یہ فاقہ کش جو ڈرتا نہیں موت سے

May 27, 2016

امتیاز احمد تارڑ

کوہساروں کی آغوش میں پلنے والے امیر نے بالآخر مٹی کی چادر اوڑھ لی ہے۔ ملا منصور کا جانشین ملا ہیبت اللہ بھی اپنے پیش رو کے راستے پر چلتا ہوا مٹی کی چادر اوڑھ لے گا۔ کیا شہنشاہ عالم نے امن انصاف اور عافیت کے لئے بھی کچھ کردار ادا کرنا ہے یا دنیا کو آگ و خون میں دھکیلنے کا تماشا ہی جاری رکھنا ہے۔ بلوچستان میں ڈرون حملے پر وزیراعظم پاکستان نے دبے لفظوں میں احتجاج کیا ہے لیکن نقار خانے میں ان کی سننے والا کوئی نہیں۔ حقیقتاً اگر ہم نے افغانستان میں قدم قدم پر بننے والی مقتل گاہوں پر صدائے احتجاج اور قلعہ جنگی میں جانوروں کے چارے کی طرح کٹتے لوگوں کے اعضا پر خاموشی اختیار نہ کی ہوتی تو آج بلوچستان کے ڈرون پر احتجاج بھی کسی کھاتے میں آتا، تمام تر وفاکیشی اور کمال درجے کی شہنشاہ عالم کی اطاعت گزاری کے باوجود ہم دشت تنہائی میں بے یارومددگار کھڑے ہیں۔ہم نے معصوم بچوں کے پرخچے اڑتے دیکھ کر کہا ہمارا گھر تو محفوظ ہے اس لئے ہمیں احتجاج کی ضرورت نہیں۔ طالبان نے ماضی کی نسبت اس بار اپنا امیر جلد چن لیا ہے۔ امریکہ نے ملا منصور کو ڈرون میں مار کر طالبان قیادت میں اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی جسے طالبان قیادت نے ناکام بنا دیا ہے۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے ملا اختر منصور کو مذاکرات کا مخالف ہونے کی وجہ سے قتل کیا حالانکہ اسے اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ کوہساروں کی آغوش میں پلنے والا ملا ہیبت اللہ مذاکرات کے بارے میں ملا منصور سے بھی سخت ہے۔ 

طالبان انہیں استاد مانتے ہیں امریکہ ابھی تک طالبان کی کسی قوت کا اندازہ ہی نہیں لگا یا۔طالبان کی اصل قوت ان کے کشادہ سینوں میں روح محمد کا ہونا ہے۔ جب تک افغانیوں کے بدن سے روح محمد نہیں نکلتی تب تک وہ امریکہ کے لئے دردسر بنے رہیں گے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق طالبان کے چاروں گروپوں نے ملا ہیبت اللہ کو امیر تسلیم کر لیا ہے جبکہ ملاعمر کے بیٹے ملا یعقوب نائب امیر اور فیلڈ کمانڈر اور ملا عمر کے معتمد خاص ملا عبدالقیوم ذاکر بھی فیلڈ کمانڈر ہیں۔ سراج الدین حقانی پہلے ہی ان کے شیڈو منسٹر دفاع ہیںوہ اب بھی کوہساروں کے دامنوں میں اتر کر طالبان کو جہاد باالسیف کے لئے تیار کریں گے۔ سراج الدین حقانی کا امیر نہ بننے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے بھائی انس حقانی افغان حکومت کی قید میں ہیں جنہیں پھانسی لگانے کے لئے اشرف غنی حکومت پر تول رہی ہے۔سراج الدین حقانی کو پہلے بھی پیشکش کی گئی تھی کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی ٹیبل پر لاتے ہیں تو ان کے بھائی کو رہا کردیا جائے گا۔ اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ کسی طرح بھی اہم عہدے پر آ کر کوئی ایسی پالیسی اختیار کر لیں جس کے باعث تحریک کو نقصان پہنچے۔ اس لئے انہوں نے بلیک میلنگ سے بچنے کے لئے اس اہم عہدہ پر تعیناتی مسترد کر دی ہے۔ گو اس وقت عسکری کارروائیاں پہلے سے تیز کر دینے میں حقانی کا بڑا کردار ہوگا، سراج الدین حقانی اگر طالبان کے امیر بن جاتے تو عرب ممالک میں اپنی اچھی شہرت اور تعلقات سے فائدہ اٹھا کر مالی طور پر تحریک طالبان کو مضبوط کر سکتے تھے۔ امریکہ نومبر 2015 میں ملا اختر منصور کی روسی صدر پیوٹن سے ہونے والی مبینہ ملاقات پر بھی ناراض تھا۔ روسی صدر نے ہی ملا منصور کو ایران سے تعلقات بہتر کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن ملا منصور ایرانی قوم سے دھوکہ کھا گئے۔ گو کہ ملا منصور کے ایران، عراق اور شام میں بعض بزرگوں سے اچھے مراسم تھے اور انہوں نے انہی مراسم کی بنا پر ان ممالک سے تعلقات کو بہتر رکھا ہوا تھا۔لیکن انھیں کیا علم تھا کہ اس دنیا میں ہر کوئی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سب کچھ کر سکتا ہے ۔ افغان طالبان نے ایران کے ساتھ اس لحاظ سے اچھے مراسم رکھے ہوئے تھے کہ وہ شمالی اتحاد کی حمایت نہیں کرے گا لیکن ایران نے ملا منصور کی حرکات کی اطلاع دے کر اپنے لیے مسائل پیدا کر لیے ہیں طالبان جہاں دیگر ممالک سے اپنے امیر کی موت کا بدلہ لیں گے وہی پہ وہ ایران کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے خطے میں اس کے لیے مشکلات پیدا کریں گے۔

مزیدخبریں