عدلیہ مخالف بینر، سپریم کورٹ نے آج رپورٹ طلب کرلی، جیو بندش کیس نمٹا دیا

May 27, 2014

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے پیمرا کی جانب سے عدالت عظمیٰ کے 2012 کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کی یقین دہانی کے بعد جیو بندش کیس کو نمٹا دیا۔ 2012 کے عدالتی فیصلے کے تحت کیبل آپریٹرز اپنی مرضی سے نہ تو چینلز بند کرسکتے ہیں، نہ ہی اس کی اصل پوزیشن تبدیل کرسکتے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا عوام الناس کے مفاد میں فیصلہ اردو میں لکھوا رہے ہیں۔ عدالت نے ڈی جی آئی بی اور سیکرٹری داخلہ کو عدلیہ مخالف بینرز سے متعلق رپورٹ بدھ کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ پیمرا حکام نے عدالت کو بتایا چینل کی بندش کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیا جارہا ہے۔ عدالتی حکم میں کہا گیا عدلیہ کے حوالے سے توہین آمیز بینرز سے متعلق سماعت کل ہوگی۔ عدالت نے کہا گمنام ریڈ زون میں حرکت کرسکتے ہیں تو ملک کس حد تک غیر محفوظ ہوگا۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے آج بے ضرر پوسٹر لگے ہیں کل ریڈ زون میں داخل ہوکر نقصان پہنچانے والا عمل بھی کیا جاسکتا ہے۔ سیکرٹری داخلہ اور ڈی جی آئی بی یقینی بنائیں ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔ عدالت کا کہنا تھا شہر میں لوگ بینرز لگا جاتے ہیں اور حکومت کو یہ پتا نہیں ہوتا بینرز کس نے لگائے؟ انہوں نے کہا شکر ہے نامعلوم افراد نے صرف بینرز لگائے کوئی بم وغیرہ نہیں رکھ گئے۔ این این آئی کے مطابق جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا عدلیہ کی بے توقیری کی جارہی ہے،حکومت بے بس ہے، معاملہ کی تہہ تک جائیں گے۔ وفاقی دارالحکومت میں عدلیہ کے خلاف بینرز لگائے گئے ہیں، سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں، پتہ چلائیں یہ بینرز کس نے لگائے، آپ کی حکومت کے کان اور آنکھ ہیں،کیا ایکشن لیا ہے؟ اٹارنی جنرل بتائیں کیا یہ بینرز غیب سے فرشتے لگا گئے ہیں۔ عدلیہ عوام الناس کا ادارہ ہے، ہر شہری کو عدلیہ کی بے توقیری پر تشویش ہے۔ حکومت کو ہرزہ سرائی پر کوئی پروا نہیں۔ ہم نے یہ کیس سکون سے سننا ہے، چاہے اس کیلئے دن رات بیٹھنا پڑے، ہم اس معاملہ کی تہہ تک جائیں گے۔ ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان نے بتایا مجھے آج ہی کسی نے بتایا شہرمیں عدلیہ مخالف بینرز لگے ہوئے ہیں۔ ثناء نیوز کے مطابق اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا یہ بینرز باجوڑ یا کسی دور افتادہ علاقہ میں نہیں لگائے گئے یہ ریڈ زون میں لگے ہوئے ہیں اور آپ ابھی تک یہ کہہ رہے ہیں یہ بات نوٹس میں آئی ہے اور اس پر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا آپ کو چوبیس گھنٹے کا وقت دیا جاتا ہے اس معاملہ کی تحقیقات کر کے بتائیں یہ بینرز کسی خلائی مخلوق نے لگائے ہیں یا فرشتے لگا کر گئے ہیں یا گوشت پوست کے کسی انسان نے لگائے ہیں۔ سیکرٹری داخلہ شاہد خان نے بھی موقف اختیار کیا وہ بینرز لگائے جانے کے بارے میں لاعلم ہیں تو جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا ان کی لاعلمی معاملہ کا جواب نہیں آپ کو اس معاملہ کی وضاحت کرنا ہوگی یہ اداروں کی نا اہلی ہے تو پھر یہ بہت خطرناک ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا اس صورتحال کی مکمل تحقیقات کر کے عدالت کو آگاہ کیا جائے ریڈ زون میں اس طرح کے بینرز لگ سکتے ہیں تو ملک کے حساس ترین علاقہ میں کوئی بھی واقعہ ہو سکتا ہے۔آن لائن کے مطابق جسٹس جواد نے بعد ازاں اردو میں حکم تحریر کرایا جس میں کہا گیا ہمیں خوشی قسمتی ہے کہ یہ فیصلہ قومی زبان میں لکھوانے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔ جمعرات کو ایک حکم دیا تھا اس حکم سے موجودہ حکم بھی پیوستہ ہے ۔ایک آئینی و قانونی امر جس کی وضاحت قابل طلب ہے ۔وہ یہ ہے کسی جج کو اس صورت میں کیا لازم ہے؟ جبکہ فریقین مقدمہ میں عذر ہو کوئی فرق جج کا قریبی عزیز تصور ہوتا ہے کیا وہ جج اس شخص کو قریبی عزیز کی طرح سے سمجھتا ہے ۔یہاں پر اعلی عدلیہ کے جج صاحبان کے لئے ایک ضابطہ اخلاق دیا گیا ہے اور اس ضابطہ اخلاق میں آرٹیکل چار میں تحریر ہے کوئی بھی جج شق نمبر چار کے تحت کسی بھی فریق مقدمہ کو اپنا قریبی رشتہ تصور کرتا ہے اور اس کو اور اس کے ساتھ مراسم بھی قریبی عزیز کے طور پر استوار کرتا ہے تو پھر وہ جج اس مقدمے سے الگ ہوجانا چاہیے ۔یہ شق اہمیت کی حامل ہے کیونکہ جب یہ مقدمہ 22مئی2014 کو سماعت کے لئے لگایا گیا اور سنا گیا تو بنچ نے خود اس بات کا نوٹس لیا کسی ٹی وی چینل پر ہم میں سے ایک (جسٹس جواد) پر عذر کیا گیا ہے کہ ایک فریق مقدمہ میر شکیل ان کا رشتہ دار ہے ۔آرڈر مورخہ22 مئی میں عذر اور اس پر حکم کی تفصیل تحریر ہے ۔سپریم کورٹ کا شعبہ تراجم آج ہی اس کا ترجمہ کر کے فریقین اور سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر ڈال دے۔ لہذا اس بات کی وضاحت ضروری ہے پاکستان کے قانون میں یہ بات مسلمہ ہے یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ تمام ممالک میںبھی مسلمہ ہے کہ جج مقدمے سے علیحدگی اس صورت میں کرنے کا پابندہے جب وہ خود تصور کر کے فریق مقدمہ یا تو اس کا قریبی رشتہ دار ہے یا ایسے تعلقات رکھتا ہے جو قریبی رشتہ دار کے ساتھ ہوتے ہیں۔22 مئی کے حکم میں وضاحت کر دی گئی تھی ۔گو میر شکیل الرحمن ایک جج (جسٹس جواد ایس خواجہ) کی بھاوج کے بھائی ہیں تاہم وہ جج (جسٹس جواد خواجہ) دو دہائیوں سے ان سے کبھی نہیں ملے اور نہ ہی آپس میں آنا جانا ہے، ہاں یہ بات آئین و قانون کے مطابق واضح کرنا ضروری ہے اس بناء پر ہمیں جسٹس جواد ایس خواجہ ،میر شکیل الرحمن کو نہ کبھی قریبی رشتہ دار تصور کیا ہے اور نہ ہی ان کے ساتھ ایسے کوئی روابط رکھے ہیں ۔20 سال سے روابط ہیں ہی نہیں ۔یہ اتفاق ہے کہ اس دن22 مئی کو ایک مقدمہ میری صدارت میں ہی لگا جس میں ایک فریق مقدمہ میرے قریبی عزیز اور رشتہ دار تصور کرتا تھا اور ان کے ساتھ مراسم اور روابط قریبی رشتہ دار کے تھے باوجود مخالف فریق کے اصرار کے کہ انہیں بنچ پر مکمل اعتماد ہے۔ضابطہ اخلاق کی رو سے سننا خلاف ضابطہ سمجھا۔وکیل کے اصرار کے باوجود کیس کی سماعت نہیں کی اور خود کو مقدمے سے الگ کر لیا ۔یہ تفریق جو کہ پہلے سے مسلمہ ہے اس کا اعادہ کرتا ہے اس مقدمے میں بھی ضروری ہے ۔ ہم نے آج حافظ ایس اے رحمن سے درخواست کی ہمیں کلام پاک میں سے بھی ان چند آیات کے حوالے دیں جن میں یہ واضح ہے اللہ تعالی نے واضح کیا کہ رشہ داروں کا مقدمہ سننا قاضی پر مالغ نہ ہے۔لہذا یہ بات واضح ہے کلام پاک اورشرع کی رو سے جج پر رشتہ دار کا مقدمہ سننے پر قطعاً ممانعت نہیں کیونکہ ہمارے حلف میں ضابطہ اخلاق کی پابندی لازم ہے لہذا شق نمبر چار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عدالتیں یہ فیصلے کرنے کا صوابدیدی اختیار رکھتی ہیں۔ججز صاحبان کسی فریق مقدمہ کو اپنا قریبی رشتہ دار تصور کرتے ہیں اور اس کے ساتھ مراسم بھی رکھتے ہیں جب ایک جج اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ وہ مراسم اور روابط اس نوعیت کے ہیں تو فریق مقدمے کا قریبی رشتہ دار ہے تو جج پر لازم ہے وہ الگ ہو جائے۔

مزیدخبریں