اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے ٹی او آر پارلیمانی کمیٹی کے پہلے اجلاس میں اپوزیشن ارکان انکوائری کیلئے ٹی او آر سے وزیراعظم محمد نواز شریف کا نام نکالنے کے لئے تیار ہوگئے تاہم ان کے خاندان کا احتساب کیا جائے گا۔ اپوزیشن شریف فیملی کو سعودی عرب سے ملنے والے تحائف کا حساب نہ مانگنے پر راضی ہو گئی ہے۔ اپوزیشن 15نکاتی ٹی او آر میں سے 2 نکات سے دستبردار ہو گئی۔ کمیٹی کے ارکان کے درمیان 4 نکاتی ابتدائیہ پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ اپوزیشن وزیراعظم کے سعودی عرب میں کاروبار اور مراعات سے متعلق معاملات پر سوالات اٹھانے سے بھی دستبرار ہو گئی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کا دوسرا اجلاس آج گیارہ بجے ہو گا۔ اپوزیشن نے پارلیمانی کمیٹی سے ساتویں اضافی ممبر وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد کو نکالنے کا مطالبہ کر دیا ہے، حکومت کا اصرار ہے کہ ان کی حیثیت بلحاظ عہدہ ہے وہ ووٹ نہیں دے سکتے۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا وہ اور خواجہ آصف کمیٹی کا ماحول خوشگوار رکھنے کے لئے شامل ہوئے وہ کمیٹی میں’’خوشبو ‘‘کا کام کررہے ہیں۔ ابھی تک کمیٹی میں کوئی ڈیڈ لاک نہیں معاملات ابہام کی بجائے اتفاق رائے سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ اجلاس میں اپوزیشن اس بات پر اصرار کر رہی ہے چونکہ چیف جسٹس حکومت کے ٹی او آر کو مسترد کر چکے ہیں اس لئے اب ان پر بات نہیں ہوگی‘ پانامہ پیپرز میں جس جس کا نام آیا ہے اس کا احتساب کیا جانا چاہئے‘ اجلاس میں اسحق ڈار، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، انوشہ رحمان، اکرم درانی اور میر حاصل بزنجو ، سینٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن، شاہ محمود قریشی، صاحبزادہ طارق اللہ، طارق بشیر چیمہ، الیاس بلور اور بیرسٹر سیف نے شرکت کی۔ اجلاس کے آغاز میں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق شریک ہوئے اجلاس کی باضابطہ طور کارروائی کا آغاز ہونے پر وہ اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔ حکومتی ارکان نے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن نے15میں سے 2نکات واپس لے لئے ہیں‘ چار نکاتی ابتدائیہ پر اتفاق ہوچکا ہے‘ کمشن کے ٹی او آر اتفاق رائے سے بنائے جائیں گے‘ سپریم کورٹ نے حکومت کے ٹی او آر مسترد نہیں کئے‘ جس کی بھی آف شور کمپنی ہو گی اس کا نام آئے گا‘ جو بھی قانون توڑنے میں شامل ہوگا اس کی گرفت ہونی چاہیے۔ اجلاس کے آغاز پر اپوزیشن نے حکومتی ٹی او آر پر اعتراض کرتے ہوئے اور کہا کہ انہیں چیف جسٹس مسترد کر چکے ہیں ان کو زیر غور نہیں لایا جاسکتا۔ اعتزاز احسن نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اسحقٰ ڈار کی کچھ باتوں کے حوالے سے غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے ٹی او آر کے ڈرافٹ کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے۔ دوسرا مرحلہ آج ہوگا کھلے دل اور ذہن کے ساتھ کمیٹی کی کارروائی میں حصہ لے رہے ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں چار نکاتی ابتدائیہ پر اتفاق ہوا ہے ہمارے پندرہ میں سے تیرہ نکات بہت اہم ہیں۔ دو نکات اور سوالات واپس لے لئے۔ حکومت کے ٹی او آر سپریم کورٹ مسترد کرچکی ہے اب ان پر بحث کی ضرورت نہیں۔ پانامہ لیکس پر جس کا بھی نام آیا ہے احتساب ہونا چاہئے۔ چیف جسٹس نے درست کہا کہ حکومت کے ٹی او آر سے معاملہ بہت طویل ہو جائے گا۔ اجلاس میں جہاں حکومت سے اتفاق رائے ہوا وہاں اختلاف رائے بھی ہے۔ حکومتی ٹیم کو اپنے ٹی او آر پر اصرار کرنا درست نہیں۔ پانامہ لیکس کے معاملے پر قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔ وزیراعظم کا نام نکالنے پر رضامند ہیں لیکن ان کے خاندان کا احتساب ہونا چاہئے۔ وزیراعظم یہاں جلسے اور لندن میں شاپنگ کرتے ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ وزیر قانون پارلیمانی کمیٹی میں بلحاظ عہدہ رکن شامل ہیں۔ اگر اپوزیشن جماعتوں کو7ویں رکن پر اعتراض ہے تو اس پر غور کیا جا سکتا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ساتویں رکن کی گنجائش نہیں۔ اپوزیشن ارکان نے حکومتی ٹی او آر پر اعتراضات کئے اور موقف اختیار کیا کہ جو ٹی او آر حکومت مسترد کرچکی ہے اس پر بحث نہیں ہوسکتی، اجلاس کے بعد اسحقٰ ڈار نے کہا کہ تمہیدی امور پر اتفاق ہوگیا ہے۔ ٹی او آر پر مزید مشاورت جاری ہے۔ آج سے باضابطہ مذاکرات شروع ہوں گے ۔ ابتدائی کام مکمل ہوچکا ہے میرے خیال میں ہمارے ٹی او آر جامع ہیں لیکن اپوزیشن کو ان پر اعتراض ہے مکمل اتفاق رائے سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت نے ہمارا موقف تسلیم کرلیا ہے کمیٹی سے اضافی حکومتی ممبر نکالنے پر رضامند ہوگئی ہے۔ وزیر اعظم کی واپسی پر فیصلہ کیا جائے گا کہ کونسا ممبر نکالنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا مقصد معاملے کو نیک نیتی سے آگے بڑھانا ہے ہمیں حکومتی ٹی او آرز پر اعتراضات تھے وہ پیش کئے حکومت کو بھی جن ٹی او آر پر اعتراض ہیں وہ سامنے رکھیں ہم تحقیقات کو نتیجہ خیز بنانا چاہتے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ حکومت ہو یا اپوزیشن کوئی بھی بات چیت کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ دونوں کے پاس بات چیت کے علاوہ کوئی حل نہیں ہم کوشش کررہے ہیں کہ ٹی او آر اتفاق رائے سے بنائیں امید ہے کہ اس مقصد میں کامیاب بھی ہوجائیں گے۔ ابھی تک جتنا بھی کام ہوا ہے اچھے ماحول میں ہوا ہے حکومت اور اپوزیشن نے ایک دوسرے سے دلائل سے بات کی ہے۔ دونوں فریقین ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں نکتہ وہی مانا جائے گا جو قانون کے مطابق ہوگا دوسرے مرحلے میں اپوزیشن کے پندرہ ٹی او آرز کا جائزہ لیا جائے گا جو ماننے والے ہونگے ان کو مانیں گے جن میں اختلاف ہوگا ان میں مزید پوائنٹس شامل کریں گے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ قانون کی پاسداری ہونی چاہئے کسی نے قانون توڑا تو اس کی پکڑ ہونی چاہئے۔ حکومتی ٹی او آر کو سپریم کورٹ نے مسترد کیا نہ ہی اس پر کوئی رولنگ یا فیصلہ دیا صرف رائے دی۔ حکومت ٹی او آر میں تبدیلی کیلئے پہلے بھی تیار تھی اب بھی تیار ہے جب آف شور کمپنیوں کی بات ہوگی تو سب کا نام آئے گا۔ اپوزیشن اور حکومتی ارکان میں یہ ہم آہنگی ہے کہ انصاف اور قانون کے تقاضے پورے کئے جائیں گے۔ صباح نیوز کے مطابق حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تحقیقات کے ضابطہ کار کے ابتدائیہ پر اتفاق ہو گیا۔ اپوزیشن وزیراعظم کا نام نکالنے ان کے سعودی عرب میں کاروبار اور مراعات لینے سے متعلق معاملات پر سوالات اٹھانے سے دستبردار ہو گئی ہے۔ ضابطہ کار پر اختلافات برقرار ہیں۔ اپوزیشن نے واضح کر دیا ہے کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کا آغاز وزیر اعظم کے خاندان سے ہونا چاہیے اولاد کے ساتھ والد کا نام بھی آجائے گا حکومت اپنے ٹی او آرز پر اصرار نہ کرے کیونکہ عدالت عظمی ان کو مسترد کر چکی ہے تحقیقات کے وسیع تر معاملات سے لاکھوں ، کروڑوں نام آئیں گے پانامہ پیپرز تحقیقات کی بنیاد ہیں اس سے آغاز ہونا چاہیے ان خیالات کا اظہار اعتزاز احسن، شاہ محمود قریشی، صاحبزادہ طارق اللہ ، سینیٹر الیاس احمد بلور اور کمیٹی میں اپوزیشن کے دیگر نمائندوں نے پارلیمانی کمیٹی کے ان کیمرہ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ اسحاق ڈار نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے اگلے اجلاس میں ٹی او آر پر بات کریں گے۔ چیف جسٹس نے کمشن کو ٹوتھ لیس کہا اس پر بات کریں گے۔
پانامہ لیکس‘ اپوزیشن وزیراعظم کا نام ٹی او آر سے نکالنے‘ شریف فیملی کو سعودی تحائف کا حساب نہ مانگنے پر تیار
May 27, 2016