حضرت عائشہؓ نے نور اسلام میں آنکھ کھولی

Mar 27, 2024

مولانامجیب الرحمن انقلابی
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہ خوش قسمت ترین عورت ہیں کہ جن کو حضورؐ کی زوجہ محترمہ اور ’’ام المؤمنین‘‘ ہونے کا شرف اور ازواج مطہرات میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔قرآن و حدیث اور تاریخ کے اوراق آپ کے فضائل و مناقب سے بھرے پڑے ہیں اور روشن ہیں۔ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓسے شادی سے قبل حضورؐ نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں کوئی چیز لپیٹ کر آپؐکے سامنے پیش کر رہا ہے… پوچھا کیا ہے؟ جواب دیا کہ آپ ؐ کی بیوی ہے، آپ نے کھول کہ دیکھا تو حضرت عائشہ ہیں (از صحیح بخاری مناقب عائشہؓ) ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ خود فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نو باتیں ایسی عطا فرمائی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی کو عطا نہیں ہوئیں۔
آپؐ کو حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے بہت محبت تھی۔چونکہ آپ صاحبِ اولاد نہ تھیں اس لئے آپ نے اپنی بہن حضرت اسماءؓ کے صاحبزادے اور اپنے بھانجے عبد اللہ بن زبیرؓ کے نام پر حضورؐکے ارشاد کے مطابق اپنی کنیت ام عبد اللہ اختیار فرمائی (ابودائود کتاب الادب)۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے ساتویں پشت اور ماں کی طرف سے گیارویں یا بارویں پشت میں جا کر حضور ؐسے مل جاتا ہے،حضرت  سیدہ عائشہ ؓ کی پیدائش سے چار سال قبل ہی آپ کے والد ماجد سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ دولت اسلام سے مالا مال ہو چکے تھے اور آپ کا گھر نورِ اسلام سے منور ہو چکا تھا، اس لیے آپ نے آنکھ کھولتے ہی اسلام کی روشنی دیکھی۔حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ انھوں نے کبھی کفروشرک کی آواز تک نہیں سنی، چنانچہ وہ خود ہی ارشاد فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے اپنے والد کو پہچانا ان کو مسلمان پایا۔ (بخاری حصہ اول)
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا ’’کاشانہ نبوت‘‘ میں حرم نبوی کی حیثیت سے داخل ہونے کے بعد قرآن مجید کا ایک بڑا حصہ نازل ہوا، آپ کو کم و پیش دس سال حضورؐ کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا، خود صاحبِ قرآن  حضورؐسے قرآن سنتیں، جس آیت کا مطلب سمجھ میں نہ آتا آپؐ سے اس کا مفہوم سمجھ لیتیں، اسی ’’نورخانہ‘‘ میں آپ  نے کلامِ الٰہی کی معرفت، ارشاداتِ رسالت کا علم، رموز و اسرار دین کی عظیم الشان واقفیت حاصل کی۔
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو علم دینیہ کے علاوہ تاریخ، ادب اور طب کے علوم میں بھی کافی مہارت تھی، غرضیکہ اللہ رب العزت نے آپ کی ذاتِ اقدس میں علم انساب، شعروشاعری، علوم دینیہ، ادب و تاریخ اور طب جیسے علوم جمع فرما دیئے تھے۔حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کا سات سال کی عمر میں حضورؐ سے نکاح ہوا، اور نو برس کی عمر میں رخصتی ہوئی…اتنی کمسنی میں حضرت سیدہ  عائشہؓ کا حضورؐکے گھر آنا گہری حکمتوں اور اعلیٰ دینی فوائد سے خالی نہیں بقول حضرت سید سلمان ندویؒ، ’’کم سنی کی اس شادی کا ایک منشا نبوت اور خلافت کے درمیان تعلقات کی مضبوطی بھی تھی۔آپ بچپن ہی سے نہایت ہی ذہین و فطین اور عمدہ ذکاوت کی مالک تھیں، مولانا سید سلیمان ندوی ؒرقمطراز ہیں کہ ’’عمو ماہر زمانہ کے بچوں کا وہی حال ہوتا ہے جو آج کل کے بچوں کا ہے کہ سات آٹھ برس تک تو انہیں کسی بات کا مطلق ہوش نہیں ہوتا، اور نہ ہی وہ کسی کی بات کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں، لیکن حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ  لڑکپن کی ایک ایک بات یاد رکھتی تھیں، انکی روایت کرتی تھیں ان سے احکام مستنبط کرتی تھیں، لڑکپن کے کھیل کود میں کوئی آیت کانوں میں پڑ جاتی تو اسے بھی یاد رکھتی تھیں، ہجرت کے وقت ان کا سن عمر آٹھ برس لیکن اس کم سنی اور کم عمری میں ہوش مندی اور قوت حافظہ کا یہ حال تھا کہ ہجرتِ نبوی کے تمام واقعات ان سے بڑھ کر کسی صحابیؓ نے  ایسی تفصیل کے ساتھ نفل نہیں کئے (از سیدہ عائشہؓ صفحہ33)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ جس گھر میں دلہن بن کر آئی تھیں… وہ کوئی عالیشان اور بلند و بالا عمارت پر مشتمل نہ تھا، مسجد نبوی کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے متعدد حجرے تھے ان ہی میں ایک حجرہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا مسکن تھا، یہ حجرہ مسجد کی شرقی جانب تھا، اس کا دروازہ مسجد کے اندر کھلتا تھا، گھر یا حجرہ کا صحن ہی مسجد نبوی کا صحن تھا، حضورؐ اسی دروازہ سے ہو کر مسجد میں تشریف لے جاتے، جب آپؐ مسجد میں اعتکاف کرتے تو سر مبارک حجرے کے اندر کر دیتے حضرت عائشہؓ اسی جگہ بالوں کو کنگھا کر دیتیں (صحیح بخاری بحوالہ سیدہ عائشہ )
 ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو بھی حضور  سے نہ صرف محبت تھی بلکہ شغف و عشق تھا، اس محبت کا کوئی اور دعویٰ کرتا توام المؤمنین ؓ حضور کی اطاعت و فرمانبرداری اور آپ کی مسرت و رضا کے حصول میں ان کیلئے بھی  شب و روز کوشاں رہتیں… اگر ذرا بھی آپؐ کے چہرہ پر خزن و ملال اور کبیدہ خاطری کا اثر نظر آتا تو بے قرار ہو جاتیں… حضور ؐ کے قرابت داروں کا اتنا خیال تھا کہ ان کی کوئی بات ٹالتی نہ تھیں…ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے بچپن سے جوانی تک کا زمانہ اس ذاتِ اقدس کی صحبت میں بسر کیا جو دنیا میں مکارم اخلاق کی تکمیل کیلئے آئی تھی… 
حضرت عائشہ صدیقہؓ عبادت الٰہی میں اکثر مصروف رہا کرتیں تھیں، دیگر نمازوں کے ساتھ ساتھ رات کو اٹھ کر نماز تہجد ادا فرمایا کرتی تھیں اور حضورؐ کی وفات کے بعد بھی اس نماز کی پابندی میں کوئی فرق نہیں آیا، حضور ؐنے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ عورتوں کے لئے حج ہی جہاد ہے اس لیے حضرت عائشہ صدیقہؓ حج کی بہت زیادہ پابندی فرمایا کرتی تھیں اور تقریباً ہر سال حج کیلئے تشریف لے جاتیں (بخاری شریف) حج کے بعد عمرہ بھی ادا کرتیں، آخر رمضان میں جب حضورؐ اعتکاف فرماتے تو حضرت عائشہ صدیقہؓ بھی اتنے ہی دن صحن میں خیمہ نصب کروا کر اعتکاف میں گزارتیں، قناعت کا جذبہ عورتوں میں بہت کم پایا جاتا ہے لیکن حضرت عائشہ صدیقہؓ کی ذات اقدس میں قناعت کی صفت بدرجہ اتم موجود تھی ان کی تقریباً ساری زندگی ہی عسرت و تنگی اور فقرو فاقہ میں گزر گئی۔آپ میں ایثار کا جذبہ بھی بہت زیادہ پایا جاتا تھا صرف ایک قسم کے کفارہ میں آپ نے ایک بار چالیس غلام آزاد کئے تھے، آپ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 ہے (سیرت عائشہؓ)۔گھر میں جو کچھ موجود ہوتا سائل کی نذر کر دیتیں، حضرت غزوہؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے ان کے سامنے پوری ستر ہزار کی رقم خدا کی راہ میں دے دی اور دوپٹہ کا گوشہ چھاڑ دیا۔حضرت ابن زبیرؓ نے ایک دفعہ دو بڑی تھیلیوں میں ایک لاکھ کی رقم بھیجی، انھوں نے ایک طبق میں یہ رقم رکھ لی اور اس کو بانٹنا شروع کیا اور اس دن آپ روزہ سے تھیں لیکن افطاری کیلئے بھی کچھ نہ بچایا۔

مزیدخبریں