"Axact Democracy!"

مَیں تو اردو/ پنجابی میڈیم ہوںاور انگریزی سے میری شُدھ بُدّھ  ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کی حد تک ہے۔ مجھ سے میرے کئی قارئین نے پوچھا اور کہا کہ انگریزی لفظ "Exact"  کے معنی تو ہم جانتے ہیں یعنی ’’سب طرح درُست، بالکل صحیح، ٹھیک ٹھیک، صحتِ کلام پر اصرار کرنے والا‘‘ لیکن یہ "Axact"  کے معنی کیا ہیں‘‘؟ اب مَیں کیا کروں؟ انگریزی کی ڈکشنری مَیں پہلے ہی دیکھ چکاتھا ۔ اُس میں تو نہیں ہے۔ پھر سوچا کہ شاید کوئی اصطلاح ہوگی جو شعیب شیخ نے اپنے "Brain-Pan" سے نکالی ہوگی اور اپنا ’’نورِ بصیرت‘‘  پوری دنیا میں عام کردِیا۔ اِس وقت  "Axact" لفظ "Fraud"  کا نعم البدل سمجھا جانے لگا ہے اور لفظ فراڈ کا مطلب وہ اَن پڑھ لوگ بھی جانتے ہیں جِن کے ساتھ یہ واردات کئی بار ہو چکی ہے۔
آمریت اور جمہوریت کے بارے میں مختلف لوگوں کے مختلف نظریات ہیں لیکن  جو لوگ جمہوریت کے نام سے سیاست کرتے ہیں، وہ جمہوریت کے حق میں ہیں اور وقتاً فوقتاً یقین دلاتے رہتے ہیں کہ ’’بدترین جمہوریت، بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے‘‘۔ لیکن ’’بدترین جمہوریت‘‘ کا کوئی بھی علمبردار سیاسی لیڈر یہ نہیں بتا سکا کہ ’’اسلامی  جمہوریہ پاکستان میں بہترین جمہوریت کا سُورج کب طلوع ہوگا؟‘‘۔ ہو گا بھی یا نہیں؟ علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ…
جمہوریت اِک طرز حکومت ہے کہ جِس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے
علامہ اقبال اگر آج کے دَور میں ہوتے تو دیکھتے کہ بندوں (جمہور) کو تولنے والوں کو اُن کی جسمانی کمزوری کے سِوا کچھ اورہاتھ نہ آتا۔ پاکستان کی تاریخ میں جمہور کے ساتھ (خاص طور پر غریبوں کے ساتھ) سب سے بڑا "Axact" جناب ذوالفقار علی بھٹو نے کِیا۔ اُن کے حق میں ’’انقلاب‘‘ لانے کا وعدہ کر کے  ’’جمہوریت ہماری سیاست ہے‘‘ کا اعلان کر کے جنابِ بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی میں کبھی انتخابات نہیں کرائے۔ نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش میں ’’بڑے ملزم‘‘ کی حیثیت سے گرفتار ہونے سے پہلے  اُنہوں نے اپنی اہلیہ بیگم نُصرت بھٹو کو پارٹی کی چیئرپرسن نامزد کر دیا حالانکہ پارٹی کے دستور میں یہ عہدہ نہیں تھا۔ بعدازاں بیگم صاحبہ نے اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کو شریک پرسن نامزد کر دِیا حالانکہ پارٹی کے دستور میں یہ عہدہ بھی نہیں تھا۔
اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان (جو سب کے سب نامزد تھے)  کا اجلاس طلب کر کے والدہ محترمہ کو برطرف کردِیا۔ خود چیئرپرسن ’’منتخب‘‘ ہوگئیں اور شریک چیئرپرسن کا عہدہ ختم کر دِیا۔ محترمہ بے نظیر جب تک زندہ رہیں انہوں نے اپنے شوہر نامدار کو پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا۔ اُن کے قتل کے بعد اُن کی برآمدہ وَصیت‘‘ کی روشنی میں جنابِ زرداری نے اپنے بیٹے بلاول زرداری کو’’بھٹو‘‘  کا خطاب دے کر پارٹی کا چیئرمین نامزد کردِیا اور خود کو شریک چیئرمین ’’منتخب‘‘ کرا لِیا۔ یہ ’’جمہوریت کے تسلسل کی برکتیں‘‘ تھیں کہ نان گریجویٹ آصف علی زرداری صدرِ پاکستان بنا دئیے گئے اور پاکستان اور پاکستان سے باہر بم پروف محلات کے مالک۔
’’جمہوریت کے تسلسل کی برکتیں میاں نواز شریف اور اُن کے خاندان کے دوسرے لوگوں نے بھی سمیٹیں اور اب بھی سمیٹ رہے ہیں،  جِس طرح جنابِ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے مقدمۂ قتل میں مُدعّی بننا ضروری نہیں سمجھا، اُسی طرح وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اورمسلم لیگ (ن) کا کوئی بھی لیڈر جناب آصف زرداری، اُن کے دونوں سابق وزرائے اعظم سیّد یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف اور دوسرے لیڈروں کے خلاف اربوں روپے کی قومی دولت لوٹنے کے مقدمات کی پیروی میں دلچپسی نہیں رکھتا۔ لوگ حیران ہیں کہ میاں شہباز شریف تو اپنی تقریروں میں یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ’’مَیں قومی دولت لُوٹ کر بیرونی بنکوں میں جمع کرانے والے آصف زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹوں گا‘‘۔
وزیراعظم نواز شریف کے دونوں بیٹے حسن نواز اور حسین نواز سیاست کے بجائے تجارت کرتے ہیں۔ اگر حالات سازگار ہوگئے تووہ بھارت سے تجارت کر کے بھی مُلک کا نام روشن کردیں گے۔ وزیراعظم اپنی صاحبزادی مریم نواز کو مستقبل کی بے نظیر بھٹو بنانے کے خواہشمند ہیں اور اُن کے بھتیجے حمزہ شہباز پنجاب میں "Chief Minister Under Training" ہیں۔ سندھ میں سیّد قائم علی شاہ کی حکومت ہے۔ اُن کی حکومت سات سال میں جتنی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، لُوٹ مار، سرکاری اور غیر سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضے کی جتنی وارداتیں ہوئیں وہ ایک ریکارڈ ہے۔ قائم علی شاہ کویقین ہے کہ اُن کی وزارتِ عُلیّہ کا کوئی بال بھی بانکا نہیں کر سکتا۔ زرداری صاحب اُن کے سرپرست ہیں اور وزیراعظم اور اُن کے خاندان کے لوگ جنابِ زرداری کے ساتھ ہیں ۔  
سندھ کے سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا اور اُن کے بچپن کے دوست آصف زرداری کی مخالفت دشمنی کی حد تک پہنچ چکی ہے۔ مرزا صاحب کو سبق سِکھانے کے لئے سندھ کی پوری سرکاری مشینری جنابِ زرداری اور وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کے حُکم پر وہ سب کچھ کر چکی/ کر رہی ہے جو اِس سے پہلے کبھی نہیں ہُوا۔ سندھ ہائی کورٹ کے احاطہ میں عام اور میڈیا کے لوگوں پر تشدد کرنے والے نقاب پوش کون تھے؟ پولیس ملازمین یا کرائے کے غُنڈے؟  فی الحال بات صاف نہیں ہوئی۔ آئی جی سندھ سمیت چار پولیس افسران کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری ہو چکا ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے آئی جی کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب عدالت پر حملہ ہوا تو آپ سو رہے تھے؟ کیا ہم عدالت کے تحفظ کے لئے فوج بلائیں؟‘‘۔ اب آئی جی سندھ اور اُن کے ساتھیوں کو ’’نقاب پوش حملہ آوروں‘‘ کو بے نقاب کرنا ہوگا اور اگر اُن میں سے کسی نے کسی ’’ اوپر والے کا نام‘‘ بتا دِیا تو؟
پنجاب میں ڈسکہ کے مقام پر ایس ایچ او شہزاد وڑائچ نے بلاجواز دو وکلاء رانا خالد عباس اور شفقت چوہان کو قتل کردِیا۔ اِس کے بعد وکلاء نے جِس پولیس والے کو دیکھا اُس کی دُھلائی کر دی، یہ قدرتی ردِعمل تھا۔ ملزم شہزاد قیصر کو گرفتار کر کے اُس کی جان بچا لی گئی ہے۔ ہائی کورٹ کے حکم سے ڈسکہ میں رینجرز تعینات کر دی گئی ہے۔ دراصل پنجاب پولیس پر کوئی بھی اعتبار نہیں کرتا۔ خود وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی متعدد بار پنجاب پولیس پر عدمِ اعتماد کا اظہار کر چُکے ہیں۔ اگرچہ پنجاب میں وہ حالات نہیں جو کراچی میں ہیں لیکن اگر ڈسکہ کی طرح پولیس گردی کی وارداتیں اسی طرح ہوتی رہیں تو کیا ہوگا؟
کل (26 مئی کو) وکلاء کے قتل پر سوگ منایا گیا۔ وُکلاء نے عدالتوں کا بائیکاٹ کِیا۔ پورے مُلک میں احتجاج ہُوا لیکن مسلم لیگ (ن) کہیں نظر نہیں آئی۔ اپوزیشن جماعتوں میں سے صِرف پاکستان تحریکِ انصاف نے وُکلاء کے قتل کو سنجیدگی سے لِیا ہے۔ شاید پنجاب سے متعلقہ مسائل اِس جماعت کے ہیں۔ اگر سندھ اور پنجاب میں بھی قانون نافذ کرنے کی ذمہ داری کو رینجرز کو ہی سنبھالنا ہے تو کیوں نہ پولیس ملازمین کو ویلڈنگ کا کام سِکھا کر اور اُنہیں تحفے میں ایک ایک لیپ ٹاپ دے کر دبئی بھیج دِیاجائے؟  بھوکے، ننگے اور بے گھر جمہور پر حکومت کرنے کے لئے "Axact Democracy" کب تک جاری رہے گی؟ جب مفلوک الحال لوگ بدترین جمہوریت کو بددُعائیں دیتے ہوئے سڑکوں پر آگئے تو کیا ہوگا؟

ای پیپر دی نیشن