار تھپڑ رسید کر کے وارننگ دے دی ہے کہ اگر بچا سکتے ہو تو ایچی سن کو بچا لو ورنہ دوسرے اداروں کی طرح یہ بھی ٹکے ٹوکری ہونے جا رہا ہے۔ مائیکل تھامسن کے استعفے نے ایک طوفان برپا کر دیا ہے۔ لاکھ طرح کی وضاحتیں گھڑنے کے باوجود فیس معافی کا کوئی معقول جواز تلاش نہیں کیا جاسکا۔ اس ملک کے کروڑوں لوگ اس واقعہ پر تبصرے کر رہے ہیں۔ حکومت اور احد چیمہ کے پاس ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ وہ فیس معافی کے وضع کردہ رولز کوواپس لیں، استاد محترم مائیکل تھامسن سے بھی معافی مانگیں اور قوم سے بھی معافی مانگیں۔ یہ کام حکومت نے کسی یتیم غریب بیوہ کے بچے کے لیے کیا ہوتا تو حکومت کے اس اقدام کی واہ واہ ہو رہی ہوتی مگر ایک ایسے بندے کے لیے جس کے معاشرے میں سٹیٹس کا سب کو پتہ ہے جو یہ فیس چٹکی سے ادا کر سکتا ہے اس کے لیے اتنا تردد کرنا صرف خواہش کی تکمیل ہی ہو سکتی ہے اور کچھ نہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ کیا احد چیمہ اپنے بچوں کی فیس معافی کے مستحق ہیں۔ اگر نہیں تو پھر ان کے لیے آخری حد تک جانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ احد چیمہ صاحب کابینہ میں اپنے ساتھی علیم خان کو درخواست کرتے وہ ان کے بچوں کی ساری زندگی کی فیسیں ادا کر دیتے۔