آﺅ ہم سب ملکر اپنی دولت پاکستان لے آئیں

پاکستان کی تاریخ میں میاں نواز شریف کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہو رہا ہے کہ وہ تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے جلیل القدر عہدے پر فائز ہونے جا رہے ہیں۔ ماضی میں سابق صدر غلام اسحاق خان مرحوم اور پھر سابق آرمی چیف (ر) جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی جمہوری حکومت کے خلاف غیرآئینی اقدام کرتے ہوئے جمہوریت کا قتل عام کیا جس سے ملکی ادارے اپنا وجود کھو بیٹھے۔ آج پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ ایک بار پھر پاکستان میں جمہوریت کی نئی صبح طلوع ہو رہی ہے۔ میاں نواز شریف جس نئے سفر کا آغاز کر رہے ہیں۔ اس میں بے پناہ مسائل بھی ہیں۔ معاشی بدحالی، دہشت گردی، بے روزگاری، بجلی اور گیس کا بحران اور پھر امن عامہ کی بگڑتی ہوئی صورت حال، یہ وہ مسائل ہیں اور جن پر چند دنوں میں اور مہینوں میں قابو پانا مشکل ہو گا۔ یقیناً ان مسائل کے حل کے لئے وقت درکار ہو گا۔ سب سے بڑا مسئلہ ملک میں کینسر کی طرح پھیلتا ہوا کرپشن کا مرض ہے اس پر فوری طور پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ میاں نواز شریف کو اپنی پہلی فرصت میں کرپشن کے خاتمے کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے اور ساتھ ہی اس اصول کو بھی اپنانا ہو گا کہ
”آﺅ سب مل کر اپنی دولت پاکستان لے آئیں“
یقین جانئے کہ اگر اس اصول پر عمل ہو جائے تو پاکستان کی معاشی حالت نہ صرف سدھر سکتی ہے بلکہ پاکستان کی معیشت میں انقلاب آ سکتا ہے اور پاکستان یقیناً ایڈ کی بجائے ٹریڈ کی حکمت عملی اپنا کر اقوام عالم میں اپنا سر فخر سے بلند کر سکتا ہے۔ بیرون ملک مقیم تارکین پاکستان کی بھاری تعداد پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہش مند ہے۔ تاریخ پاکستان کو سنہری موقع فراہم کر رہی ہے۔ چین جو کہ دنیا کی ابھرتی ہوئی تجارتی قوت بن کر پوری دنیا میں اپنا لوہا منوا رہا ہے۔ یہ ملک پاکستان کی ہر سطح پر امداد کرنے کو تیار ہے۔ تجارتی راہداریاں پاکستان فراہم کر کے گوادر پورٹ کے ذریعے چین کو خطے میں اہم مقام دلانے میں اپنا بھرپور کردارادا کر کے اپنی قومی معیشت میں انقلاب لا سکتا ہے۔ عوامی نمائندے جو کہ اب نئے ولولے اور عزم کے ساتھ پارلیمنٹ میں آ رہے ہیں۔ ہر عوامی نمائندہ اپنی جگہ اپنی قومی ذمہ داریوں کو دیانت اور امانت تصور کر کے نبھائے اور سادگی کو اپنا شعار بنا لے اور اس کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے تمام اضافی الاﺅنس اور اپنے پروٹوکول پر اٹھنے والے مالی اخراجات سے دستبردار ہو کر قومی خزانے کو مضبوط بنانے میں اپنا اپنا حصہ ڈال دے تو کوئی وجہ نہیں کہ قوم بہت جلد خوشحالی کی جانب اپنا سفر شروع نہ کر دے۔ جنگی بنیادوں پر ہر سطح پر حکومتی اخراجات میں کمی کے ساتھ تمام بجٹ عوام کی صحت، تعلیم اور عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے پر مختص کر دیا جائے اور ترقیاتی فنڈز پر بھی کڑی نظر رکھ کر ان کا استعمال عمل میں لایا جائے تو یقیناً پاکستان فلاحی ریاست کا نمونہ بن سکتا ہے۔ صدر مملکت ہوں یا کوئی اور عوامی نمائندہ اب پاکستان اس امر کا تقاضا کر رہا ہے کہ نئے جمہوری دور میں بیرون ملک رکھا گیا سرمایہ واپس لانے میں ہر کوئی رضاکارانہ طور پر اپنا کردار ادا کرے ورنہ نئی حکومت کو یہ کڑوی گولی بھی کھانی پڑے گی کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر قانون سازی کر کے بیرون ملک سے قومی سرمایہ واپس پاکستان لانے کے اقدامات کرے۔ نئی حکومت کی اولین ترجیحات ملکی معیشت کو سدھارنے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے اقدامات ہوں گے لہٰذا اب قومی دولت جو کہ غیرقانونی طور پر غیرملکی میں مختلف ناموں سے رکھی گئی ہے اس کی واپسی کے لئے حکومتی سطح پر سفارتی چینل کو بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ مصر کے سابق صدر حسنی مبارک اور لیبیا کے کرنل معمر قدافی کی دولت جو کہ ملکی خزانے سے لوٹ کر امریکی برطانوی اور سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں رکھی گئی تھی یہ دولت اب واپس مصر اور لیبیا کے عوام کو لوٹائی جا چکی ہے۔ پاکستان ہی دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں آج تک قومی دولت جو کہ لوٹ کر غیرملکی بینکوں میں رکھی گئی ہے اس کے بارے میں پاکستان کی عدالتوں میں مقدمات چلا کر ان پر قومی سرمایہ ضائع کیا گیا ہے مگر قومی دولت جوں کی توں ابھی تک غیرملکی بینکوں میں محفوظ پڑی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سوئٹزرلینڈ میں پڑا پاکستانی سرمایہ اب وہاں سے نامعلوم مقام کی جانب منتقل ہو چکا ہے جبکہ پاکستان کا قانون بے بسی کی تصویر بنا کھڑا ہے۔ اب امید کی جانی چاہئے کہ نئی حکومت فوری طور پر اس جانب توجہ دے کر اپنا قومی فریضہ پورا کرے گی اور کسی بھی استحقاق کو اب آڑے آنے نہ دے گی۔ قومی دولت کی واپسی کے حصول میں اب استحقاق کا خاتمہ ہو جانا چاہئے۔ سیاسی مروت اور مفادات کو بالائے طاق رکھ کر غیرملکی بینکوں سے قومی دولت کی واپسی پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ اس ضمن میں کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ ہونا ہی نہیں چاہئے۔ آئندہ کے لئے کڑے قوانین ہونے چاہئیں تاکہ قومی دولت کسی صورت بھی پاکستان سے باہر منتقل نہ ہو سکے۔ تارکین وطن جو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے بے تاب ہیں ان کو تحفظ فراہم کیا جانا چاہئے اور ملک میں حکومتی سطح پر ان کی رہنمائی کی جائے تو چند دنوں ہی میں پاکستان کے مختلف شہروں میں سرمایہ کاری کے لئے بے شمار پاکستانی شخصیات اپنے منصوبوں کے ساتھ آنے کو تیار ہیں۔ سرمایہ کاری کے مواقعوں میں صاف شفاف اور سکیورٹی کے انتظامات کو بھی یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں پہل عوام کے منتخب نمائندوں کو کرنا ہو گی اور ہر سطح پر کرپشن کا خاتمہ ضروری ہو گا۔
بیروزگار نوجوانوں کو آسان شرائط پر قرضوں کا اجرا یقینی بنایا جائے اور اس کے ساتھ ہی عوامی نمائندوں کو ہر سطح پر قرضوں کا اجرا بند ہونا چاہئے لیکن تباہ حال چھوٹے کاروباری حضرات اور صنعت کاروں کو اپنے کاروبار جاری رکھنے کی غرض سے قرضے جاری ہونے چاہئیں۔ ماضی میں جن سیاستدانوں اور عوامی نمائندوں کے قرضے معاف کر دیے گئے تھے ان سے قرضوں کی وصولی ہر حالت میں ہونی چاہئے۔ ٹیکس کا نظام صاف ستھرا بنایا جائے اور اس کی وصولی بھی یقینی بنائی جائے۔ امید کی جانی چاہئے کہ میاں نواز شریف بطور وزیراعظم پارلیمنٹ سے اپنے پہلے خطاب کے دوران یقیناً ہر کسی پر زور دیں گے کہ وہ اپنی دولت واپس پاکستان لے آئیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان سمیت قوم کے رہنما قومی خزانے میں اپنا سرمایہ بیرون ملک سے کس قدر جلد واپس لاتے ہیں اور ملکی معیشت کو سدھارنے میں کونسا قومی رہنما قوم کے دلوں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ قومی دولت واپس لانے والے قومی رہنماﺅں کو جمہوریت کا طلوع ہونے والا نیا سورج یہ موقع فراہم کر رہا ہے کہ وہ اپنا کھویا ہوا وقار بحال کر لیں اور پاکستان سے اپنی وفاداری کا عملی مظاہرہ کریں۔ اس قومی خدمت میں سیاستدانوں کے علاوہ بیورو کریٹ اور جرنیل سب مل کر پاکستان کو معاشی بدحالی سے نجات دلا سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن