پاکستان کی اوسط سالانہ برآمدات میں برابر اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بظاہر تو یہ بہتری خاصی متاثر کن معلوم ہوتی ہے لیکن اس سلسلے میں کسی بھی رجائی پہلو کو برآمداتی قدر و قیمت کی افراط زر کے حوالے سے ہونے والی توسیع کی روشنی میں دیکھنا ہو گا۔ چنانچہ جہاں ایک جانب پاکستان برآمدات کی یونٹ ویلیو میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں اسے پاکستان کی درآمداتی قدر و قیمت کے ساتھ قدم ملا کر چلنا کافی مشکل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ تجارتی خسارہ جو 2005ء کے مالی سال میں چار اعشاریہ ایک پانچ بلین ڈالر تھا ، 2010ء کے مالی سال تک پہنچتے پہنچتے گیارہ اعشاریہ پانچ تین بلین ڈالر تک ہو چکا ہے۔ بالفرض افراط زر کے اثرات کو نظر انداز کر بھی دیا جائے تب بھی پاکستانی معیشت کا برآمداتی تعین بعض دیگر حقائق سے مزید واضح ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی سالانہ اوسط مجموعی قومی پیداوار کو اگر موجودہ قومی پیداوار کی مجموعی قیمت کے تناظر میں دیکھا جائے تو وہ بہت ہی پیچھے ہے۔ مزید برآں پاکستانی مصنوعات کی برآمدات سے ہونے والی آمدنی ہر سال کم سے کم تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کو موجودہ قیمت کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس کی سالانہ مرکب شرح نمو ماضی کی منصوبہ بندی کے ادوار کی اوسط شرح کے عین مطابق ہے۔ (اب ایسے کسی منصوبے کا کوئی وجود نہیں ہے) چنانچہ اوسط سالانہ برآمدات کی شرح نمو بالترتیب بہت ہی کم رہی ہے۔ لہٰذا پاکستانی معیشت کا برآمدات کی حیثیت سے تعین نسبتاً کچھ بہتر تھا، تاہم تیونس، برما، نائیجریا، فلپائن، سری لنکا، مراکش، تنزانیہ، عراق اور ملائیشیا سے اس کا مقابلہ پھر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بیشتر معاملات میں بہر حال یہ مقابلہ دیگر ترقی پذیر ممالک کے حوالے سے بامعنی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ برآمداتی تعین عام طور سے ان ممالک میں بہت زیادہ بلند ہے جن کی معیشتیں غیر معمولی تجارتی نوعیت کی حامل ہیں اور جہاں فصلوں کی بوائی اور تیل و گیس پر انحصار زیادہ سے زیادہ ہے۔ زرعی معیشت: پاکستانی معدنی ذرائع مثال کے طور پر تیل، گیس ، تانبا اور نسبتاً کم مقدار میں موجود سونے کے ذخائر کو ابھی دریافت ہی نہیں کیا گیا۔ بہر کیف حالات جو بھی رہے ہوں پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی معیشت کا حامل ملک ہے۔ ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان و بھارت کے قیام سے قبل آج جن علاقوں پر پاکستان مشتمل ہے وہ اس دور کے ہندوستان کی اناج کی تمام تر ضروریات کو پورا کیا کرتے تھے۔ اب بھی جب فصلوں کو سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں سنگین نقصان پہنچا ہے، پاکستان اس قابل ہے کہ چاول اور گندم برآمد کر سکے۔ کپاس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور ان قیمتوں کو گندم اور چاول کی قیمتوں سے ملا کر بھی جن میں قیمتوں کے عالمی حیاء نے اہم کردار ادا کیا ہے، پاکستان کی زرعی معیشت تمام تر دیہی علاقوں کی ضرورت کو پورا کر رہی ہے۔ ایسی صورت حال پہلے کبھی نظر نہیں آئی۔ پاکستان کی اہم برآمدات ٹیکسٹائل، چاول، چمڑے سے بنی اشیائ، اسپورٹس کے سامان، کیمیکلز اور قالینوں پر مشتمل ہیں چنانچہ پاکستانی برآمدات سے ہونے والی پچاس فیصد آمدنی اب بھی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمد سے حاصل کی جاتی ہے جن میں دھاگے کو بہر حال اولیت حاصل ہے اگر پاکستان صحیح طریقے سے صرف اپنی زراعت پر ہی بھرپور توجہ دے تو وہ اپنی درآمدتی میں دھاگے کو بہر حال اولیت حاصل ہے اگر پاکستان صحیح طریقے سے صرف اپنی زراعت پر ہی بھرپور توجہ دے تو وہ اپنی درآمداتی معیشت کو برآمداتی معیشت سے بدل سکتا ہے۔ موجودہ سال کے دوران پاکستانی برآمدات پچیس بلین ڈالر تک ہونے کی توقع ہے لیکن دوسری جانب ہماری درآمدات ان برآمدات کو پیچھے بھی چھوڑ جائیں گی اور اس سال کے آخر تک ان کا تخمینہ پینتیس بلین ڈالر تک متوقع ہے۔ بہر صورت مالی سال 2010ء میں جولائی تا دسمبر ہونے والا مالی خسارہ یعنی چھ اعشاریہ آٹھ نو پانچ بلین ڈالر بھی کوئی قائم فخر رقم ہرگز نہیں ہے۔ یہ صورت حال کانوں کی دریافت اور زرعی پیداوار بڑھا کر برآمدات کے ذریعے تبدیل کی جا سکتی ہے۔
مصنوعات کی برآمد: دوسری طرف اشیاء کی برآمد سے ہونے والی آمدنی اس وقت تک حاصل کرنا ناممکن ہو گا جب تک مصنوعات تیار کرنے والی صنعتوں کی بہتر کارکردگی ، اس حقیقت کے باوجود سامنے نہیں آتی کہ جو مصنوعات برآمد کی جا رہی ہیں ان کی اوسط سالانہ قیمتوں میں برابر کمی واقع ہو رہی ہے۔ بہر نوع ماضی کی منصوبہ بندی کے بعد سے برآمدات کی مقدار میں کمی اور درآمدات کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ بھی برابر بڑھتا جا رہا ہے جس کے باعث افراط زر کی شرح پندرہ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ نجی شعبہ ہمیشہ فنڈز کا بھوکا رہا ہے جب کہ پبلک شعبہ قرضوں پر انحصار کرتا چلا آ رہا ہے۔ قرضوں کی یہ رقم اب چار ہزار نو سو اٹھاون اشاریہ آٹھ بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے جو نجی شعبے کے مقابلے میں ایک ایسی سطح کہی جا سکتی ہے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ جس نے اب تک صرف دو ہزار پانچ سو چھیاسٹھ اعشاریہ صفر تین بلین روپوں کے قرضے ہی حاصل کئے ہیں جن کو شامل کر کے پاکستان کا مجموعی قرضہ دس ہزار سات سو پینتالیس، اعشاریہ ایک بلین روپے ہوتا ہے یہ صورت کسی بھی معیشت کے لئے ہر گز پسندیدہ نہیں ہو سکتی۔ ایسی صورت حال کے پیش نظر غالباً صرف یہی ایک راستہ باقی رہ جاتا ہے کہ غیر ملکی امداد، قرضہ جات اور کریڈٹ کارڈ پر انحصار کرنے میں مجبوراً اضافہ کر دیا جائے جو معیشت کی ابتری کی حقیقی وجہ کہی جا سکتی ہے۔ غیر ملکی قرضے اور کریڈٹ درحقیقت ترقی یافتہ ملکوں کی معیشت کے لئے نسبتاً زیادہ مددگار ہوتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کی معیشت کے لئے نسبتاً کم سود مند ہوتے ہیں۔ مشینری، خام مال کی بڑے پیمانے پر درآمدات، قرضے لینے والے ممالک کو مقامی سرمایہ کاری، پیداوار اور برآمدات سے محروم کر دیتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقی پذیر ممالک، بے روزگاری اور غربت و افلاس کا شکار ہو جاتے ہیں جن کا سامنا دنیاکے ان ترقی پذیر ممالک کو بالعموم کرنا پڑتا ہے چنانچہ ترقی پذیر ممالک کے لئے ان مسائل کا حل تعلیم، صحت اور سماجی معاشی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر انحصار کرنے میں مضمر ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں کے لئے تو یہ اور بھی ضروری ہے۔ اسی طرح کے رویوں سے حقیقی قدر و قیمت میں اضافہ ہو گا جو ترقی یافتہ ملکوں سے نام نہاد امداد ، قرضہ جات اور کریڈٹس کی وصولی سے کبھی ممکن نہیں ہو سکتی۔ جب تک اس نوعیت کے انسدادی اقدامات نہیں کئے جاتے اس وقت تک امیروں اور غریبوں کے درمیان واقع خلیج مزید وسیع ہوتی چلی جائے گی۔ ترقی پذیر ممالک اور پاکستان بالخصوص اس خاص صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کرے اور جتنا جلد اتنا ہی بہتر کے مصداق اس طریقے پر عمل کرے۔ جوبرآمدات اور خود انحصار سے عبارت ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں سے جو امداد ہمیں ملتی ہے انہوں نے بھی اس بات پر اصرار کرنا شروع کر دیا ہے کہ امداد وصول کرنے والے ان ترقی پذیر ممالک کو اپنے ہی ذرائع اور وسائل پر انحصار کرنا چاہئیے۔ معاشرتی ، سیاسی اور معاشی ہم آہنگی: یہ ہم آہنگی منحصر ہو سکتی تھی ترقیاتی فنانس اداروں مثلاً PICICاور IDBPجیسے اداروں کے تعاون پر۔ جو طویل معیاد ترقیاتی فنانس فراہم کر تے تھے لیکن اب ان میں سے کوئی بھی ادارہ موجود نہیں اور ملک کے کمرشل بنکوں نے یہ کام شروع کردیا ہے تاہم یہ بنک مناسب طریقوں سے یہ کام نہیں کر رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو کمرشل بنکوں کا یہ کام بھی نہیں ہے۔ بہرکیف وہ نہ صرف ترقیاتی مقاصد کے لئے فنانس فراہم کرتے ہیں بلکہ نان کمرشل بنکنگ کے تمام امور جن میں سرمایہ کاری، بنکنگ، لیزنگ، ایسٹ مینجمنٹ، میوچل فنڈز سب ہی کچھ شامل ہے۔ یہ سب کچھ کمرشل بنکنگ کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ جلد ہی یہ بے قاعدگی دور کر دی جائے تو برآمداتی معیشت کے لئے اتنا ہی بہتر ہو گا۔ بالخصوص اس کے نتیجے میں ملک معاشرتی، سیاسی اور معاشی ترقی سے ہم کنار ہو سکے گا۔ ایک فوری حل: فوری طور پر اس کا یہی ایک حل موجود ہے کہ بیرون ملک سے ترسیل زر کی سہولت مہیا کی جائے، جو فی الوقت ایک بلین ڈالر ماہانہ تک پہنچ چکی ہے۔ زیر زمین معیشت پر ستاون فیصد ٹیکس نافذ کیا جائے۔ ایف بی آر کی ہدایات کے بموجب انڈرانوائسنگ اور ٹیکس کی نادہندگی کو (اگر اسمگلنگ کو نہ روکا جاسکے) روکا جائے۔ عالمی بینک کی حالیہ رپورٹس کے مطابق پاکستانی خزانہ ہر سال پانچ سو بلین امریکی ڈالروں سے محروم ہو رہا ہے۔ یہ رقم اس امداد، قرضہ جات اور کریڈٹس کے مساوی ہے جو انتہائی بلند قیمت پر ہماری معیشت کو فراہم کی جاتی رہی ہے۔ زیر زمین معیشت پر ٹیکس کا نفاذ سرمایہ کاری، پیداوار اور برآمدات کیلئے سودمند ثابت ہو گا۔ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور ہر شخص کو روٹی، کپڑا اور مکان مل پائے گا جس کا وعدہ نہ معلوم کب سے اس ملک کے عوام سے کیا جاتا رہا ہے۔ گلوبلائزیشن سے ہمیں ہر گز کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ یہ عالمی مفادات کی تکمیل کرتا ہے اس طرح ہم ترقی یافتہ ممالک تک اپنی رسائی کو میرٹ کی بنیا د پر یقینی بنا سکیں گے۔
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
پاکستانی برآمدات
May 27, 2016