ذکر چند سرکاری ہسپتالوں کا

جناح ہسپتال شہر کا ایک بڑا اور کامیاب ہسپتال گردانا اور مانا جانے لگا تھا مگر مجھے کہنے دیجئے کے ساری اچھائی اس وقت تک نظر آتی رہی جب تک ہسپتال مذکورہ کا کنٹرول ڈاکٹر زاہد پرویز کے پاس رہا اور وہ جناح ہسپتال کے ایم ایس رہے لگتا ہے کہ انتظامی صلاحیتیں اس انسان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری گئی ہوئی ہیں زاہد پرویز نے شب و روز کی محنت سے جناح ہسپتال کو صحیح معنوں میں غریبوں کا ایک صاف ستھرا ہسپتال بنا کر دکھایا۔ میں نہیں جانتا کہ شہباز شرےف کو کیا سوجھی کہ انہوں نے ایک کامیاب و ہر دلعزیز ایم ایس کو جناح سے میو ہسپتال ٹرانسفر کر ڈالا اس تبادلے کی جو اہم وجہ سامنے آئی یہ تھی کہ وزیر اعلیٰ میو ہسپتال کو بھی ایک مثالی ہسپتال بنانا چاہتے تھے اسلئے انکی نظر انتخاب زاہد پرویز پر پڑی۔ زاہد پرویز تو میو ہسپتال پہنچ گئے اور لگے شہباز شرےف کی امیدوں پر پورا اترنے۔ انہوں نے ہر وہ کوشش شروع کر دی جس سے میو ہسپتال کی ساکھ محفوظ کی جا سکتی تھی۔ تھوڑے ہی وقت میں میو ہسپتال کی گرتی ہوئی ساکھ بحال ہونا شروع ہو گئی بلکہ میو ہسپتال کا شمار صاف ستھرے ہسپتالوں میں ہونے لگا۔ دوسری طرف جناح ہسپتال روبہ زوال ہونا شروع ہو گیا اسکا کوئی بھی ایم ایس حالات کو بہتر نہ کر سکا۔ یہ سب کیا دھرا کمزور مینجمنٹ کا ہے ان تمام تر خرابیوں کے باوجود ڈاکٹر عظمی حمزہ ایسی خاتون کی ہسپتال میں موجودگی کسی معجزہ سے کم نہیں پروفیسر ڈاکٹر معظم تارڑ کی صلاحیتوں کی تعریف نہ کرنا بخل کے زمرے میں آئیگا۔ جناح ہسپتال کو ڈاکٹر ندیم بٹ کی صلاحیتوں پر بھی فخر کرنا چاہئے۔زاہد پرویز نے میو ہسپتال کو اپنی انتظامی صلاحیتوں سے ایک صاف ستھرا با اعتماد اور کامیاب ہسپتال بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور شائد یہی وجہ ہے کہ آج میو ہسپتال کا نام شہر کے با اعتماد اداروں میں لیا جانے لگا ہے۔میرا خیال ہی نہیں سو فیصد یقین ہے کہ زاہد پرویز کی کامیابیوں کے صلے میں ڈی جی ہیلتھ بنا دیا گیا اور یوں لگا کہ میو ہسپتال کو تقسیم کر دیا گیا ہے امید کی جانے لگی تھی کہ زاہد پرویز کے ڈی جی صحت بننے کے بعد میو ہسپتال اپنی ساکھ برقرار نہ رکھ پائے گا لیکن شاباش ہے ۔ شہباز شرےف اور بردار عزیز خواجہ سلمان رفیق کے انتخاب کو کہ انہوںنے میو ہسپتال کا ایم ایس ایک ایسے شخص کو لگا دیا کہ عاجزی انکساری طویل تجربہ غریب دوستی اور انتظامی صلاحیت جن کی ذات کے خاصے ہیں ڈاکٹر امجد شہزاد ایک درویش صفت اور خوف خدا رکھنے والا ایم ایس ہے اس نے زاہد پرویز کے چلے جانے کے بعد پیدا ہونے والا خلاءکی کمی کو اس تیزی اور خوبصورتی سے پورا کیا ہے جسکی تعریف کرنا اشد ضروری ہے۔ صاف ستھرا ماحول اور سٹاف پر ایم ایس کی گرفت زاہد پرویز چھوڑ کر گئے تھے وہ صورتحال آج بھی نظر آ رہی ہے۔ سٹاف کو ڈنڈے کے زور پر نہیں پیار سے کنٹرول کیا گیا ہوا ہے ڈاکٹر امجد شہزاد کی ایک خاصیت جو مجھے اچھی لگی کہ وہ ہر طرح کے ماحول میں خود کو ایڈجسٹ کرلینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر امجد شہزاد کی خوش بختی ہے کہ انہیں ٹیم بھی قابل ملی ہے۔ ڈاکٹر عدنان شاہد ایک محنتی اور غریب دوست مسیحا ہے ماہر امراض قلب پروفیسر ڈاکٹر محمد اظہر کا بھی میو ہسپتال سے وابستہ ہونا میو ہسپتال کی خوش قسمتی ہی کہلائے گا۔اب کچھ ذکر ہو جائے پنجاب انسٹیٹوٹ آف کارڈیالوجی کا یہاں بھی غریب و سفید پوش مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ پی آئی سی چےف پروفیسر ڈاکٹر بلال زکریا بلاشبہ درویش صفت، محنتی، با صلاحیت ا ور شریف انسان ہیں مگر کام کا اتنا زیادہ بوجھ ان پر ڈال دیا گیا ہوا ہے۔ ایم ایس ڈاکٹر عبیدہ نگہت انتظامی صلاحیتوں سے مالا مال خاتون ہیں میری خواہش ہے کہ خادم پنجاب اور خواجہ سلمان رفیق کسی روز PIC کی ایمرجنسی کا اچانک دورہ کریں۔

ای پیپر دی نیشن