مہنگی گیس اور وزیراعظم کا اظہار برہمی، کیا بات ہے؟؟؟؟

اطلاع ہے کہ ایک سال میں گیس کی قیمت میں چھ سو فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ خبر یہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر گیس کی قیمتوں میں اضافے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ تیاریاں ہو چکی ہیں بس ضابطے کی کارروائی ہو رہی ہے۔ یعنی گونگلووں سے مٹی جھاڑنے والا کام ہو رہا ہے۔ کیونکہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی گیس ایک سو پچپن فیصد مزید مہنگی کرنے کی سوئی ناردرن کی درخواست پر سماعت کر رہی ہے۔ خبر ہے کہ سوئی ناردرن گیس کمپنی نے چار ہزار 489 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت تجویز کی ہے، گیس کی قیمت بڑھنے سے بلوں میں اوسطاً ایک سو پچپن فیصد تک مزید اضافہ ہو گا۔
 چلیں اچھی بات ہے، پہلے لوگوں پر بجلی کے بل بجلیاں گراتے تھے اب جلانے کے لیے گیس کی قیمت میں اضافے کی خبریں ہی کافی ہیں۔ یعنی سردیاں ختم ہوئیں، گیس آئے نہ آئے بھاری بل ضرور آتے رہے اب گرمیوں میں ایک طرف بجلی کے بھاری بل صارفین کو ذہنی مریض بنانے کے منصوبے پر کام کریں گے تو دوسری طرف گیس کا بل دل و دماغ کو جلانے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں۔ کوئی نہیں جس کو عوام کی فکر ہو، یہ کیسے ممکن ہے کہ حکمرانوں کو عوام کا درد ہو اور عام آدمی کے روز مرہ استعمال کی اشیاء اس کی پہنچ سے دور ہوتی جائیں اور صاحب اقتدار و اختیار کچھ نہ کر سکیں۔ یہ تو بالکل ایسے ہی ہے جیسا کہ امریکہ ڈرون حملے کرتا تھا سارے سیاست دان مل کر ان ڈرون حملوں کی مذمت کرتے تھے لیکن ڈرون حملے ایک مخصوص وقت تک جاری رہے یہی حال مہنگائی اور اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کا ہے۔ حکمرانوں کو بظاہر تو غم رہتا ہے لیکن وہ عملی طور پر کچھ نہیں کرتے۔ اب بھی سننے میں آ رہا ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے گیس کی قیمت میں حالیہ اضافے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے وزارت توانائی کو ایک سے تین ماہ میں سولہ ٹاسک مکمل کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں جب کہ ایک ماہ میں گیس کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی فارنزک آڈٹ کی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کرتے ہوئے
تین ماہ میں گیس انفرا اسٹرکچر،گیس چوری اور ناقص کارکردگی کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔
اب ملک کے وزیراعظم کے ایکشن سے کیا فرق پڑتا ہے اس کا فیصلہ تو آئندہ چند ہفتوں میں ہو جائے گا لیکن گذشتہ حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے جب بھی مہنگائی کے حوالے سے نوٹس لیا مہنگائی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی۔ اس وقت کے وزیراعظم نے اپنے دور میں لگ بھگ ایک درجن نوٹس مہنگائی کے حوالے سے لیے لیکن ان نوٹسز کا عوام کو فائدہ ہونے کے بجائے الٹا نقصان ہی برداشت کرنا پڑا ہے۔ اب یہاں میاں شہباز شریف نے ایکشن لیا ہے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گذرے بیس پچیس یا تیس برسوں میں مختلف حکومتوں نے اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے کچھ کام کیا یا نہیں۔ یہی بنیادی سوال ہے اگر اس کا مناسب جواب مل جائے تو تصویر واضح ہو جاتی ہے کہ آخر اس تباہی کا ذمہ دار کون ہے۔ پھر آپ یہ سمجھنا چاہیں تو زیادہ مشکل نہیں ہو گا کہ اصل خرابی کہاں ہے اور ذمہ دار کون ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ اوگرا اور گیس کمپنیوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا فیصلہ بھی ہوا ہے اس کے ساتھ ساتھ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کی مانیٹرنگ کیلئے فوری طور پر بین الوزارتی کمشن قائم کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ ایک ماہ میں سرپلس بجلی کو کھپانے کیلئے نئے انڈسٹریل زون تیارکرنے کا پلان پیش کرنے، دو ہفتوں میں پاور اور پیٹرولیم ڈویژن کو گردشی قرضے کا حل تیار کرنے کی ہدایت بھی جاری کی گئی ہے۔ ملک میں ہر روز مہنگائی کے نئے ریکارڈ قائم ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے حکمران اس معاملے میں بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ لوگ زندگی گذارنے کی بنیادی اشیاء حاصل کرنے کے لیے لائنوں میں لگے ہوئے ہیں، کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ابھی کل ایک شخص بتا رہا تھا کہ وہ سحری سے کچھ بعد کسی کام سے باہر نکلا تو گھر سے کچھ فاصلے پر یوٹیلیٹی سٹور کے باہر لوگوں کی بڑی تعداد جمع تھی کچھ گھنٹوں بعد دوبارہ گھر سے نکلا تو دیکھا لوگ ابھی جمع ہیں اور یوٹیلیٹی سٹور کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ جہاں یہ حالت ہو وہاں کیا ذہنی نشوونما ہو گی اور کیا مثبت سوچ فروغ پائے گی۔ جہاں ہر وقت بجلی، گیس پانی کے بلوں کی ادائیگی کا خوف سوار ہو وہاں کوئی غریب یا کم وسائل والا آدمی کیا سوچے گا۔ اسے فرصت ہی نہیں ہو گی کہ آخر کوئی ڈھنگ کا کام کرے تو کیسے کرے۔ بہرحال گذشتہ پچیس تیس برسوں کے دوران ملک پر حکومت کرنے والے تمام افراد، سیاسی جماعتوں اور سیاسی شخصیات کو یہ ضرور بتانا چاہئے کہ کیوں سولر کے بجائے ہم پٹرول سے بجلی بنانے کے معاہدے کرتے رہے اور کیوں ایسے معاہدوں پر خاموش رہے، ہم نے کیوں گیس کے متبادل ذرائع پر کام نہیں کیا، ہم نے کیوں لوگوں کی جیبوں پر بوجھ ڈالنے کو سب سے آسان ذریعہ سمجھا ہے۔ یہ وہ سادہ سوالات ہیں جس کا جواب حکمران طبقے کو قوم کے سامنے رکھنا چاہیے۔ کیوں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس ملک کے معصوم اور سادہ لوح افراد کو مہنگائی کے جال میں جکڑا گیا ہے، کیوں سب کچھ جانتے بوجھتے اس ملک کے لوگوں پر مہنگائی مسلط کی گئی اور حکمران صرف بیانات جاری کر کے خود کو بری الذمہ سمجھتے رہے۔ جو آج اپوزیشن میں بیٹھ کر عوام کے دکھ میں شریک ہونے کی کوشش کر رہے ہیں وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ عوام کی جیب پر ڈاکے میں یہ سب ملوث ہیں۔ نہ کسی نے منصوبہ بندی کی نہ کسی کو عام آدمی کی فکر تھی یہ ممکن نہیں کہ حکومت خواہش رکھتی ہو، حکومت کچھ کرنا چاہتی ہو لیکن باوجود کوشش کے وہ کر نہ سکے۔ یہ ممکن نہیں۔ 
آخر عدیم ہاشمی کا کلام
کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یہ ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے ، میرے بھی دن گزر گئے
تو بھی کچھ اور،اور ہے ہم بھی کچھ اوراور ہیں
جانے وہ تو کدھر گیا، جانے وہ ہم کدھر گئے
راہوں میں ملے تھے ہم ، راہیں نصیب بن گئیں
تو بھی نہ اپنے گھر گیا، ہم بھی نہ اپنے گھر گئے
وہ بھی غبارِ خاک تھا، ہم بھی غبارِ خاک تھے
وہ بھی کہیں بکھر گیا، ہم بھی کہیں بکھر گئے
کوئی کنارِآبِ جو بیٹھا ہوا ہے سرنگوں
کشتی کدھر چلی گئی، جانے کدھر بھنور گئے
تیرے لئے چلے تھے ہم ، تیرے لئے ٹھہر گئے
تو نے کہا تو جی اٹھے، تو نے کہا تو مر گئے
وقت ہی جدائی کا اتنا طویل ہو گیا
دل میں ترے وصال کے جتنے تھے زخم بھر گئے
بارش وصل وہ ہوئی سارا غبار دْھل گیا
وہ بھی نکھر نکھر گیا، ہم بھی نکھر نکھر گئے
اتنے قریب ہو گئے، اتنے رقیب ہو گئے
وہ بھی عدیم ڈر گیا، ہم بھی عدیم ڈر گئے

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...