ہماری یا نیٹو کے سیکرٹری جنرل کی باریک بینیاں!

ایک طریقہ کار ایسا تھا کہ جس کو سیلرز اور نیوی کمانڈوز نے ناپسند کیا تھا یہ طریقہ کار ”گنگھو “ کہلاتا تھا .... گنگھو کو ”جاو اور پکڑو“ کا رویہ کہا جاتا تھا .... امریکی سپیشل فورسز اپنے اندر موجود قباحتیں دورکرتے رہتے ہیں اور افغان جہاد کے موقع پر یو ایس آرمی سپیشل فورسز نے اپنی ماضی کی قباحتیں دورکرکے ایک نیا وتیرہ اختیار کیا اور وہ وتیرہ تھا .... کہ ”وطن کے اندر وطن کے باشندوں کو گوریلا تربیت فراہم کرنا “.... ہمارے ریذیڈنٹ ایڈیٹر جاوید صدیق نے اپنے گزشتہ کالم کا عنوان رکھا .... جناب ! یہ گوریلا جنگ ہے .... اوریہ سچ ہے کہ ہم دنیا کے سامنے بڑے منظر نامے پرایک اور طرح کی جنگ کا شکار ہیں کہ جس میں خود ہمیں ہی قصور وار بھی ٹھہرایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ہم Slow and Small War کا اندرون خانہ بھی شکار بن رہے ہیں .... یہ 1960ءکی بات ہے کہ جب ویت نام میں ڈموٹا گنار ہیڈ قبیلے پر دست شفقت رکھا گیا تھا کہ جن کا کام ویت کانگ یعنی کمیونسٹ ویتنامیوں کے خلاف لڑنا تھا .... اس قبیلے کو جنگ لڑنے اور بندوق چلانے کی تربیت دی گئی .... اور بعد میں ایک خاص پروگرام کے ذریعے دوسو مزید دیہات شامل کر لیے گئے تھے اور یوں بارہ ہزار دیہاتیوں کو جنگی تربیت دی گئی .... امریکہ والے اس قسم کی تربیت کا اہتمام سول ڈیفنس کے لیے پڑھے لکھے لوگوں اور شہری آبادی کے لیے نہیں کرتے ہیں ظاہر ہے کہ تعلیم یافتہ اور باشعور افراد ان کے ہتھے آسانی سے نہیں چڑھ سکتے اسی لیے ان کی این جی اوز کسی بھی ملک کے دیہات میں پسماندگی دور کرنے کے نام پر کام کرتی ہیں .... امریکی ملٹری نیشنل فورسز کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے بہت سارا نیٹ ورک کام کررہا ہوتا ہے .... مقاصد کے حصول کے لیے ایک حربہ ”سوک ایکشن “ کا بھی ہوتا ہے یہ طریقہ کار الجزائر میں بھی اپنایا گیا تھا .... ”سوک ایکشن “ کا مطلب ہوتا ہے کہ کسی ملک کے لوگوں کو پراپیگنڈہ کی مدد سے اپنی طرف راغب رکھا جاسکے یہ ایک طرح کی نفسیاتی اوراعصابی جنگ ہے .... امریکی زبان میں اسے ”سایوپس“ کا نام دیا گیا ہے .... اسے دلوں اور ذہنوں کی جنگ کہا جاسکتا ہے .... امریکہ ہمارے ساتھ ہر طرح کی جنگ کررہا ہے .... ہمارے دلوں ‘ ذہنوں اور اعصاب کو آزما چکا ہے .... مگر قوم ثابت قدم رہی ہے میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ ہم دو طرح کی مشکلات کا شکار ہیں .... ایک تو امریکہ راضی نہیں ہو پا رہا .... اور دوسرا وہ لوگ جو ہمارے طالبان کے خلاف ہونے کی وجہ سے ہمارے خلاف ہو رہے ہیں یعنی القاعدہ، اسامہ بن لادن اور طالبان کی ہمدردی رکھنے والا طبقہ بھی موجود ہے حتی کہ انگلستان کے ایک اہم مذہبی رہنما آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹر روان ولیمز نے اپنے بیان میں کہا :
Killing bin Ladin when he was not carrying a weapon meant that Justice could not be seen to be done.
آئندہ آنے والے زمانوں میں امریکہ کی جارحانہ ‘ غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کے خلاف آواز بلند ہوتی چلی جائے گی .... مگر ان تمام حالات میں امریکی سپیشل فورسز کی طرح ہمارے ہاں بھی اپنی اپنی قباحتیں دور کرنے کی ضرورت ہے .... وہ لوگ کبھی ”گنگھو“ کبھی ”سوک ایکشن “ اور کبھی ”سایوپس “ کے نام پر نئے نئے طریقے ایجاد کرتے ہیں .... ایک تو ہمارے لیڈروں سیاستدانوں اور وزارت خارجہ کو اپنی گفتار کے انداز پر کنٹرول رکھنا ہوگا کہ جو ایبٹ آباد آپریشن کے بعد کہتے ہیں کہ یہ آپریشن امریکا کی اعلان شدہ پالیسی کے مطابق تھا کہ اسامہ بن لادن کو فوجی کارروائی کے ذریعے ختم کیا جائے گا .... آج کراچی نیول میں کھلی دہشت گردی کے بعد ایک اورڈرامہ سامنے آرہا ہے اوراس ڈرامے کا دیکھیں وہ لوگ کیا نام رکھتے ہیں .... کل ہی نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرے فورک نے کہا ہے کہ ”نیول بیس پر دہشت گردوں کے حملہ سے ہمیں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں تشویش لاحق ہوگئی ہے اور ہم اس معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں“.... ظاہر ہے کہ امریکہ کو ہمارے دہشت گردی کا شکار ہونے کی وجہ سے ہونے والے جانی ومالی نقصانات کا باریک بینی سے اندازہ تو نہیں کرنا ہے کہ مدتوں سے ہم کس کرب کا شکار کر دئیے گئے ہیں بلکہ انہیں تو ایٹمی تنصیبات کے معاملہ میں تشویش کا اظہار کرکے ہمارے ایٹمی پروگرام پر ہاتھ صاف کرنے کی پڑی ہوئی ہے لہٰذا ایسے حالات میں دفاعی نظام کی کسی طرح کی کمزوری یا انیٹلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آنا چاہیے اور ہمیں بھی باریک بینی کے ساتھ تمام معاملات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اوراس کے ساتھ ساتھ سول اور فوجی اداروں کی مکمل ہم آہنگی کی ضرورت ہے جبکہ لیڈروں اور حکمرانوں کو صرف اپنے عوام کے جذبات کا احساس اور خیال رکھنا ہوگا تاکہ مصائب میں گھرے عوام مزید تنگ آمد وبجنگ آمد پر آمادہ نہ ہو سکیں .... کم ازکم ان کے جذبات کی ترجمانی تو درست انداز میں ہو کر رہے جبکہ بجلی مہنگی کرنے کا بم ان کے سروں پر پھوڑا جا چکا ہے .... امریکہ کے قرضوں کے بوجھ تلے دب کر اس قسم کے فیصلے ناگزیر ہوتے چلے جاتے ہیں کہ جو عوام کے لیے مشکلات کا باعث بنتے ہیں .... لہٰذا توجہ کے ساتھ ان تمام مسائل پر غوروفکر کرنے کے ساتھ ساتھ دفاعی اداروں اور ایجنسیوں کو اپنی اپنی قباحتیں دورکرنا پڑیں گی تاکہ اس گوریلا جنگ کو آغاز پر ہی روک دیا جائے .... کیونکہ ہمیں اپنے ایجنڈے کو بڑھانے کے لیے بڑے نیٹ روک کی ضرورت ہے ....! اپنا خیال رکھئے گا !

ای پیپر دی نیشن