روئے زمین پر ایمان کامل کا معرکہ

Mar 27, 2024

سراج الحق 
 اسلام اور کفر کے درمیان پہلا معرکہ بدر کے مقام پر2ھ 17رمضان المبارک کو ہواجس میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو شاندار فتح سے نوازااورکفر کی کمر توڑ کر رکھ دی۔اس لئے 17رمضان المبارک کو اللہ تعالیٰ نے یوم الفرقان کانام دیاہے۔یہ روئے زمین کی پہلی جنگ تھی جو اسلحہ اور ظاہری مال و اسباب کے بجائے اللہ پرکامل ایمان اور ایقان کی بنیاد پر لڑی گئی۔ بدر مکہ اور مدینہ سے شام جانے والے تجارتی قافلوں کی گزر گاہ پر ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس کے اردگرد چھوٹے پہاڑی ٹیلے تھے۔تجارتی راستہ ہونے کی وجہ سے اس کی ایک خاص اہمیت تھی۔میدان بدر مدینہ منورہ سے قریبا 80اورمکہ سے دو سو بیس میل کے فاصلے پر تھا۔
 مسلمانوں کے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے جانے کے بعد اسلام دشمن خصوصاسرداران قریش بہت جز بز ہورہے تھے اوراپنے ہاتھ مل رہے تھے کہ مسلمان اپنی جانیں بچا کر ان کے ہاتھ سے نکل گئے علاوہ ازیں مکہ کے مشرک اور اسلام دشمن سرداروں کو یہ خوف بھی لاحق تھا کہ مسلمان قوت پکڑ کر اس تجارتی راستے کو بند کردیں گے اور مکہ کی تجارت اور کاروبار ختم ہوجائے گا۔کفار مکہ دن رات اسی سوچ بچار میں تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے کچل دیا جائے،وہ غصے اور انتقام کی آگ میں جھلس رہے تھے اورمدینہ پر چڑھ دوڑنے کا بہانہ ڈھونڈ رہے تھے۔انہی دنوں مکہ کا ایک تجارتی قافلہ ابو سفیان کی قیادت میں شام سے مال تجارت لیکر واپس آرہا تھا۔اس قافلے کی حفاظت کی آڑ میں سرداران قریش نے ایک ہزار جنگجوؤں کا بہت بڑا لشکر تیارکیا جو ہر طرح کے اسلحہ سے لیس تھا۔
نبی مہربان حضرت محمدؐ کو مدینہ پر حملہ کی غرض سے قریش کے لشکر کی آمد کی اطلاع ملی تو آپؐ نے مجلس مشاورت بلوائی اور خطرے سے نپٹنے کے لیے تجاویز طلب فرمائیں۔ مہاجرین نے جانثاری کا یقین دلایا۔ آپ ؐنے دوبارہ مشورہ طلب کیا تو انصار میں سے سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا کہ غالباً آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے۔ آپ ؐنے فرمایا ہاں۔ حضرت سعد بن عبادہ نے عرض کیا کہ’’یا رسول اللہؐ! ہم آپ پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے آپ کی تصدیق کی اور گواہی دی ہے کہ جو کتاب آپؐ لائے ہیں وہ حق ہے اور ہم نے آپ ؐکی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد کیا ہے۔ یا رسول اللہؐ آپؐ جس طرف جانے کا حکم دیں گے ہم میں کوئی ایک بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپؐ کو معبوث کیا اگر آپؐ ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم دیں گے تو ہم سمندر میں کود جائیں گے‘‘۔حضرت مقداد ؓنے عرض کیا’’ہم موسیٰ کی امت کی طرح نہیں ہیں جس نے موسیٰ سے کہا کہ تم اور تمہارا رب جاکر دشمن سے لڑو۔ ہم تو یہاں بیٹھ کر دیکھیں گے، بلکہ ہم آپ ؐکے دائیں بائیں اور آگے پیچھے آپؐ کے ساتھ لڑیں گے‘‘۔
غزوہ بدر میں مسلمانوں کی فتح کا سب سے بڑا اور اصل سبب نصرت الہی تھا۔ اللہ تبارک و تعالٰی سے حضور نبی اکرمؐ نے نہایت گریہ وزاری سے دعا فرمائی،’’اے خدا! یہ قریش ہیں اپنے سامان غرور کیساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں۔ اے اللہ! اب تیری وہ مدد آجائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا۔ اے اللہ! اگر آج یہ مٹھی بھر نہتے لوگ مارے گئے تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں بچے گادعا کے دوران آپ کی داڑھی مبارک آنسوؤ ں سے بھیگی ہوئی اور ہچکی بندھی تھی۔ آپ کے کندھو ں پر پڑی ہوئی چادر بار بار نیچے گر جاتی جسے حضرت ابو بکر صدیق ؓ اٹھا کر آپ کے کندھوں پر ڈال دیتے اور ساتھ ساتھ حضور ؐ کی ڈھارس بندھاتے کہ اللہ تعالیٰ آپ ؐ کو تنہا نہیں چھوڑے گا اور آپ ؐ کی ضرور مدد کرے گا۔ 
اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کو فتح کی بشارت دی اور ایک ہزار فرشتوں سے امداد فرمائی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانفال میں کیا ہے۔جنگ سے ایک روز قبل آپ ؐ نے میدان بدر کا معائنہ فرمایا،آپ ؐ کے ہاتھ میں چھڑی تھی جس سے آپؐ نے میدان میں مختلف جگہ پر دائرے لگائے اور فرمایا کہ ابوجہل یہاں قتل ہوگا،ولید،عتبہ اور شیبہ یہاں قتل ہوگا۔جنگ کے بعد صحابہؓ نے دیکھا کہ ان مشرک سردار وں کی لاشیں اسی جگہ پڑی تھیں جہاں آپ ؐ نے نے دائرے لگائے تھے۔
جنگ بدر میں مسلمانوں کی کل تعداد محض 313نفوس قدسیہ پر مشتمل تھی،ان میں سترہ سالہ نوجوان عمیر سے لیکر ساٹھ سالہ بوڑھے تک سب لوگ شامل تھے۔ جنگی مال و اسباب اور اسلحہ کی شدید قلت تھی۔محض دوگھوڑے اور 70اونٹ تھے۔لڑنے والوں کے پاس ڈھنگ کی تلواریں بھی نہیں تھیں مگر اللہ کے ان سپاہیوں کو جنگی اسلحہ اور اپنی قوت بازو سے زیادہ اللہ کی مدد اور نصرت کا یقین تھا۔
جنگ بدر کا عجیب منظر تھا کہ بھائی بھائی کے خلاف،باپ بیٹے اور بیٹا باپ کے خلاف،بھانجا ماموں اور چچا بھتیجے کے خلاف نبردآزما تھا۔حضرت ابوعبیدہ ؓنے اپنے والد جراح کو، عمر فاروقؓنے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو، مصعب نے اپنے بھائی عبید کو اور اسی طرح بہت سے صحابہ نے اپنے قریبی رشتے داروں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرکے غیرت اسلامی اور محبت نبوی کا بے مثال مظاہرہ کیا۔غزوہ بدر کے بعد ایک بار حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بیٹے جو جنگ میں کفار کی طرف سے لڑے تھے نے اپنے والد سے کہا کہ جنگ بدر میں آپ دو بار میری تلوار کے نیچے آئے مگر میں نے آپ پر وار نہیں کیا۔حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے کہا کہ بیٹا اگر تو ایک بار بھی میری تلوار کے نیچے آجاتا بخدا میں اپنا ہاتھ نہ روکتا۔ غزوہ بد ر میں ابوجہل،عتبہ اور شیبہ سمیت کفار کے بڑے بڑے نامور سردار مارے گئے۔کفار کے لشکر کے 70لوگ تہ تیغ ہوئے اور 70کو قیدی بنا لیا گیا۔کفر کے غرور اور تکبر کو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کیلئے خاک میں ملادیا، اسلامی لشکر کے 14سپاہی شہید ہوئے۔ 
آج دنیا بھر میں جگہ جگہ مسلمان مظلوم و مقہور ہیں،کشمیر،فلسطین،اراکان، ہر جگہ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا اور ان کاناحق خون بہایا جارہا ہے۔غزہ میں پچھلے چھ ماہ سے مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں مظلوم مسلمانوں کی بجائے جارحیت اور ظلم و جبر کرنے والوں کا ساتھ دے رہی ہیں مگر مسلم حکمران خواب غفلت سے بیدارنہیں ہورہے۔اس وقت دنیا میں پونے دو ارب مسلمان ہیں جبکہ اسرائیل کی آبادی محض ایک کروڑ ہے۔58 کے قریب مسلم ممالک کے پاس80لاکھ افراد کی مسلح افواج ہیں،زمینی،سمندری،معدنی وسائل کی کوئی کمی نہیں۔ مسلم ممالک میں سے اگرکوئی ایک سربراہ مملکت بھی اس قتل عام کے خلاف اٹھ کھڑا ہو تو روزانہ فلسطینیوں کے قتل عام کو روکا جا سکتاہیمگر اس کیلئے ہمیں ناموس رسالت اور اسلامی شعار کے تحفظ کا دوٹوک اور واضح اعلان کر کے ظلم کیلئے اٹھنے والا ہاتھ روکنا ہوگا۔

مزیدخبریں