تازہ خبر آئی کہ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی، ایرانی صدر حسن روحانی اور افغان صدر اشرف غنی کے درمیان 23مئی کو ایرانی ساحلی شہر چاہ بہار میں ایک درجن معاہدے طے پائے ہیں جن میں سر فہرست بھارت کا چاہ بہار بندرگاہ پر 50کروڑ ڈالر خرچ کر کے ایران و افغانستان کیساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ بڑھانے کا معاہدہ ہے۔ اگرچہ چاہ بہار پر انڈیا کی ابتدائی سرمایہ کاری صرف 20کروڑ ڈالر ہوگی۔ اس کے علاوہ ثقافتی قربت، سائنس اور ٹیکنالوجی میں تعاون، چاہ بہار سے زاہدان تک ریلوے لائین بچھانے،دہشت گردی، منشیات کی سمگلنگ اورسائبر کرائم وغیرہ کیخلاف ملکر جنگ کرنے پر اتفاق ہوا۔تینوں فریق بہت خوش تھے۔ صدر روحانی نے بھارت کو افغانستان، وسطی ایشیا اور یورپ سے ملانے کے عزم کا اظہار کیا اور ان معاہدوں کو تینوں ملکوں کیلئے ’’بہار‘‘گردانتے ہوئے آئندہ کیلئے 23مئی کو یوم چاہ بہار منانے کا اعلان کر دیا۔ مودی نے دنیا کو جوڑ نے کے عزم کے ساتھ اسے ایک نئے باب کا آغاز اور علاقائی علیحدگی کا اختتام کہا۔اشرف غنی نے اسے ایک تاریخی دن کہا جس کے اثرات کا ما حصل تینوں ملکوں کے درمیان اقتصادی اور ثقافتی تعاون ہوگا۔ انہوں نے اپنی اس ’’کامیابی‘‘ کی شہنائی کچھ اسطرح بجائی کہ علاقے کے لوگ خصوصاً پاکستانی اسے سنے بغیر نہ رہ سکیں۔ اور تاثر اسطرح کا ابھرے کہ ہندوستان ہمارے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے جس میں ہمارے پرانے دوست امریکہ، ایران، افغانستان اور بالواسطہ خلیجی ممالک بھی شامل ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ تو اس نفسیاتی وار کا شکار ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا حقائق کا تجزیہ پیش قارئین ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا ریجن گذشتہ ڈیڑھ عشر ہ سے عالمی سطح پر ہر قسم کی انٹیلی جنس،جنگی، تزویراتی اور نفسیاتی چالیں آزمانے کیلئے میدان کا ر زار بنا رہا ہے اور اب فوکس بحیرئہ عرب کے ساحلوں پر ہے۔ یہاں پر اب جنگ کے چانسز معدوم اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بڑھ رہے ہیں۔صدیوں سے گرم پانیوں کو ترستا روس، افغانستان سے نکلتا اور مشرق وسطی میں قدم جمانے کا متمنی امریکہ، آ گے بڑھتا ہوا چین اور مفت خورہ خادم القدیم ہندوستان،اس خطے میں اپنی رسائی رکھنا چاہتے ہیں۔اپنے اپنے مفادات کے پیچھے ہر ہتھکنڈا آزمایا جا رہا ہے۔دیکھئے اسکی آخری شکل کیا بنتی ہے۔ چاہ بہار معاہدے کی جڑیں ماضی کے ان دنوں تک صاف نظر آتی ہیں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ اسوقت امریکہ براہِ راست تو ایران سے رابطہ نہیں رکھنا چاہتا تھالہٰذا انڈیا کو اس جگہ دونوں ملکوں کیلئے اثر و رسوخ بڑھانے کا ٹاسک دیا گیا۔ثبوت کے طور پربھارتی نیوی کا افسر اور انکی خفیہ ایجنسی ’را‘ کا ناکام جا سوس کلبھوشن یا دیو 2003ء سے وہاں موجود تھا۔اس کے بعد جب 2010ٗء میں امریکی صدر اوبامانے انڈیا کا دورہ کیا اور 10ارب ڈالر انڈین نیوی کیلئے دیئے تو انکا مقصد دنیا پر آشکار ہو گیا۔ اس دوران امریکہ خفیہ طور پر انڈیا کے ذریعے چاہ بہار بندرگاہ کی ڈیویلپمنٹ کیلئے فنڈ مہیا کرتا رہا ہے۔ اس سال 11-12اپریل کو امریکہ کے ڈیفنس سیکرٹری ایشٹن کارٹر اور اسکے انڈین ہم منصب منوہر پاریکر کے درمیان گوّا میں مذاکرات ہوئے جن کے فائنل مودی کے ساتھ 13اپریل کو دہلی میں سر انجام پائے۔سمجھوتے کو ’’لاجسٹک ایکسچینج میمورنڈم آف ایگریمنٹ (LEMOA)‘‘ کہا گیا اور اس میں سب سے اہم نقطہ ئِ اتفاق یہ تھا کہ امریکہ اور بھارت کی فورسز ایک دوسرے کی سہولیات استعمال کر سکیںگی۔جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ امریکہ بھارت کے ہوائی اڈے وغیرہ استعمال کر سکتا ہے۔اگرچہ امریکی فورسز کے انڈین زمین پر اڈے قائم کرنے کے آپشن کو دونوں طرف سے مسترد کرنے کا اعلان کیاگیا۔ دہلی سمجھوتے میں تین شعبوں پر کام کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس سے ان کی سٹریٹیجک پارٹنر شپ آگے موثر ہو سکے۔ 1۔ لاجسٹک سپورٹ۔ 2۔ کمیونیکیشن اینڈ سکیورٹی میمو ایگزیمنٹ (CISMOA)۔ 3۔ بیسک ایکسچینج اینڈ کواپریشن ایگریمنٹ (BECA)۔ چاہ بہار معاہدے اس پس منظر میں تیار ہوئے ہیں۔ان کا اصل محرک چین کو اس سمندر میں اسقدر محدود کرنا ہے کہ امریکہ اور اسکی چھتری تلے ہندوستان کو میری ٹائم سکیورٹی اور فریڈم آف نیویگیشن کا یقین رہے۔دیگر اثرات کچھ اسطرح محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ 1۔ہندوستان، چین اور روس کی اس علاقے میں حساسّیت کو پہچانتے ہوئے بھی امریکہ کے قریب تر ہوتا جا رہا ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ وہ چین اور پاکستان سے تصادم یا روس کی ناراضگی کبھی نہیں چاہے گا۔لہٰذا دفاعی پوزیشن میں رہ کر وہ اپنے اقتصادی عزائم کو بڑھانے کیلئے کوشاںرہے گا۔ 2۔ہندوستان نے ہارٹ آف ایشیا کا نفرنس کے موقع پر ہمارے حسّاس ترین مقامات کے اندر سے گذرنے والی واہگہ تورخم راہداری مانگی تھی جسکا دینا پاکستان کیلئے خودکشی کے برابرتھا۔اگرچہ انڈیا والے اس راہداری کی حسرت لئے کوشش تو جاری رکھیںگے مگر انکا چاہ بہارپر انحصار ہماری طرف سے انکار کو تسلیم کر لینے کے مترادف ہے۔ویسے بھی ان کا ہمارے ملک کے اندر سے راہداری مانگنے کا اصل مقصد ہمیں Strategic Disadvantageپر ڈالنا تھا ورنہ ان کی زمانہ قدیم سے اندسٹری اور تجارت انکے ساحلی علاقوں کے ساتھ ہے۔وہاں سے انکے لئے ایک سمندری جہاز چاہ بہار کی طرف روانہ کرنا،اُسی سامان کو چار سوٹرکوںپر لاد کر پاکستان اور افغانستان کے راستے سنٹرل ایشیا بھیجنے سے کہیں آسان اور سستا رہے گا۔ 3۔امریکہ کیلئے اس خطے میں موجود رہنا اسکی سٹریٹیجک ضرورت ہے۔اس نے عرب علاقوں کیلئے اسرائیل جبکہ سنٹرل اور ساوتھ ایشیا کیلئے ہندوستان کو اپنے فرنٹ مین کا کردار سونپا تھا۔افغانستان میں تو ہندوستان دیئے گئے مِشن کو آگے بڑھانے میں مکمل ناکام ہو چکا ہے جبکہ CPECکے ذریعے چائنا کی اس ریجن میں موجودگی عالمی سطح پر ایک بڑی حقیقت کی حیثیت میں تسلیم کی جاچکی ہے۔اسطرح امریکہ کا ایران اور پاکستان کے ساتھ قدرے نرم روّیہ ایک ضرورت بن کر سامنے آگیا ہے۔ اب صورت حال اسی بات کی متقاضی ہے کہ امریکہ اور ہندوستان اس سمندر میں صرف اپنی میری ٹائم سکیورٹی کا ہی بندوبست کر لیں۔ جس کے لئے چاہ بہار ایک چوکی کی حیثیت رکھتی ہے۔ گوادر سے 100کلومیٹر دور کم گہرائی کے سمندر میں یہ بندرگاہ صرف اتنا ہی رول ادا کر سکتی ہے۔اس کی Capacityکا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انڈیا یہاں کی ڈیویلپمنٹ کا آغاز 20کروڑ ڈالر اور تکمیل صرف نصف بلین ڈالر سے کرنا چاہتا ہے۔ چاہ بہار پورٹ کسی بھی زاویے سے گوادر جیسی گہرے سمندر کی بڑی بندرگاہ کا مقابلہ نہیں کر سکتی ہے اور نہ ہی کسی طرح سے CPECپراثر انداز ہو سکتی ہے۔افغانستان کے ایرانی خشکی اور سمندری راستوں کے ذریعے آنے جانے پر ہمیں قطعاًکوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان کے آپس کے تاریخی طبقاتی تعلقات کوئی اچھے مستقبل کی نشاندہی نہیں کرتے۔البتہ وطن عزیز کا انڈین کی گذر گاہ بننے سے بچ جانا ہمارے لئے اس عالمی سٹریٹیجک چال کا پہلا تحفہ ہے۔
’’چوکی چاہ بہار‘‘
May 27, 2016