پیرس (اے پی اے) یورپی یونین نے کہا ہے کہ وہ نئی حکومت کو درپیش گھمبیر داخلی اور خارجی پالیسی کے مسائل کو حل کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ امریکہ، ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ تعلقات ناگزیر طور پر توجہ کا مرکز ہیں۔ تاہم، ایک نئی جمہوری طور پر منتخب حکومت نے بھی یورپی یونین۔پاکستان کے تعلقات میں نئے امکانات روشن کر دئیے ہیں۔ یورپی یونین کی بنیادی ترجیح یہ ہونی چاہئے وہ پاکستانی جمہوریت کی مضبوط، واضح اور مستحکم حمایت کرتی رہے اور اس سلسلے میں اسے فوری قدم اٹھانا ہوگا۔ یورپی پاکستانی تعاون کی راہ میں مندرجہ ذیل تین بنیادی مسائل کو پیش نظر رکھا جانا چاہئے۔ایک تو یہ کہ تیسری یورپین-پاکستان سربراہ کانفرنس جلد ازجلد منعقد کی جائے، یورپین-پاکستان پنج سالہ منصوبوں کو تیزی سے آگے بڑھایا جائے اور ان میں جان ڈالی جائے، دونوں طرفین کے مابین سٹریٹجک معاملات پر مذاکرات ہوں اور پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات کو مزید رسائی اور فروغ دینے کے اقدامات کئے جائیں۔ یورپین یونین پاکستان کی سول سوسائٹی کو مزید تعاون فراہم کرسکتی ہے، انسانی حقوق کے ریکارڈ کو جو ابھی تک انتہائی خراب ہیں بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے اور علاقائی یکجہتی میں اپنے تجربے کی بنیاد پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعاون کو فروغ دینے میں اپنا رول ادا کرسکتی ہے-یورپی یونین کی اعلیٰ عہدیدار کیتھرین ایشٹن نے پاکستان کے انتخابات کو ملک کی “جمہوری زندگی کی تاریخی فتح” قراردیا ہے- یورپین یونین کے مبصرین کے مشن کے سربراہ مائیکل گاہلر جو انتخابی عمل کا مشاہدہ کرنے پاکستان آئے تھے پولنگ کی تعریف کی لیکن یہ بھی کہا کہ پاکستان میں انتخابات کے سلسلہءعمل کے مختلف پہلوو¿ں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے-مشن پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر نیم خودمختار قبائلی علاقے میں، جو طالبان اور القاعدہ کا مضبوط گڑھ ہے، انتخابی عمل کی نگرانی کرنے میں ناکام رہا۔