کفر اور اسلام کے درمیان فیصلہ کن غزوہ

مولانا محمدامجدخان
ہجرت کے دوسرے برس 17 رمضان المبارک کو حق وباطل کے درمیان بدر کے مقام پروہ فیصلہ کن واقعہ پیش آیا جس کو قرآن مجید نے یوم الفرقان کے نام دیا ہے۔یہ اسلام کی ایسی عظیم الشان فتح کی بنیاد تھی جو آج بھی قائم ہے اور قیامت تک رہے گی۔ بدر ایک بستی کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے قریباً 120 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ غزوہ عظیم الشان اہمیت کا حامل ہے اس غزوہ  کے ذریعے دینِ اسلام کو چار چاند لگے۔ اِس غزوہ نے حق و باطل کے درمیان فرق و امتیاز کر دیا۔
اسلام اور کفر کے درمیان یہ فیصلہ کن غزوہ میدانِ بدر میں جمعۃ المبارک کو ہوا تھا۔ اِس غزوہ میں مسلمانوں کی تعداد 313 تھی 77 مہاجرین  اور236 انصار تھے۔ اِس غزوہ میں مسلمانوں کے پاس صرف 2 گھوڑے ، 70 اْونٹ 6 زرہیں اور 8 شمشیریں تھیں۔ایک ایک اْونٹ پر تین تین مسلمان سوار تھے۔حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے جان نثارانہ تقریر فرمائی لیکن حضور نبی کریم ؐ انصار کی طرف دیکھ رہے تھے کیونکہ بیعتِ عقبہ میں اْن کے ساتھ یہ عہد و پیمان ہوا تھا کہ وہ رسولِ کریم کی حفاظت اور دشمنانِ دین سے مدافعت اپنے گھروں میں کریں گے اور تلوار اْس وقت اْٹھائیں گے جب دشمن مدینہ منورہ پر چڑھ آئیں گے۔حضرت انسؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ آخر رئیس انصارحضرت سعد بن عبادہ  اْٹھے اور اْنہوں نے عرض کی‘ یا رسول اللہ ؐقسم ہے اْس ذاتِ پاک کی جس کے قبضہء قدرت میں میری جان ہے اگر آپ حکم فرمائیں کہ ہم گھوڑوں کو سمندر میں ڈال دیں تو ہم ضرور سمندر میں کود پڑیں گے ۔ اِس پر حضورؐ نے خوش ہوکر اْن کے لئے دْعائے خیر فرمائی۔ ( مسلم)
قریشِ مکہ چونکہ پہلے پہنچ گئے تھے اِس لئے اْنہوں نے مناسب مقامات پر قبضہ کر لیا۔ بخلاف اِس کے مسلمانوں کی طرف چشمہ یا کنواں تک نہ تھا۔ زمین ایسی ریتلی تھی کہ اْونٹوں کے پاؤں ریتلی زمین میں دھنس جاتے تھے۔ تائیدِ ایزدی سے خوب ابررحمت برساجس سے گرد جم گئی اور جا بجا پانی کو روک کر چھوٹے چھوٹے حوض بنا لئے گئے۔  کفار کی زمین میں کیچڑ ہو گیا۔ اِس قدرتی احسان کا رَبِّ کریم نے قرآنِ مجید میں اِس طرح ذکر فرمایا:’’اور آسمان سے تم پر پانی اْتارا کہ تمہیں اِس سے صاف کرے اور شیطان کی ناپاکی تم سے دور فرمائے اور تمہارے دِلوں کے حوصلے بندھائے اور اِس سے تمہارے قدم مضبوط کرے۔
حضور نبی کریم ؐپر سخت خضوع کی کیفیت طاری ہوئی آپؐ نے پوری رات خدا کے حضور گریہ وزاری کرتے ہوئے گذاری۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ کہ نبی کریمؐ نے بدر کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ اَقدس میں عرض کیا ’’اے اللہ (تعالیٰ) میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ اپنا وعدہ اور اقرار پورا فرما‘ اے اللہ (تعالیٰ) اگر تیری مرضی یہی ہے تو پھر زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہو گا۔ابنِ اسحاق کی روایت میں ہے کہ جب قریش مکہ مکرمہ کے کافر سامنے آئے تو آپؐ نے یوں دْعا فرمائی ’’اے اللہ تعالی یہ قریش کے لوگ بڑے غرور اور فخر کے ساتھ پیغمبر سے لڑنے اور جھٹلانے کو آ رہے ہیں ‘ اپنی مدد بھیج جس کا تْو نے وعدہ فرمایا ہے۔‘‘
 مسلمانوں کے لیے سخت آزمائش کا وقت تھا اس لیے کہ اپنے ہی بھائی بند سامنے کھڑے تھے۔ ابوبکر اپنے بیٹے عبد الرحمن سے اور ابو حذیفہ کو اپنے باپ عتبہ سے مقابلہ کرنا تھا۔ عرب کے دستور کے مطابق پہلے انفرادی مقابلے ہوئے۔ سب سے پہلے عمر بن الحضرمی کا بھائی عامر میدان میں نکلا مقابلے پر حضرت عمر کا ایک غلام نکلا اور اس نے چشم زدن میں اس مغرور کا خاتمہ کر دیا۔ جو اپنے بھائی کا انتقام لینے کے لیے آیا تھا۔ اس کے بعد عتبہ بن ربیعہ اس کا بھائی شیبہ اور اس کا بیٹا ولید بن عتبہ میدان میں نکلے لیکن ان تینوں نے یہ کہہ کر ان سے مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ ہمارے ہم پلہ نہیں ہیں اور پکار کر کہا اے محمدؐ ہمارے مقابلے پر قریشی بھیجو۔ ہم عرب کے چرواہوں سے مقابلے کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ آپ کے ارشار پر حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضرت عبیدہ مقابلے کے لیے نکلے۔ مغرور قریشی سرداروں نے ان کے نام پوچھے اور کہا۔ ’’ہاں تم ہمارے ہم پلہ ہو‘‘مقابلہ شروع ہوا۔ چند لمحوں میں حضرت حمزہ نے شیبہ کو جہنم رسید کر دیا اور حضرت علی نے ولید کو قتل کر ڈالا اور لشکر اسلام سے تکبیر کی آواز بلند ہوئی۔ اس دوران میں عتبہ اور حضرت عبیدہ نے ایک دوسرے پر بھرپور وار کیا اور دونوں زخمی ہو کر گر پڑے۔ حضرت علیؓ اپنے مد مقابل سے فارغ ہو کر عتبہ کی طرف لپکے اور ایک ہی ضرب سے اس کا کام تمام کرکے حضرت عبیدہ کو لشکر میں اٹھا لائے۔ قریش نے اپنے نامور سرداروں کو یوں کٹتے دیکھا تو یکبارگی حملہ کر دیا۔
اس غزوہ میں مومنین کے جوش جہاد کا یہ حال تھا کہ ایک صحابی عمیرکھجوریں کھا رہے تھے۔  حضور اکرم ؐ اعلان فرما رہے تھے ’’آج کے دن جو شخص صبر و استقامت سے لڑے گا اور پیٹھ  نہ پھیرے گا وہ یقینا جنت میں جائے گا‘‘۔صحابی نے کھجوریں پھینک دیں اور فرمایا ’’واہ واہ میرے اور جنت کے درمیان میں بس اتنا وقفہ ہے کہ یہ لوگ مجھ کو قتل کر دیں۔‘‘ یہ کہہ کر اتنی بہادری سے لڑے کہ شہید ہوگئے ۔ مسلمان داد شجاعت دے رہے تھے۔ کہ انصار کے دو کم عمر بچے معاذ بن عمر بن جموع اور معاذ بن عفر، حضرت عبدالرحمن بن عوف کے پاس آئے اور ان میں سے ایک نے کہا۔
چچا! آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں وہ کہاں ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ وہ رسول اللہؐ کی شان میں گستاخیاں کرتا ہے۔ اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ لوں تو اس وقت تک اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک کہ وہ مر نہ جائے یا میں شہید نہ ہو جاؤں‘‘ اتفاق سے ابوجہل کا گذر سامنے سے ہوا۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف نے اس کی طرف اشارہ کر دیا۔ یہ اشارہ پاتے ہی یہ دونوں ننھے مجاہد اپنی تلواریں لے کر اس کی طرف بھاگے۔ وہ گھوڑے پرسوار تھا اور یہ دونوں پیدل۔ جاتے ہی ان میں سے ایک ابوجہل کے گھوڑے پر اور دوسرے نے ابوجہل کی ٹانگ پر حملہ کر دیا۔ گھوڑا اور ابوجہل دونوں گر پڑے۔ عکرمہ بن ابوجہل نے معاذ بن عمر کے کندھے پر وار کیا اور ان کا باز لٹک گیا۔ باہمت نوجوان نے بازو کو راستے میں حائل ہوتے دیکھا تو پاؤں کے نیچے لے کر اسے الگ کر دیا اور ایک ہی ہاتھ سے اپنے شکار پر حملہ کر دیا۔ اتنے میں معاذ بن عفرا کے بھائی معوذ وہاں پہنچے اور انھوں نے ابوجہل کو ٹھنڈا کر دیا اور عبد اللہ بن مسعود نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔مسلمانوں کو اللہ کریم نے فتح عظیم سے نوازا۔ مسلمانوں میں صرف 14 جانثاروں نے جام شہادت نوش کیا جن میں 6 مہاجر اور 8 انصار تھے لیکن دوسری طرف قریش کی اصل طاقت ٹوٹ گئی 70کفار مارے گئے جن میں انکے سردار تھے اور 70 گرفتار ہوئے۔

ای پیپر دی نیشن