مولانا فضل الرحمن کی’’ شگفتہ بیانی و بزلہ سنجی‘‘

May 27, 2014

نوازرضا۔۔۔ںوٹ بک

     جمعیت علماء اسلام (ف)کے امیر وپارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمنٰ مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک ہیں وہ سیاست میں اپنے اہداف کے حصول کے لئے’’ سب کچھ کر گذرنے ‘‘ کی صلاحیت رکھتے ہیںوہ  خوبصورت انداز میں بامقصد گفتگو کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں جچی تلی بات کرتے ہیں  اور  الفاظ کا انتخاب   احتیاط سے کرتے ہیں   جملے بازی  میں کوئی ان کو شکست نہیں دے سکتا ’’شگتفہ بیانی اور بزلہ سنجی‘‘  ان کا طرہء امتیاز ہے برجستہ جواب دینے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں اگرچہ   ان کا تعلق مکتبہ دیوبند سے ہے لیکن انہوں نے اپنے کردار و عمل سے مسلمانوں کے  دیگر مکاتب فکر کے لئے اپنے آپ کو قابل قبول بنایا  دینی جماعتوں کے اتحاد میں کلیدی کردار ادا کیا لیکن ان کے  بعض سیاسی فیصلوں نے ایم  ایم اے کو’’غیر فعال ‘‘ بنا  دیا مولانا فضل الرحمن اس نظریہ کا کھل کر اظہار کرتے ہیں کہ ہر سیاسی جماعت کا مقصد اقتدار کا حصول  ہوتا ہے تاکہ وہ حکومت قائم کرکے اپنے اہداف حاصل کر سکے یہ مولانا فضل الرحمن کی شخصیت ہی ہے کہ وہ آصف علی زرداری کی سیکولر حکومت کے ساتھ کم و بیش 3سال تک رہے پھر  وہ  وزیر اعظم محمد نواز شریف کی حکومت کا بھی حصہ بن گئے لیکن جب سے وہ حکومت کا حصہ بنے ہیں ’’اکھڑے اکھڑے‘‘ نظر آتے ہیں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ حکومت کا حصہ ہی  نہیں بلکہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے ہیں مولانا فضل الرحمن اکثر و بیشتر پارلیمنٹ ہائوس کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرتے ہیںمسجد کے امام احمد الرحمن  انہیں نماز جمعہ کی امامت کا موقع فراہم کرتے رہتے ہیں گذشتہ جمعہ کو  نماز کی ادائیگی کے بعد ان کے ساتھ  ایک طویل نشست ہوئی راقم السطور نے ان سے دریافت  کیا کہ’’ آپ نے  جمعیت علما اسلام(ف) کی مرکزی مجلس عاملہ و پارلیمانی پارٹی کے مشترکہ اجلاس میں کئے گئے فیصلوں کے بارے  میں بریفنگ دینے سے کیوں گریز کیا ہے ؟تو انہوں برجستہ جواب دیا کہ ’’خاموشی کے سوا ہم کر ہی کیا سکتے ہیں  دھرنا دینے سے تو رہے ہم محبت پر یقین رکھتے ہیں سیاست  میں  نفرت کسی کتاب میں نہیں لکھی  اختلاف رائے کو دشمنی کا رنگ نہیں دینا چاہیے ہم نے ’’ فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کا طعنہ تو سن لیا لیکن اسے کبھی  دشمنی میں تبدیل نہیں کیا ۔ ’’آپ  نے مسلم لیگ (ن) کی    حکومت  کی حمایت کا فیصلہ کیو ں کیا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ’’ہم نے ابتدا ء خیر سگالی کے   جذبے سے کی اب دیکھتے ہیں انجام کس طرح ہوتا ہے؟ پیپلز پارٹی سے تو ہمیں کوئی توقع تھی ہی نہیں لیکن مسلم لیگ (ن) نے ہم سے پارلیمنٹ میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو زیر بحث لانے کی کمٹنٹ کی تھی لیکن ایک سال گذرنے کے باوجود اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو زیر بحث نہیں لایا گیا مسلم لیگ والوں کا تو نعرہ ہے ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ جماعت اسلامی  کی ’’پشتو ‘‘ بولنے والی قیادت آگئی ہے اب تواپنا مدعا بیا ن کرنے میں آسانی  ہوتی ہو گی ؟ مولانا  نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا  ’’جی ہاں ان تک اپنی بات پہنچانے میں آسانی ہو گئی ہے جماعت اسلامی کی قیادت کا انتخاب اس کا اندرونی معاملہ ہے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا البتہ جماعت اسلامی کی قیادت سے ایم ایم  اے کی بحالی پر سلسلہ جنبانی  شروع کر دیا ہے اس کے جلد مثبت نتائج برآمد ہوں گے  جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل  لیاقت بلوچ اورتحریک اسلامی کے سربراہ علامہ ساجد نقوی سے ملاقات کے بعدٍٍٍٍٍ  جمعیت علما ء  اسلام(ف) کی مرکزی مجلس قائمہ اور پارلیمانی پارٹی کے مشترکہ اجلاس میں ایم ایم اے کی بحالی کے لئے حکمت عملی تیار کر لی ہے  انہوں نے مسلکی اختلافات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا اور کہا کہ’’ شیعہ سنی ‘‘اختلافات صدیوں پرانے ہین لیکن ہمیں  تمام مسالک میں ’’ مشترکات‘‘ کو تلاش کرنا چاہیے تمام مسالک کے لوگوں کو ایک  سیاسی پلیٹ فارم پر اکھٹے کرنا وقت کی ضرورت ہے لیکن مولانا صاحب جب  آپکی جماعت کے لوگ جماعت اسلامی کے ساتھ باہم شیر وشکر   ہوتے ہیں تو تمام اختلافات کو بھلا دیتے ہیں  جب اختلاف ہو جائے تو  انہیں ’’مودودیت‘‘ کا پیروکار ہونے کا طعنہ دینے سے بھی گریز نہیں کرتی اس میں کوئی شق نہیں سے سید  مودودی کی ایک سوچ و فکر تھی  جسے کوئی بھی نام دیا جاسکتا ہے لیکن جماعت اسلامی کی قیادت اس سوچ کی نفی کرتی ہے جمعیت علماء اسلام(ف) کے سیکریٹری جنرل  مولانا عبد الغفور حیدری نے جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد سے ملاقات کی تو قاضی حسین احمد کے ذہن میں بات تھی انہوں نے مولانا عبدالغفور حیدری کا ہاتھ پکڑ کر کہا ’’حیدری صاحب جماعت اسلامی مودودیت نہیں اسلامی نظام کی علمبردار ہے ‘‘ راقم السطور نے مولانا فضل الرحمن کو زمانہء طالبعلی یاد دلایا اور پوچھا کہ کیا  آپ مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں زیر تعلیم رہے ہیں اور مولانا سمیع الحق کے’’ شاگرد خاص‘‘ تھے تو انہوں نے کہا  کہ’’میں مولانا سمیع الحق کا نہیں حضرت عبدالحق کا ’’شاگرد خاص‘‘ تھا  8سال تک مدرسہ حقانیہ میں زیر تعلیم رہامیرے لئے مولانا عبدالحق کے گھر سے اساتذہ کے لئے  آنے والے کھانے  کے ہمراہ  میرا کھانا آتا تھا جب 8سال  بعددیگر طلباء  کے ہمراہ  میری دستار بندی  ہونے لگی تو میں نے یہ کہہ کر کہ ’’میں اس   قابل نہیں   دستار بندی سے  معذرت کر لی‘‘ جب حضرت عبدالحق سے اجازت لے کر گھر جانے لگا تو وہ مجھے گھر کے باہر چھوڑنے آئے اور میر سر پر اپنی دستار سجادی جسے میں  نے اپنے سر سے اتار کر  دستار کو عقیدت سے چوم لیا ۔ راقم السطور نے ان کی قومی اسمبلی کے اجلاس مین وزیر اعظم محمد نواز شریف سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں استفسار کیا تو انہوںنے کہا کہ ’’میں نے میاں نواز شریف سے ملاقات کی درخواست کی ہے اگر ملاقات کی دعوت ملی تو لیڈر شپ سے نچلی سطح پر بات چیت نہیں کی جائے گی اگر کوئی وزیر  ملاقات کرنا چاہے تو ملاقات نہیں کریں گے جمعیت علماء اسلام (ف)کے دو وزراء کو وزارتوں کے قلمدان الاٹ دینے کا معاملہ کہاں تک پہنچا ہے ؟تو انہوں نے کہا کہ ’’وہیں پر پڑا جہاں اڑھائی ماہ قبل تھا‘‘ انہوں کہا کہ میاں نواز شریف سے ملاقات کے حوالے سے بات نہیں ہوئی انہوں نے میرے ایک نو آموز سیاست دان کی سیاسی قلابازیوں کو یوٹرن سے تشبیہ دینے کو سراہا تھا   مولانا فضل الرحمن نے اس بارے میں حکومتی رویہ پر مایوسی کا اظہار کیا  راقم السطور نے مولانا فضل الرحمنٰ1977ء کی  تحریک نظام مصطفیﷺٍٰ    کا ایک واقعہ سنایا کہ مفتی محمود،شاہ احمد نورانی اور پروفیسر غفوراحمد سہالہ ریسٹ ہائوس میں نظر بند تھے  سہالہ ریسٹ ہائوس میں ان کی نگرانی پر  مامور ایک پولیس آفیسر نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ممتاز رہنماء حاجی نواز کھوکھر کے پاس آیا اور کہا کہ ’’آپ ذالفقار علی بھٹو کے پاس جائیں اور ان سے کہیں وہ  دور حاضر کے اولیاء سے نہ لڑیںنقصان میں رہیں گے ‘‘حاجی نواز کھوکھر آپ یہ سب کچھ کیوں کر کہہ رہے ہیں تو اس نے کہا کہ میں اپنے تجربہ کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں پی این اے  کے  قائدین  میری نگرانی میں ہیں ان کو پولیس لائن کی چائے ٹوٹے پوٹھے پیالوں میں ڈال کر دیتے اور جو کچھ لنگر میں پکتا وہ ان کو پیش کر دیتے ہیں  لیکن پی این اے کے کسی لیڈر نے کبھی کھانا کھانے سے انکار کیا اور نہ ہی احتجا ج  جو کچھ کھانے کے لئے ملتا کھا پی کر نماز کی ادائیگی کے بعد جائے نماز پر سو جاتے  ہیں  جب  میں نے مولانا فضل الرحمن سے  پوچھا ’’کیا آپ نے  اپنے عظیم والد مفتی محمود کی درویشانہ زندگی سے کچھ سبق سیکھا ہے؟ ‘‘ تو انہوں نے اس اچانک حملے کا مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’کیوں نہیں مفتی محمود میرے والد تو تھے ہی لیکن وہ سیاست میں میرا آئیڈیل بھی  تھے ان کے کردار کی بلندی نے سیاست میں میری رہنمائی کی مولانا فضل الرحمن قومی سلامتی کی داخلی پالیسی میں دینی مدارس پر  حکومتی گرفت مضبوط کرنے کے’’ پوشیدہ ایجنڈے‘‘ کے سخت خلا ف تھے اور کہا کہ دینی مدارس کے’’ڈانڈے‘‘کیوں ملائے جا رہے ہیں مولانا فضل الرحمن کی’’شگفتہ بیانی اور بزلہ سنجی‘‘ سے وقت  گذرنے کا احساس ہی نہیں ہوا مولانا کے قہقہوں کے قہقوں کی گونج میں مجلس کا اختتام  پذیر ہوئی ۔

مزیدخبریں