عالمی یوم نوروز، امن و دوستی کا موقع

نوروز کا لفظ، جس کا مطلب فارسی میں نیا دن ہے، ایک فارسی روایت کی نمائندگی کرتا ہے جو تین ہزار سال پرانی ہے۔ نوروز بہار کا پہلا دن اور بار کے اعتدال کا وقت ہے۔ یہ روایت نہ صرف ایران بلکہ ان ممالک میں بھی منائی جاتی ہے جو فارسی ثقافت سے متاثر ہوئے ہیں۔ یوں اس وقت 300 ملین لوگ ایران، افغانستان، آذربائیجان، پاکستان، بھارت، کرغزستان (قرقیزستان)، قازقستان (قزاقستان)، ترکی، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان میں اس دن کو مناتے ہیں۔ آج کل نوروز کا جشن صرف جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ، قفقاز، بحیرہ اسود کے علاقے اور بلقان کے ایک جغرافیائی علاقے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ روایتی تقریب امریکہ، یورپ اور کینیڈا جیسے ممالک میں بھی تارکین وطن کمیونٹیز ( برادری) کے ہاں منایا جاتا ہے۔
نوروز کا جشن پاکستان کے شمال میں بھی منایا جاتا ہے۔ بعض مورخین کے مطابق، جب ایرانی مبلغین پہلی بار گلگت بلتستان آئے تو اس وقت نوروز کی روایت اس خطے میں متعارف ہوئی۔
2009ءمیں نوروز کو یونیسکو کی غیر محسوس ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا اور نوروز کا عالمی دن، جو 21 مارچ ہے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 23 فروری 2010ءکو اقوام متحدہ کی 71 (اکہترویں) جنرل اسمبلی میں A/RES/64 /253 قرارداد کے ذریعے منظور کیا تھا۔
نوروز موسم بہار کی آمد اور فطرت کے احیاءکا جشن ہے۔ نوروز ایک سال کا اختتام اور ایک نیا نقط آغاز ہے۔ نوروز موسم سرما کا اختتام اور بہار کا آغازہے۔ نوروز کی تمام روایات اور علامتیں نئی زندگی، ہریالی (سبزہ)، تر و تازگی کی نمائندگی کرتی ہیں۔ نوروز کی کچھ روایات جیسا کہ ”ہفت سین کے دسترخوان“ (یعنی دسترخوان پرسات ایسی چیزوں کی موجودگی جو سین کے حرف سے شروع ہوتی ہیں) میں ایسے عناصر شامل ہیں جو صحت، خوشحالی اور خوشی کی علامت ہیں۔ لوگ نوروز سے پہلے اپنے گھروں کی صفائی ستھرائی کرتے ہیں۔ کدورتوں کو بھول کر نوروز کے ایام میں ایک دوسرے سے ملتے اور جشن مناتے ہیں۔ دوستی، رشتوں کو مضبوط کرنا، صلح و آشتی (امن اور مفاہمت)، اختلافات اور رنجشوں کو بھلانا اور لوگوں سے محبت کرنا، نوروز کی مرکزی (اہم) علامتوں میں سے ہیں۔
اگر ہم نوروز کو زیادہ دقت اور توجہ سے دیکھنا چاہیں تو نوروز انسان کی فطرت کے ساتھ دوستی اور انسان کی انسان کےساتھ دوستی کی علامت ہے اور لگتا ہے کہ یہ وہ موضوعات ہیں جن کی انسانی معاشرے کو ہر زمانے سے زیادہ ضرورت ہے۔ انسان جس کی اپنی اٹھان فطرت کی گود سے ہوئی ہے، اسکی فطرت کے ساتھ مطابقت اور ہم آہنگی ہونی چاہئے۔ فطرت کی ممتا سے اٹھے ہوئے انسان کو اس (یعنی فطرت) کی دیکھ بھال اور تحفظ کے لیے تگ و دو کرنی چاہیئے کہ دوسری صورت میں زندگی خود بھی تباہ ہو جاتی ہے۔ انسان کی زندگی فطرت اور ماحول کی حفاظت کے لیے ہونی چاہئے نا کہ اس کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے ہو، اس لیے کہ زندگی اور تندرستی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ صاف ظاہر ہے، آجکل کی انسانی آفات کا ایک حصہ بے قاعدہ اور بے ترتیب صنعتی ترقی کی وجہ سے ہے جو نا صرف فطرت کو تباہ و برباد کر رہا ہے بلکہ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی آفات کا پیش خیمہ بنا ہے۔
دوسری طرف، نوروز امن اور دوستی اور دوسرے انسانوں کے ساتھ مل کر مشترکہ خوشی کے انعقاد کی علامت ہے۔ انسان کو بھی فطرت کی طرح اپنے ساتھ اور دوسرے انسانوں کے ساتھ اپنے تعلقات کی درستی اور نئے مستقبل کی بنیاد ڈالنی چاہئے۔ نوروز ایک عالمی مشترکہ اور معنوی ورثے کے طور پر قوموں کے مابین اتحاد، برابری اور دوستی اور انکی مشترکہ فلاح اور کامیابی میں بہتر مستقبل کی طرف قدم بڑھانے کا اظہار کرنے والا ہے، وہ مستقبل جو کہ غصے، تشدد، جنگ اور قتل و غارت سے مبرا ہے۔ وہ مستقبل کہ جس میں غربت اور بھوک کا وجود نہیں ہے۔
ہم پاکستان میں نوروز سال 1403 ہجری شمسی کا جشن ایسے میں منا رہے ہیں کہ امید رکھتے ہیں نئے سال میں خطے کے ممالک کے باہمی تعاون اور متحد عمل و مطابقت کے سایے تلے خطے اور دنیا کے عوام کی فلاح اور کامیابی کا مشاہدہ کریں اور دوست و برادر ممالک اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی جمہوریہ پاکستان اور دونوں قوموں کے تعلقات ہر شعبے میں پہلے سے بڑھ کر اور دونوں ملکوں اور دونوں قوموں کے باہمی مفادات اور مشترکہ ترقی کے راستے میں پروان چڑھیں اور توسیع پائیں۔
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...