عامر محمود نے اپنی یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کے نئے کیمپس کے افتتاح کے لئے شہباز شریف کو بلایا۔ بلاشبہ یہ شاندار عمارت ایک جدید اور اعلیٰ تعلیمی معیار کی علامت ہے۔ ناظم لاہور تو عامر محمود بعد میں ہوا، اس کی شہرت ایک ماہر تعلیم کی ہے۔ اس نے تعلیمی فروغ کیلئے لاہور میں جس کام کی بنیاد رکھی اب وہ ایک کارنامہ بن کر سب کے سامنے ہے۔ لاہور میں اب اچھے تعلیمی اداروں کی کمی نہیں، ناظم لاہور ہونا بھی کوئی سیاسی سرگرمی نہ تھی مگر سیاست دانوں نے اسے بھی اپنی بےکار معرکہ آرائیوں کی آماجگاہ بنا لیا۔ ناظم لاہور کے طور پر بھی تعلیمی فروغ کی لگن عامر محمود کے دل میں کسی تھکن سے آلودہ نہ ہوئی۔ وہ مجید نظامی سے عقیدت رکھتا ہے اور ان کی طرح سیاست، صحافت، تعلیم اور نظریے کی سرحدیں ملا دینا چاہتا ہے۔ میرا بیٹا سلمان ضد کر کے پنجاب کالج میں پڑھا ہے۔ اس کے پاس ایم بی اے کی ڈگری یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کی ہے مگر یونیورسٹی کا اپنا کیمپس دیکھ کر وہ ایک گہرے دکھ میں ڈوب گیا مگر اس خوشی کا اظہار بھی کیا کہ شاندار درسگاہیں کسی زندہ قوم کی تاریخ و تہذیب کا اعزاز بنتی ہیں۔ مجھے میرے دوست شاعر ادیب اور ان تھک انسان ڈاکٹر ندیم گیلانی نے بتایا کہ مجھے کئی برس لاہور کارپوریشن میں عامر محمود کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ لوگ ہر وقت اسے یاد کرتے ہیں ورنہ دفتروں میں ملازم کو ملزم سمجھا جاتا ہے، افسران تو انہیں ذاتی نوکر کی طرح ڈیل کرتے ہیں۔ عامر محمود نے سرکاری فنڈ کو اس حوالے سے کبھی استعمال نہ کیا۔ سرکاری فنڈ کو ہمارے حکمران اور افسران ذاتی جاگیر سمجھتے ہیں پھر بھی ”اپنوں“ کے علاوہ انہیں کوئی مستحق نظر نہیں آتا ”انھا ونڈے ریوڑیاں مڑ مڑ اپنیاں نوں!“ ریوڑیاں جو اس کی اپنی نہیں ہوتیں۔ عامر محمود کے ذریعے لوگوں نے علاج کرائے، ان کی چھوٹی چھوٹی ضرورتیں پوری ہوئیں۔
لاہور کارپوریشن سے ایک جامع میگزین شائع ہوتا ہے۔ ندیم گیلانی اس رسالے کے لئے بھی خاص طور پر محنت کرتے ہیں۔ اس طرح کی سرگرمیوں میں ڈی سی او سجاد بھٹہ بھی دلچسپی لیتے ہیں۔ بھٹہ صاحب بھی صوفی آدمی ہیں، وہ کسی طرف سے افسر نہیں لگتے۔ لاہور نام کے لاہور کارپوریشن میگزین میں ایک مضمون شائع ہوا ہے ”تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد“۔ یہ نعرہ آج بھی کچھ ٹرکوں کے پیچھے صدر جنرل ایوب کے لئے لکھا نظر آتا ہے۔ میں نے ایک ایسے ٹرک ڈرائیور سے پوچھا کہ تم صدر ایوب کو جانتے ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ لوگ بھلا بھی دیئے جائیں تو ان کے اچھے کام ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ صدر ایوب ایک جرنیل تھا۔ کچھ صنعتی ترقی اس کے زمانے میں ہوئی۔ اس کی زرعی اصلاحات کو جاگیرداروں اور افسروں نے کامیاب نہ ہونے دیا ورنہ آج.... ایک زرعی ملک میں زرعی معیشت کی تباہی ہماری کرپشن کی دہائی دے رہی ہے۔ مارشل لاءکے ذریعے جمہوریت کو تباہ کرنے کیلئے آغاز اس نے کیا تھا۔ اسے انجام تک خود سیاست دانوں نے پہنچایا۔ چار سیاسی جرنیلوں کے ساتھ سب سیاست دان تھے۔ آج بھی کوئی سیاست دان ایسا نہیں جو فوجی افسران کا ساتھی نہ رہا ہو۔ ایسے میں کچھ لوگوں پر یہ الزام کہ وہ جنرل مشرف کے ساتھ تھے، قطعی طور پرمناسب نہیں۔ جنرل مشرف کے بعد اس کتاب کو بند کرنا چاہئے ورنہ اس کتاب کا ورق ورق پھٹ جائے گا اور جس کے ہاتھ جو صفحہ آگیا، وہ اسے ہی پوری کتاب سمجھ لے گا ع
توں اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول
دکھ تو یہی ہے کہ سیاست دانوں کے پاس کوئی کتاب ہی نہیں۔ ان کے پاس صرف فائلیں ہیں اور ان پر بھی کرپٹ بیورو کریٹس کا قبضہ ہے۔ وہ جس طرح چاہتے ہیں سیاستدانوں کو ”طوطوں“ کی طرح پڑھنا سکھاتے ہیں۔ کتاب عشق سے تو یہ واقف ہی نہیں ان کے نزدیک سیاست اور عشق دو الگ الگ میدان ہیں جبکہ عشق کے بغیر زندگی راکھ کا ایک ڈھیر ہے۔ ایک لیڈر آیا تھا ذوالفقار علی بھٹو۔ اس نے سیاست میں رومانس کو داخل کیا تھا۔ شروع میں وہ بھی جنرل ایوب کو ڈیڈی کہتا تھا، اس کا وزیر خارجہ تھا مگر اس کے ساتھ بغاوت کر کے ایک نئی سیاست کا آغاز کیا۔ اسے بیورو کریسی نے کچھ کرنے نہ دیا اور عام لوگوں سے جدا کر کے ظالم اشرافیہ میں دھکیل دیا، پھر بھی وہ قوم کو ایٹم بم اور آئین دے گیا۔ آخر میں جاگیردارانہ ذہنیت کے وڈیروں نے اسے پھانسی دے دی۔ اس کی بیٹی کو بھی قتل کر دیا گیا مگر ابھی تک ہمارے سیاست دانوں نے عبرت نہیں پکڑی۔ بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔
عامر محمود نے شہباز شریف سے اپنی یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کا افتتاح کرایا اور کانووکیشن پر سلمان تاثیر کو بلا لیا۔ دونوں اس کے پاس چلے گئے۔ دونوں نے کہا کہ پنجاب گروپ بین الاقوامی معیار کے مطابق نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے۔ اب وہ ان دونوں کے پاس جائے اور ان سے کہے کہ جو کچھ تم دونوں کر رہے ہو اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا ہے نہ نکلے گا۔ میرا خیال ہے کہ عامر محمود یہ کام کر سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں اور لڑتے جھگڑتے بھی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں یہ نورا کشتی ہے، نہ کوئی ہارتا ہے نہ کوئی جیتتا ہے۔ دونوں ہار جاتے ہیں دونوں جیت جاتے ہیں۔ مقابلہ ریفری کے بغیر ہو رہا ہے۔ کوئی ریفری ہو اور مقابلہ ختم کرنے کا اعلان کر دے۔ دونوں آئے ہیں عامر محمود کی یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب میں۔ کسی نے نہیں کہا کہ اس کو کیوں بلایا تھا۔ یہ عامر محمود کا کریڈٹ ہے اور اسی میں کریڈیبلٹی ہے۔
آخر جنرل خالد مقبول بھی تو گورنر تھے اور چودھری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔ دونوں نے عامر محمود کی عزت کی اور عامر محمود نے ان کے ساتھ تعاون کیا۔ مجھے معلوم نہیں کہ گورنر پنجاب جنرل خالد مقبول اور وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے درمیان اچھے روابط میں عامر محمود کا کیا کردار تھا مگر کوئی کردار تو تھا کہ وہ دونوں اس کے لئے اچھا خیال رکھتے تھے۔ اب یہ دونوں عامر محمود کے لئے اچھا خیال رکھتے ہیں۔ عامر محمود ہمت کرے اور وہ دونوں بھی حوصلہ کریں، کوئی نہ کوئی راستہ نکالیں۔ یہی ہو جائے کہ جو معاملات صدر زرداری اور نواز میں ہیں وہی سلمان تاثیر اور شہباز شریف میں بھی ہو جائیں۔ یہ ممکن ہے بے شک رانا ثناءاللہ سے پوچھ لیں۔ کانووکیشن میں جنرل خالد مقبول بھی تھے۔ انہوں نے تو نہیں کہا کہ جناب میں وہاں کیا کروں گا، وہ کسی طرح کے کمپلیکس کا شکار نہیں ہوئے، وہاں تقریر بھی کی۔ انہیں خبر تھی کہ عامر محمود سچا آدمی ہے اور دوستوں کی عزت کا خیال رکھنے والا ہے۔ یونیورسٹی کے نئے کیمپس کے افتتاح پر چودھری پرویز الٰہی کو بھی بلایا جاتا۔ نجانے کیوں مجھے یقین ہے کہ وہ آجاتے۔ شہباز شریف کی طرف سے خطرہ تھا کہ شاید وہ نہ آتے مگر ان کے لئے بھی دل کہتا ہے کہ وہ آجاتے۔ چودھری صاحب تقریر بھی کرتے۔ سیاست میں انا کے گھوڑے پر بیٹھ کر فنا کے سفر پر نکلنا کسی کے لئے اچھا نہیں۔ ایک اچھا ورکنگ ریلیشن شپ دونوں میں بلکہ تینوں میں ہو جائے تو بات بن جائے۔ اب صرف الزامات کی بات ہوتی ہے اور اس کے سچ جھوٹ کا کوئی معیار نہیں ہے۔ عامر محمود یہ کارنامہ کر جائے تو جمہوریت کی خوف زدہ تاریخ میں یہ ایک سنہری موقع ہوگا۔
لاہور کارپوریشن سے ایک جامع میگزین شائع ہوتا ہے۔ ندیم گیلانی اس رسالے کے لئے بھی خاص طور پر محنت کرتے ہیں۔ اس طرح کی سرگرمیوں میں ڈی سی او سجاد بھٹہ بھی دلچسپی لیتے ہیں۔ بھٹہ صاحب بھی صوفی آدمی ہیں، وہ کسی طرف سے افسر نہیں لگتے۔ لاہور نام کے لاہور کارپوریشن میگزین میں ایک مضمون شائع ہوا ہے ”تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد“۔ یہ نعرہ آج بھی کچھ ٹرکوں کے پیچھے صدر جنرل ایوب کے لئے لکھا نظر آتا ہے۔ میں نے ایک ایسے ٹرک ڈرائیور سے پوچھا کہ تم صدر ایوب کو جانتے ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ لوگ بھلا بھی دیئے جائیں تو ان کے اچھے کام ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ صدر ایوب ایک جرنیل تھا۔ کچھ صنعتی ترقی اس کے زمانے میں ہوئی۔ اس کی زرعی اصلاحات کو جاگیرداروں اور افسروں نے کامیاب نہ ہونے دیا ورنہ آج.... ایک زرعی ملک میں زرعی معیشت کی تباہی ہماری کرپشن کی دہائی دے رہی ہے۔ مارشل لاءکے ذریعے جمہوریت کو تباہ کرنے کیلئے آغاز اس نے کیا تھا۔ اسے انجام تک خود سیاست دانوں نے پہنچایا۔ چار سیاسی جرنیلوں کے ساتھ سب سیاست دان تھے۔ آج بھی کوئی سیاست دان ایسا نہیں جو فوجی افسران کا ساتھی نہ رہا ہو۔ ایسے میں کچھ لوگوں پر یہ الزام کہ وہ جنرل مشرف کے ساتھ تھے، قطعی طور پرمناسب نہیں۔ جنرل مشرف کے بعد اس کتاب کو بند کرنا چاہئے ورنہ اس کتاب کا ورق ورق پھٹ جائے گا اور جس کے ہاتھ جو صفحہ آگیا، وہ اسے ہی پوری کتاب سمجھ لے گا ع
توں اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول
دکھ تو یہی ہے کہ سیاست دانوں کے پاس کوئی کتاب ہی نہیں۔ ان کے پاس صرف فائلیں ہیں اور ان پر بھی کرپٹ بیورو کریٹس کا قبضہ ہے۔ وہ جس طرح چاہتے ہیں سیاستدانوں کو ”طوطوں“ کی طرح پڑھنا سکھاتے ہیں۔ کتاب عشق سے تو یہ واقف ہی نہیں ان کے نزدیک سیاست اور عشق دو الگ الگ میدان ہیں جبکہ عشق کے بغیر زندگی راکھ کا ایک ڈھیر ہے۔ ایک لیڈر آیا تھا ذوالفقار علی بھٹو۔ اس نے سیاست میں رومانس کو داخل کیا تھا۔ شروع میں وہ بھی جنرل ایوب کو ڈیڈی کہتا تھا، اس کا وزیر خارجہ تھا مگر اس کے ساتھ بغاوت کر کے ایک نئی سیاست کا آغاز کیا۔ اسے بیورو کریسی نے کچھ کرنے نہ دیا اور عام لوگوں سے جدا کر کے ظالم اشرافیہ میں دھکیل دیا، پھر بھی وہ قوم کو ایٹم بم اور آئین دے گیا۔ آخر میں جاگیردارانہ ذہنیت کے وڈیروں نے اسے پھانسی دے دی۔ اس کی بیٹی کو بھی قتل کر دیا گیا مگر ابھی تک ہمارے سیاست دانوں نے عبرت نہیں پکڑی۔ بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔
عامر محمود نے شہباز شریف سے اپنی یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کا افتتاح کرایا اور کانووکیشن پر سلمان تاثیر کو بلا لیا۔ دونوں اس کے پاس چلے گئے۔ دونوں نے کہا کہ پنجاب گروپ بین الاقوامی معیار کے مطابق نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے۔ اب وہ ان دونوں کے پاس جائے اور ان سے کہے کہ جو کچھ تم دونوں کر رہے ہو اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا ہے نہ نکلے گا۔ میرا خیال ہے کہ عامر محمود یہ کام کر سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں اور لڑتے جھگڑتے بھی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں یہ نورا کشتی ہے، نہ کوئی ہارتا ہے نہ کوئی جیتتا ہے۔ دونوں ہار جاتے ہیں دونوں جیت جاتے ہیں۔ مقابلہ ریفری کے بغیر ہو رہا ہے۔ کوئی ریفری ہو اور مقابلہ ختم کرنے کا اعلان کر دے۔ دونوں آئے ہیں عامر محمود کی یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب میں۔ کسی نے نہیں کہا کہ اس کو کیوں بلایا تھا۔ یہ عامر محمود کا کریڈٹ ہے اور اسی میں کریڈیبلٹی ہے۔
آخر جنرل خالد مقبول بھی تو گورنر تھے اور چودھری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔ دونوں نے عامر محمود کی عزت کی اور عامر محمود نے ان کے ساتھ تعاون کیا۔ مجھے معلوم نہیں کہ گورنر پنجاب جنرل خالد مقبول اور وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے درمیان اچھے روابط میں عامر محمود کا کیا کردار تھا مگر کوئی کردار تو تھا کہ وہ دونوں اس کے لئے اچھا خیال رکھتے تھے۔ اب یہ دونوں عامر محمود کے لئے اچھا خیال رکھتے ہیں۔ عامر محمود ہمت کرے اور وہ دونوں بھی حوصلہ کریں، کوئی نہ کوئی راستہ نکالیں۔ یہی ہو جائے کہ جو معاملات صدر زرداری اور نواز میں ہیں وہی سلمان تاثیر اور شہباز شریف میں بھی ہو جائیں۔ یہ ممکن ہے بے شک رانا ثناءاللہ سے پوچھ لیں۔ کانووکیشن میں جنرل خالد مقبول بھی تھے۔ انہوں نے تو نہیں کہا کہ جناب میں وہاں کیا کروں گا، وہ کسی طرح کے کمپلیکس کا شکار نہیں ہوئے، وہاں تقریر بھی کی۔ انہیں خبر تھی کہ عامر محمود سچا آدمی ہے اور دوستوں کی عزت کا خیال رکھنے والا ہے۔ یونیورسٹی کے نئے کیمپس کے افتتاح پر چودھری پرویز الٰہی کو بھی بلایا جاتا۔ نجانے کیوں مجھے یقین ہے کہ وہ آجاتے۔ شہباز شریف کی طرف سے خطرہ تھا کہ شاید وہ نہ آتے مگر ان کے لئے بھی دل کہتا ہے کہ وہ آجاتے۔ چودھری صاحب تقریر بھی کرتے۔ سیاست میں انا کے گھوڑے پر بیٹھ کر فنا کے سفر پر نکلنا کسی کے لئے اچھا نہیں۔ ایک اچھا ورکنگ ریلیشن شپ دونوں میں بلکہ تینوں میں ہو جائے تو بات بن جائے۔ اب صرف الزامات کی بات ہوتی ہے اور اس کے سچ جھوٹ کا کوئی معیار نہیں ہے۔ عامر محمود یہ کارنامہ کر جائے تو جمہوریت کی خوف زدہ تاریخ میں یہ ایک سنہری موقع ہوگا۔