وکلاء اور پولیس باہمی جھگڑوں کا طویل ریکارڈ رکھتے ہیں۔مگر ایس ایچ او کی مبینہ فائرنگ سے ڈسکہ بار ایسوسی ایشن کے صدر سمیت دو وکلاء کے جاں بحق ہونے کا واقعہ غیر متوقع اور سنگین ترین نوعیت کا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس افسوس ناک واقعہ کے خلاف وکلاء کا بہت سخت رد عمل آیا جس میں مزید شدت آتی جائے گی۔پاکستان بار کونسل، لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، پنجاب بار کونسل ، لاہور ٹیکس بار ایسوسی ایشن اور لاہور بار ایسوسی ایشن کے ہنگامی مشترکہ اجلاس کے فیصلے کے مطابق گزشتہ روز ملک بھر میں احتجاج اور یوم سیاہ منایا گیا۔جلائو گھیرائو اور توڑ پھوڑ کے واقعات ہوئے۔یہ سب کچھ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے واقعہ کا فی الفور نوٹس لینے اور وکلاء برادری سے پرامن رہنے کی اپیل کے باوجود ہوا۔وزیر اعلی پنجاب نے جوڈیشل کمیشن بنانے کیلئے لاہور ہائی کورٹ سے درخواست کر دی ہے مگر سانحہ ماڈل ٹائون کی انکوائری کیلئے حکومت پنجاب کی طرف سے اپنے ہی بنائے ہوئے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کا جو حال کیا اس کے بعد جوڈیشل کمیشن اور انکوائریوں سے قانون دانوں کو مطمئن کرنا ناممکن ہے۔وکلاء کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ مبینہ فائرنگ کرنے والے ایس ایچ او کا انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت سمری ٹرائل کر کے پندرہ سے بیس روز کے اندر سزا دی جائے۔سپریم کورٹ بار کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر اور دیگر وکلاء راہنمائوں کا کہنا ہے کہ اتنے واضح وقوعہ اور عینی شاہدوں کی موجودگی کے باوجود کمیشن تشکیل دینا ملزموں کو تحفظ فراہم کرنے کے مترادف ہے۔وکلاء تنظیمیں ایس ایچ او سے لے کر وزیر اعلی تک مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کر رہی ہیں۔وکلاء راہنمائوں کا کہنا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون کے ذمہ داروں کو کلین چٹ دے کر حکومت نے انتظامیہ خصوصاً پولیس کیلئے ایک ایسا حوصلہ افزاء ماحول پیدا کر دیا ہے کہ وہ جس شہری کو چاہیں اپنی گولی کا نشانہ بنا لیں۔مگر وکلاء ایسا نہیں کرنے دیں گے ۔اگر حکومت نے سمری ٹرائل کا مطالبہ نہ مانا تو یہ احتجاج حکومت کے خلاف 2007جیسی تحریک کا نکتہ آغاز ہو سکتا ہے۔دوسری طرف چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس منظور احمد املک نے پولیس کی مبینہ فائرنگ سے ڈسکہ بار کے صدر رانامحمد خالد عباس اورعرفان چوہان ایڈووکیٹس کے جاں بحق ہونے کے واقعہ کا سخت نوٹس لیا ہے۔متعلقہ حکام کو ہدایت کی گئی ہے کہ ڈسکہ میں فوری طور پررینجرز تعینات کی جائے۔ فاضل چیف جسٹس نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سیالکوٹ سے بھی واقعہ کی رپورٹ طلب کی ہے جو آج فاضل عدالت میں پیش کئے جانے کا امکان ہے۔چیف جسٹس کی ہدائت پر سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کے سیشن ججز ڈسکہ پہنچے اور وکلاء راہنمائوں سے بھی رابطہ کیا مگر گزشتہ روز کے وکلاء کے رد عمل سے لگتا ہے کہ اگر حکومت نے اس معاملے کی تفتیش،قانونی کارروائی اور اپنی ذمہ داریوں میں معمولی سی بھی غفلت کا مظاہرہ کیا تو حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔فاضل چیف جسٹس نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج گوجرانوالہ کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ وکلاء راہنمائوں کے ساتھ رابطہ کر کے ان کوکو لمحہ بہ لمحہ کی رپورٹ دی جائے۔فاضل چیف جسٹس نے ڈسکہ بار کے جنرل سیکرٹری اورسیالکوٹ بار اور گوجرانوالہ بار کے صدور سے رابطہ کیا اور مذکورہ واقعہ سے متعلق معلومات لیں۔ چیف جسٹس نے مسٹر جسٹس سردار طارق مسعود اور مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ کے ہمراہ میو ہسپتال لاہور کا دورہ کیا اور وہاں زیر علاج زخمی وکیل کی عیاد ت بھی کی ۔ انہوں نے ہسپتال کے ایم ایس اور ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں کو ہدایت کی کہ زخمی وکیل کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں اور انکے علاج میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل اعظم نذیر تارڑ، لاہور ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے جنرل سیکرٹری محمد احمد قیوم، سابق صدر ہائی کورٹ بار اصغرعلی گل ،سپریم کورٹ بار کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سابق ممبر علیم بیگ چغتائی اور دیگر وکلاء نے درخواست کی کہ فاضل چیف جسٹس مذکورہ واقعہ کی تحقیقات کو خود مانیٹر کریں۔اس افسوس ناک واقعہ کا سب سے خطرناک پہلو سے ہے کہ خدا نخواستہ اس واقعہ کی تفتیش اور کارروائی دو اداروں کے درمیان محاذ آرائی کی شکل اختیار نہ کر لے۔پولیس کے اعلی زرائع کا کہنا ہے کہ ان کے کے افسروں اور اہلکاروں نے ہمیشہ وکلاء سے مار کھائی۔ڈسکہ کے واقعے میں بھی وکلاء نے پولیس پر تشدد کیا اور ان کو اپنی حفاطت اور سرکاری ڈیوٹی ادا کرنے کیلئے ہر اقدام اٹھانا پڑا جس کی ان کو قانون اجازت دیتا ہے۔وکلاء کبھی بھی اس دلیل کو تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ ان کا موقف ہے کہ زخمی وکلاء نے اپنی آنکھوں سے ایس ایچ او کو وکلاء پر سیدھی فائرنگ کرتے دیکھا۔گزشتہ روز عدالتوں میں پولیس کی بجائے رینجرز کو تعینات کیا گیا۔ جہاں بھی وکلاء اور پولیس کا سامنا ہوا وہان تصادم کا خدشہ ہے۔اگرچہ وکلاء کے وفد کوفاضل چیف جسٹس نے یقین دلایا کہ معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کو یقینی بنایا جائے گا اور واقعے میں ملوث قصور وار افراد کے خلاف قانون کے مطابق سخت کاروائی کی جائے گی۔لیکن اس کے باوجود گذشتہ روز وکلاء کا پنجاب اسمبلی کے سامنے رد عمل قانون کے مطابق اور پرامن نہیں تھا۔حال ہی میں پنجاب بار کونسل نے معمولی واقعات پر کسی بھی طرح کی ہڑتال نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔مگر ڈسکہ میں پیش آنے والا افسوس ناک واقعہ کو فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو وکلاء کی طرف سے ہڑتالوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو سکتا ہے کیونکہ وکلاء کا کہنا ہے کہ ایس ایچ او نے وکلاء کیمیونٹی پر حملہ کیا ہے۔گزشتہ روز ملک بھر میں وکلاء برادری نے جس طرح مکمل ہڑتال کی اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔انتہائی اہم مقدمات میں بھی وکلاء پیش نہیں ہوئے۔تمام بار ایسوسی ایشنز پر سیاہ پرچم لہرائے گئے اور جاں بحق ہونے والے وکلاء کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں وکلاء کے علاوہ سیاسی راہنمائون نے بھی شرکت کی۔قانونی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس کیس کو فوری طور پر حل ہونا چاہئیے ورنہ اس کے تنائج مذکورہ واقعہ سے بھی سنگین ہو سکتے ہیں۔