علامہ منیر احمد یوسفی
آپ کا نام عائشہ ‘ لقب صدیقہ اور حُمیَرا ہے جبکہ حضور نبی کریمؐ نے آپ کو بنتِ صدیق ؓکے خطاب نوازا۔ آپ کی والدہ محترمہ حضرت اُم رومان بنتِ عامر بن عویر کنانہؓ ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عُروہؓ سے روایت ہے ‘ حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا: ’’ میرے ساتھ رسول اللہؐکا نکاحِ مبارک شوال المکرم میں ہوا اور شوال المکرم میں ہی رخصتی ہوئی۔ پھر آپؐ کے نزدیک مجھ سے زیادہ نصیب والی آپ ؐ کی کوئی بیوی نہ تھی۔ اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓاپنی عورتوں کو شوال المکرم میں رخصت کرنا پسند فرماتی تھیں۔ حضرت ابو عاصم سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ لوگ شوال المکرم میں رخصتی پسند نہیں کرتے تھے، وجہ یہ تھی کہ اِس ماہ میں پہلے زمانہ میں طاعون کی بیماری پُھوٹ پڑی تھی۔ (طبقات ابن سعد)
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں ‘ میں نے رسول اللہ ؐکو فرماتے ہوئے سُنا کہ: ’’اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓکودوسری عورتوں پر اَیسے فضیلت حاصل ہے جیسے ثرید کی فضیلت دوسرے کھانوں پر‘‘۔ اِسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓسے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:- ’’بہت سے مرد کمال کو پہنچے اور عورتوں میں سے حضرت مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی حضرت آسیہ باکمال ہوئیں اور عورتوں پر اُم المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ کی فضیلت اَیسی ہے جیسے ثرید کو دوسرے کھانوں پر فضیلت ہے‘‘۔ (بخاری‘ مسلم ‘ ترمذی ،ابن ماجہ‘ مسند احمد ‘ مشکوٰۃ ‘)
اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ طیبہ ؓ ‘نبی کریم ؐ کے حبالۂ عقد میں آنے کے بعد جب حرم پاک میں رَونق اَفروز ہوئیں تو رہائش کیلئے جو حجرۂ مبارک ملاوہ مسجد نبوی شریف سے متصل تھا۔ اُس کا دروازہ مسجدِ نبوی شریف کی طرف کھلتا تھا۔دیواریں مٹی کی اورچھت کھجور کے پتوں اورٹہنیوں کی بنی ہوئی تھی۔ حجرہ مبارک سے متصل ایک بالا خانہ تھا جس کو مشربہ کہتے تھے۔ اَ یّام ایلاء میں نبی کریم رؤف ورحیم نے ایک ماہ بستر فرمایا تھا۔ (ابوداؤد)
اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ ؓکے پاک گھر کی خود اِختیاری کائنات ایک چارپائی‘ ایک چٹائی‘ ایک بستر‘ ایک چھال بھراتکیہ‘ دوتین مٹکے اورپانی پینے کیلئے ایک پیالہ سے زیادہ نہ تھی۔کئی کئی راتیں اَیسی گزرتیں کہ گھر میں چراغ تک نہ جلتاتھا۔ گھر میں کھانا پکنے کی نوبت بہت کم آتی تھی۔(صحیح بخاری معیشت النبی ؐ)
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں: ’’جب ہم لوگوں پر جو رسول اللہؐ ؐکے صحابہ کرامؓ ہیں‘کوئی حدیث پاک مشکل ہوتی تو اُس کے بارے میں ’’اُمّ المؤمنین حضرت عائشہؓسے پوچھتے تو اُس کا اُن کے پاس ایک علم پاتے ‘ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ ؓفرماتے ہیں :میں نے کسی کو ’’اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہؓ سے زیادہ فصیح نہیں دیکھا‘‘۔ (ترمذی ‘ مشکوٰۃ ‘ مرقاۃ)اِسی طرح حضرت موسیٰ بن طلحہؓ روایت ہے‘ فرماتے ہیں: ’’میں نے حضرت سیّدہ عائشہؓ سے کسی کو فصیح و بلیغ نہیں دیکھا‘‘۔ (ترمذی ‘ مشکوٰۃ ، مرقاۃ)
اُم المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کی علمی زندگی نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ اِن سے 2210 اَحادیثِ مبارکہ مروی ہیں جن میں ۱۷۴ اَحادیث مقدسہ حضرت اِمام بخاری اور حضرت اِمام مسلم ؒنے بیان کی ہیں۔بعض اَیسے فقہی اَحکام جن میں صحابہ کرام ؓ مختلف الرائے تھے۔ اُنہوں نے ہمیشہ وہ پہلو اِختیار کیاجس میں عورتوں کیلئے سہولت اورآسانی ہوتی تھی کہ اُن کی جنسی ضرورتوں کو وہی بہتر جانتی تھیں۔ رسولِ کریم ؐ کے ظاہری زمانۂ حیات میں بھی خواتین اکثر اَیسے مسائل نبی کریم ؐ سے پوچھتیں جن کے جوابات کھلے عام نہیں دیئے جاسکتے تھے۔ لہٰذا نبی کریم رؤف ورحیم ﷺ اَیسی خواتین کو اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓکے پاس بھیجتے تھے اوراُن خواتین کے مسائل سُن کر ‘قرآنِ مجید و حدیثِ پاک کی روشنی میں جواب دیتی تھیں۔ حضرت عمرو بن العاصؓسے روایت ہے ‘ فرماتے ہیں‘مجھے رسولِ کریمؐ نے ایک لشکر کا سپہ سالار بنایا‘جب میں آیا‘تو میں نے عرض کیا‘ یا رسول اللہؐ! لوگوں میں کون آپؐکو سب سے زیادہ عزیز اور پیارا ہے؟ تو نبی کریم ؐنے فرمایا: ’’اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہؓ ‘‘ (میں نے عرض کیا‘ مردوں میں؟تو نبی کریم ؐفرمایا: اُن کا باپ‘یعنی خلیفۃ الرسول حضرت سیّدنا ابو بکر صدیقؓ۔ (بخاری‘ مشکوٰۃ‘ مسلم ‘ ابن ماجہ ‘ مرقاۃ ‘ ترمذی )
اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہؓفرماتی ہیں:مجھے ازواجِ مطہراتؓ پر دس وجہ سے فضیلت حاصل ہے۔ :میرے سوانبی کریمؐ نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے آسمان سے میری برأت اُتاری۔ میں نبی کریمؐ کے سامنے ہوتی اورآپؐ نماز میں مصروف ہوتے ۔: نبی کریم ؐ جس برتن میں غسل فرمالیتے تھے بعد ازیں میں بھی اُسی برتن کے پانی سے غسل کرلیتی ۔ نزول وحی میں صرف میں ہی آپ کے پاس ہوتی ،جب سرورِ کائناتؐ کی روح مبارک نے عالم قدس کی طرف پرواز کی تو حضورؐکا سرمبارک میری گود میں تھا۔ میرے ہی حجرہ مبارک کوآپؐکا مدفن بننے کی سعادت نصیب ہوئی۔ (طبقات ابن سعد‘ تفہیم البخاری)
اُمّ المومنین حضرت سیّدہ عائشہؓ ہر سال حج پر تشریف لے جایا کرتی تھیں تاکہ مسلمانانِ عالم اپنے نبی ؐکی تعلیمات سے بہرہ ور ہوسکیں۔ حج کے موقع پر اُن کی رہائش گاہ طالبانِ علم و معرفت کا مرکز بن جاتی۔ یہ سلسلہ آخری سانسوں تک جاری رہا۔اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓرمضان المبارک ۵۸ ہجری میں بیمار ہوگئیں۔ چند روز علیل رہیں۔ مرض الموت میں وصیّت فرمائی کہ مجھے دیگر ازواجِ مطہرات کے ساتھ جنت البقیع میں رات کے وقت دفن کیا جائے‘ صبح کا اِنتظار نہ کیاجائے۔آپ نے 17رمضان المبارک منگل کی رات نماز وتر کے بعد63 سال کی عمر میںاِس دارِ فانی سے پردہ فرمایا۔آپ کی نمازِ جنازہ حضرت ابوہریرہؓ نے پڑھائی اور حسب ِ وصیت رات کے وقت جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔