اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں ) 18ویں اور 21ویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس اعجاز چودھری نے کہا ہے 18 ویں ترمیم میں پارلیمنٹ کی جانب سے ایک سے زائد آرٹیکل میں ترمیم پورے آئین پر نظرثانی کے مترادف ہے جس کا پارلیمنٹ کے پاس مینڈیٹ ہے نہ اختیار۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا پارلیمنٹ نے 18 ویں ترمیم کے حوالے سے جو اختیار استعمال کیا وہ آئینی نہیں۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا آرٹیکل 17 کے سب آرٹیکل 2 کو ختم کر کے سیاسی جماعتوں کو مسلح جتھے قائم کرنے کی اجازت دی گئی‘ سیاسی جماعتوں کی مرضی جو وہ کرتے پھریں انہیں روکنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ اچھے کردار کا حامل صرف مسلمان تو نہیں ہو سکتا اچھا کردار تو کسی غیر مسلم کا بھی ہو سکتا ہے۔ ججز کی نامزدگی کا نیا طریقہ کیا ایلیٹ کلاس کا طریقہ ہے؟ پھر کوئی آمر آگیا اور اس نے سارا آئین اٹھا کر پھینک دیا تو پھر آئین کے حوالے سے دیئے گئے دلائل اور فیصلوں کا کیا ہو گا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا جن کو پانچ سال کے لئے نااہل قرار دے دیا جاتا ہے ممکن ہے وہ اپنے گناہوں اور خامیوں پر نادم ہو جائیں اور پھر اچھے کردار کے ساتھ اسمبلیوں میں آ جائیں اس لئے ان کو 5 سال بعد اہل قرار دیا گیا۔ مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو اے کے ڈوگر نے پچھلے روز کے دلائل کا مختصر خا پیش کیا۔ انہوں نے وکلاء محاذ کیس کا بھی حوالہ دیا اور کہا یہ طے شدہ ہے آئین کی ترمیم کو آئین ساز پاور قرار دیا گیا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا آئین میں اس طرح سے الفاظ کا استعمال نہیں ہوا۔ اے کے ڈوگر نے کہا فضل کریم سابق جج نے کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے بھارتی آئین کے بارے میں بات کی ہے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا اب جب دونوں میں فرق کر رہے ہیں ہمارا تین طرح کا آئین ہے ایک بھٹو نے بنایا ایک آئین ساز اسمبلی نے بنایا تو اب یہ پاور کہاں سے فرق کریں گے۔ اے کے ڈوگر نے کہا آپ پھر ایک اور مارشل لاء کی بات کر رہے ہیں۔ جسٹس سرمد جلال نے کہا کوئی اور آ گیا اور اس نے ہم کو مار کر نیا کچھ بنا دیا تو کیا ہو گا۔ اے کے ڈوگر نے کہا اس ملک میں آئین و قانون بھی اسلامی حیثیت میں برقرار رہے گا۔ اس طرح کی کوشش اب نہیں ہو سکتی۔ جسٹس سرمد جلال نے کہا 56‘ 62 کے بعد 73 کے آئین کی کیا ضرورت تھی اگر 1973 کا آئین ہی بہتر تھا تو پہلے دونوں آئین کو غلط قرار دینا ہو گا۔ اگر کوئی آ گیا انہوں نے سارا کا سارا تبدیل کر دیا تو پھر دلائل رہ جائیں گے۔ جسٹس سرمد نے کہا یہ سب نئے آنے والے پر ہے وہ کیا کرے گا؟ اے کے ڈوگر نے کہا 1998ء میں سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے یہ طے شدہ بات ہے آئین میں دی گئی تمام پرویژنز ایک مقام رکھتی ہیں ان کا ایک جیسا مقام نہیں ہے۔ آرٹیکل 209 کے بارے میں جسٹس اجمل میاں کا معاملہ آیا تھا جو جج صاحب فیڈرل شریعت کورٹ جانے سے انکار کریں گے وہ ہائی کورٹ کے ججز نہیں رہیں گے۔ اس پر سوال اٹھا آرٹیکل 209 کہاں جائے گا آرٹیکل 203 سی اور 209 کا موازنہ کیا گیا تو آرٹیکل 209 کو لے لیا گیا یہ عدلیہ کی آزادی کے قریب ہے اس لئے 209 آرٹیکل برقرار رہے گا اور آرٹیکل 203 سی ساکت رہے گا۔ 18 ویں ترمیم کے بارے میں کہا گیا اس کے ہٹانے کا طریقہ کار صحیح نہیں تھا صحیح طور پر مشاورت نہیں کی گئی ان کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تب بھی کچھ معاملات پر بات ہو سکتی ہے۔ جسٹس اعجاز چودھری نے کہا 18 ویں ترمیم میں ایک آرٹیکل میں ترمیم نہیں کی گئی تمام تر آئین کا رویو کر دیا گیا جس کا پارلیمنٹ کو استحقاق اور اختیار نہیں تھا یہ قانون ساز اسمبلی کا اختیار تھا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا 18 ویں ترمیم کرتے ہوئے آئینی اختیار استعمال کیا گیا جس کا ان کو اختیار نہیں تھا آئینی اختیار اور آئین کے تحت اختیار میں فرق ہے۔ یہ بھی اصلاحات ہیں یہ قانون سازی کا اختیار ہے آئینی اختیار نہیں ہے۔ اے کے ڈوگر نے کہا آئین کے تمام آرٹیکلز مساوی حیثیت رکھتے ہیں جب آئین بنتا ہے تو آئین بنانے کا اختیار جس کو پرائمری اور لامحدود اختیار کا نام دیا گیا آئین بننے کے بعد وہ اختیار ختم ہو گیا عام قانون بنانے اور آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار مختلف چیزیں ہیں۔ اعلیٰ حقوق اور ادنیٰ حقوق کی بھی اصطلاح استعمال کی گئی ہے اعلیٰ حقوق عدلیہ کی آزادی کے قریب ہے انہوں نے 2005ء کے سپریم کورٹ فیصلے کا بھی حوالہ دیا۔ چیف جسٹس نے کہا سب آرٹیکل 4 اصل آئین کا حصہ تھا۔ اے کے ڈوگر نے کہا ہر سیاسی جماعت اپنی جماعت کے اندر انٹرا پارٹی انتخابات کرائے گی اور رہنمائوں کے درمیان انتخابات کرائے گی جس میں آفس بیررز اور پارٹی رہنما بھی شامل ہوں گے۔ یہ بعد میں شامل کیا گیا اور ایل ایف او کا حصہ تھا۔ ہمارے ملک کے سیاستدانوں کے حوالے سے گزارشات کروں گا لوگوں کے ان کے بارے میں خیالات اچھے نہیں ہیں علامہ اقبال بھی ان سے مطمئن نہیں تھے اور جملہ کہا تھا جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاستدان۔ شیطان نے خدا سے کہا میری اب ضرورت نہیں رہی کیونکہ میرے جانشین سیاستدان آ چکے ہیں۔ جسٹس اعجاز چودھری نے کہا آپ ایک طرف تو سیاستدانوں کو سپورٹ کرتے ہیں اور دوسری طرف آپ انہیں شیطان قرار دے رہے ہیں۔ اس پر اے کے ڈوگر نے کہا یہ جملہ صرف مجھے کائونٹر کرنے کے لئے آپ نے بولا ہے۔ سب آرٹیکل ختم کرنا غیر آئینی و غیر قانونی ہے۔ جمہوریت ہمارے ملک کا ایک ستون ہے۔ جسٹس سرمد نے کہا سب آرٹیکل 2 بھی ختم کر دیا گیا یہ بھی ایل ایف او کے تحت ختم کیا گیا۔ اب کوئی پارٹی بھی نفرت پیدا کر سکتی ہے۔ اے کے ڈوگر نے کہا آپ نے صحیح جانب توجہ دلائی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو مسلح جتھے بنانے کی اجازت دے دی گئی۔ جسٹس سرمد نے کہا اب یہ ختم کر کے سیاسی جماعتوں کو ہر طرح کی آزادی دے دی وہ پارٹی انتخابات بھی نہ کرائیں اور جو مرضی کرتے پھریں۔ بنیادی آئینی ڈھانچے کے تو یہ بھی خلاف ہے۔ جسٹس سرمد نے کہا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں سب آرٹیکل 2 کو ختم نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔ اے کے ڈوگر نے کہا سب آرٹیکل 4 کو ختم کرنا غیر آئینی ہے جو جمہوریت کو ختم کرنے کے مترادف ہے سیاسی انصاف بھی بنیادی حقوق میں سے ہے یہ اقدام بنیادی حقوق کے بھی خلاف ہے۔ اب عام لوگ لیڈر نہیں بن سکیں گے۔ جمہوریت ایسا نظام ہے جس میں اتھارٹی کو بدلتے رہنا چاہئے ایک شخص کا ہر وقت صاحب اختیار رہنا خطرناک ہے اور یہ جمہوریت نہیں ہے۔ ایک شخص کو کئی بار وزیراعظم بننے کی اجازت دینا غلط ہے۔ اے کے ڈوگر نے کہا صرف چیف جسٹس کو ہی نامزدگی کا اختیار کیوں۔ سب وکلاء کا یہ بنیادی حق ہے آرٹیکل (3) 192 اے کے تحت وہ وکالت کی پریکٹس کرتے ہیں۔ 10 سال تک وہ ہائی کورٹ کے وکیل بنتے ہیں تب وہ ہائی کورٹ کے ججز بن سکتے ہیں۔ آرٹیکل 175 اے کو اس آرٹیکل کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے، 2 اے کو بھی ملایا جائے۔ جسٹس سرمد نے کہا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں یہ ایلیٹ کلب ہے اور چیف جسٹس اپنی مرضی کا جج نامزد کرتا ہے۔ اے کے ڈوگر نے کہا آربیٹریری نامزدگی بغیر کسی نظام کے انتخاب کی ایک شکل ہے جو غیر قانونی غیر آئینی کے ساتھ غیر اسلامی بھی ہے۔ اے کے ڈوگر نے کہا اسلام پسند ناپسند کے خلاف ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا جج کے تقرر کا اسلام میں کیا طریقہ کار ہے، جسٹس جواد نے کہا روایات سے بھی کوئی چیز اخذ ہو جاتی ہے آپؐ کے خطوط سے بھی مدد لی جا سکتی ہے آداب ثانی بھی دیکھے جا سکتے ہیں شاید اس میں موجود چیزیں نہیں آ سکتی ہیں، وکیل کہاں سے آئے ہیں، اسلام کے مطابق معاملہ قاضی کے روبرو پیش کیا جاتا ہے وہاں وکیل پیش نہیں ہوتے وہ سن کر فیصلہ کر دیتے ہیں یہ نہیں ایک طرف ایک وکیل اور دوسری طرف دوسرا وکیل کھڑا ہو اور دلائل دیئے جائیں۔ جسٹس جواد نے کہا اسلام میں وکیل کی نہیں مفتی کی ضرورت ہے قاضی کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو وہ ان سے مشاورت کر سکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز چودھری نے کہا ججز کو مقرر کرتے ہوئے ذاتی پسند ناپسند کو اپنائے گا تو یہ غلط ہو گا۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل (جمعرات) ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی۔ آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے کیا جج کی تعیناتی امتحانات کے ذریعے ہونی چاہیے، جسٹس اعجاز چوہدری نے ریمارکس دیئے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے کئی آرٹیکلز میں ترامیم ہوئی، پارلیمنٹ نے پورے آئین پر نظرثانی کر دی جس کا اسے اختیار نہیں تھا۔ اے کے ڈوگر نے کہا برطانیہ میں ججز کو گاڑی اور ڈرائیور نہیں ملتا، بھارت میں ہائی کورٹ کے جج کی تنخواہ 18ہزار روپے اور پاکستان میں 10لاکھ روپے ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے اسلامی نظام عدل میں قاضی کو وکیل کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔نمائندہ نوائے وقت کے مطابق دوران سماعت عدالت نے قرار دیا وکلاء کی جانب سے سات سات دن تک گواہوں پر جرح کرنا اسلامی نہیں جرح کرنا ایک جج کا اختیار ہے ایساکرکے وکلاء بھی حدود سے تجاوز کرتے ہیں بادی النظر میں محسوس ہوتا ہے ہم اس نظام کے اسیرہوچکے ہیں ،اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے ہیں کہ اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے،لوگوں کو انصاف کی فراہمی کا عمل تعطل کا شکار ہے اسے پوری طرح فعال ہونا چاہئے۔