یوم تکبیر … اک جراتمندانہ فیصلہ

May 27, 2017

قوموں کی زندگی میں بعض لمحات اتنے منفرد، اہم اور تاریخی ہوتے ہیں کہ ان لمحوں کی اہمیت اور حیثیت کا مقابلہ کئی صدیاں بھی مل کر نہیں کر سکتیں، یہ منفرد و قیمتی لمحات دراصل تاریخ کا وہ حساس موڑ ہوتے ہیں جہاں کوئی قوم اپنے لیے عزت و وقار اور غرور و تمکنت یا ذلت و رسوائی اور غلامی و محکومی میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کرتی ہیں۔ بزدل، ڈرپوک، ابن الوقت اور غلام ذہنیت کے لوگ ان تاریخ ساز لمحوں کی قدر و قیمت نہیں جانتے اور نہ ہی ان کے دل و دماغ کسی چیلنج کو قبول کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں، نتیجتاً ایسی اقوام شاہرہ حیات پر دوسری اقوام سے پیچھے رہ جاتی ہیں اور پھر ان اقوام کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب یہ قومیں ماضی کی گرد میں کھو کر قصہ پارینہ بن کر تاریخ کی بوسیدہ کتابوں کا حصہ بن جاتی ہیں۔ لیکن اس کے برعکس جرات مند اور بہادر لوگ تاریخ کے ان نازک لمحات میں ہوش مندی اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے ایسے تاریخی فیصلے کرتے ہیں جو قومی زندگی کی بقاء استحکام اور تحفظ کے لیے لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ چودہ اگست 1947 کی یوم آزادی کے بعد 28 مئی 1998 کا دن پاکستان کی تاریخ کا وہ تاریخ ساز لمحہ ہے، جس کے احساس تفاخر نے پوری قوم اور عالم اسلام کے مسلمانوں کا سر فخر اور خوشی سے بلند کر دیا، 28 مئی ’’ یوم تکبیر ‘‘ پاکستان کی تاریخ کا وہ دن ہے جس دن پاکستان نے بلوچستان کے مقام ’’ چاغی‘‘ کے پہاڑی سلسلے ’’ راس کوہ ‘‘ زیر زمین پانچ ایٹمی دھماکے کر کے عالم اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتیوں ایٹمی قوت ہونے کا اعزاز حاصل کیا اور 11 مئی 1998 کو پکھران میں 3 اور 13 مـئی کو 2 ایٹمی دھماکوں کے بھارتی ایٹمی ایڈونچر کا دندان شکن جواب دے کر جنوب مشرقی ایشیاء میں ہندو بنیئے کے وسیع پسندانہ عزائم اور خطے میں جوہری بالا دستی کے بھارتی منصوبے کو بھی خاک میں ملا دیا، انڈیا کے نیوکلیئر ٹیسٹ کرنا اس بات کا واضح اعلان تھا کہ خطے میں اپنی مکمل اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے اور اب طاقت کا توازن ان کے حق میں ہو چکا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر پاکستان کے عوام عدم تحفظ کا شکار تھے۔ ایک بے چینی کی لہر دل میں دوڑ رہی تھی۔ پاکستان کو اس مقام پر ایسی دلیرانہ قیادت کی ضرورت تھی جو تمام تر دبائو کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کی سالمیت ، ہمیت اور وقار کو بلند کرنے کے لیے مشکل فیصلہ کرے۔ پاکستان تاریخ کے دوراہے پر ایک بار پھر کھڑا تھا اس کی سالمیت کے لیے ایک بار پھر مشکل فیصلہ کرنے کی گھڑی آن پہنچی۔ اس مقام پر ملک کی قیادت کا امتحان تھا۔ اس وقت آزمائش کی گھڑی میں تمام تر دبائو کا سامنا کرتے ہوئے راستہ چننا تھا جو کل ملک کے وقار اور اس کی سالمیت کا ضامن ہو۔ پاکستان کی اس وقت کی قیادت محمد نواز شریف کے پاس تھی ان پربے انتہادبائو ڈالا گیا ۔ حتی کہ پاکستان پر اقتصادی پابندیوں کی دھمکیاں دی گئی۔ دنیا کی سپر پاورامریکہ کی طرف سے بے پناہ دبائو ڈالا گیامغربی حکومتوں کی طرف سے ان کو واضح طور پر پیغام دیا گیا کہ ایٹمی دھماکوں کی صورت میں پاکستان کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ پاکستانی قیادت کے پاس آسان راستہ تو یہ تھا کہ عالمی دبائو کو قبول کر کے وقتی طور کچھ فوائد حاصل کر لیتے۔ یہ طاغوتی قوتیں کیوں بھول جاتی ہیں کہ قریش مکہ نے بھی حضور پاک ؐ سے ایک وقت سوشل بائیکاٹ کیا تھا۔ شعب ابی طالبؑ میں نبی اکرمؐ کے ساتھی تین سال تک محصور رہے جہاں انہوں نے درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کیا اور دشمن کو واضح پیغام دیا کہ دشمن کی اقتصادی دھمکیاں اور اوچھے ہتھکنڈے ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ پاکستان کی قیادت نے بھی ان دھمکیوں سے مرعوب نہ ہوئے۔ جس کے نتیجے میں مـغربی طاقتیں ناراض تو ہوئیں ، پاکستان کو وقتی طور پر دھچکا تو لگا لیکن پاکستان کا دفاع ہمشہ کے لیے محفوظ ہو گیا۔
نگاہ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں …… جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
اس وقت کے وزیر اعظم نے دشمن کے آگے ہتھیار نہ ڈالے اور چاغی کی وادی میں نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے دشمن کو واضح اشارہ دے دیا کہ یہ قوم دشمن کی طرف سے کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے اور پاکستان کوئی تر نوالہ نہیں بلکہ غیرت مند اور جرات مند لوگوں پر مشتمل ایک ملک ہے۔ اور نواز شریف نے اپنے فیصلہ سے بتا دیا کہ :
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت سے خندہ زن …… پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی طاغوتی قوت نے مسلمانوں کو للکارا تو اینٹ کا جواب پتھر سے ملا۔ جنگ خندق میں عمرو کو اپنی بہادری اور طاقت پر بڑا ناز تھا مسلمانوں کو للکار رہا تھا کہ کسی میں جرات ہے کہ میرا مقابلہ کرے۔ عرب کی تاریخ کہتی کہ عمرو اکیلا ایک ہزار آدمی سے لڑسکتا تھا لیکن اللہ کے شیر مولائے علی ؑ نے ایک ہی وار سے اس کا غرور خاک میں ملا دیا۔ خیبر کے میدان میں بھی مرہب نے اپنی قوت کے گھمنڈ میں مسلمان کو للکارا تھا تو مولائے علیؑ نے ایک ہی وار میں مرہب کے دو ٹکڑے کر کے اور خیبر کا بھاری دروازہ ہوا میں اڑا کر مسلمان کی طاقت بتا دی تھی۔
اس تاریخ ساز موقع پر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ( جو تاریخ ساز کامیابی پر خوشی سے بار بار اللہ کا شکر ادا کرتے رہے) نے عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے قوم سے اپنے خطاب میںکہا کہ ’’ الحمداللہ ہم نے گذشتہ دنوں کے بھارتی ایٹمی دھماکوں کا حساب 6 کامیاب ایٹمی دھماکوں سے چکا دیا ہے اب ہم پر کوئی دشمن شب خون مارنے کی جرات نہیں کر سکے گا، کامیاب ایٹمی دھماکوں سے پاکستان کو دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بننے کا اعزاز حاصل ہو گیا اور ایٹمی تجربات نے ملت اسلامیہ پر پانچ صدیوں سے طاری جمود توڑ کر اس کا خواب خرگوش سے بیدار کر دیا، انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ایٹم بم ملت اسلامیہ کی نہ صرف بلکہ اس کی اتحاد کی علامت بھی ہے جو عہد رفتہ کی عظمت کو واپس لانے کا پیش خیمہ ثابت ہو گا‘‘ ۔ پاکستان کی قیادت کل بھی ملک کے دفاع کے لیے ایک مضبوط ڈھال کی طرح کھڑی تھی اور آج بھی پاکستان کا دفاع اس کو اقتصادی ترقی دے کر کر رہی ہے ۔ یہ سڑکو ں کا جال، سی پیک کا منصوبہ، اقتصادی بحالی، روز گار کی فراہمی، تونائی کے منصوبے، دہشت گردی کا خاتمہ ہی دراصل ملک کا دفاع ہے۔ جو قومیں اندرونی طور پر مضبوط ہوتی ہیں بزدل دشمن ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

مزیدخبریں