لاہوری شعراء گوجرانوالہ میں

چند یوم قبل پہلوانوں کے شہر میں محفل مشاعرہ انعقاد پذیر ہوئی ۔ شعروادب کی اس بزم میں بیس شعراء تھے جبکہ سامع محض ایک ۔اس شعری نشست کا خوبصورت پہلو یہ بھی تھا کہ اس میں واپڈا کے حاضر سروس و ریٹائرڈ ملازمین نے شرکت کی ۔ چلچلاتی دھوپ میں واپڈا سے وابستہ ملازمین کا قافلہ گوجرانوالہ پہنچا تو پرتپاک استقبال کیا گیا۔ محفل مشاعرہ کے میزبان ادب کے پہلوان جان کاشمیری تھے ۔ بجلی بند ہونیکے خدشہ کے پیش نظر دستی پنکھوں اورجنریٹر کا بندوبست تھا۔ لطف کی بات دیکھیے کے مشاعرہ والے دن بجلی کی آنکھ مچولی نہ ہو سکی ۔ واپڈا کے شعراء کا بھرم رہ گیا۔محفل مشاعرہ کا آغاز تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول سے ہوا۔ ادب شناس تسنیم چیمہ نے یہ اعزاز حاصل کیا ۔ نقابت کے فرائض ڈاکٹر امین جان نے ادا کئے اور خوب کیے ۔ یاد آیا محفل مشاعرہ سے پہلے لاہوری مہمانوں کی تواضع پرتکلف کھانے سے کی گئی کھانا اتنا لذیذ تھا مہمانان گرامی انگلیاں چاٹتے رہ گئے ۔ ہر شاعر نے مشاعرہ میں جی بھر کے لوٹ مار کئی ۔ سچی بات یہ ہے کہ گوجرانوالہ میں مشاعروں میں لوٹ مار تو ہو سکتی ہے ۔ لیکن گلی محلوں اور سڑکوں پر نہیں کیونکہ یہاں کرائم فائٹر ڈی ایس پی عمران عباس چدھڑ نے چوروں ‘ڈاکوئوں ‘رسہ گیروں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے ۔شعر کے لغوی معنی جاننا بوجھنا کے ہیں ۔ ولیم بلیک کہتا ہے کہ انگریزی شاعری یونانی یا رومن قواعد و ضوابط کی پابند نہیں ۔ یہ ایک الہامی چیز ہے ۔ ورڈز ورتھ کا قول دیکھیئے ’’شاعری قومی جذبات کے بے ساختہ چھلک جانیکا نام ہے‘‘ مولانا حالی نے شعر کی تعریف یوں کی ہے ’’شعر وہ اچھا ہے ‘جس میں سادگی ‘اصلیت اور جوش ہو۔ جان کاشمیری کے مطابق جوش کیساتھ ہوش کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ غزل بارے عرض ہے کہ یہ اردو ادب کی مقبول ترین صنف سخن ہے ۔ لغوی معنی عورتوں سے یا عورتوں کے بارے میں بات چیت کرنا ہے ۔ ایک مدت تک غزل میں صرف عشق و محبت ہی کو زیر بحث لایا جاتا رہا۔ اب اس میں دنیا و جہاں کا ہر ایک مسئلہ خوبصورت پیرائے میں بیان کیا جا سکتا ہے ۔جب ہرن درندوں میں گِھر جائے ۔ اسے تیر لگ جائے اس موقع پر اس کے چلّانے کی آواز کو بھی غزل کہتے ہیں ۔ کمر توڑ مہنگائی میں عوام کی چیخ و پکار کو بھی غزل کہہ لیا جائے تو حرج نہیں ۔عصر حاضر میں ادبی و علمی محافل کا انعقاد ضروری ہے کیونکہ ایسی محافل تھوڑی سی جگہ میں بھی کروائی جا سکتی ہیں ۔ کرکٹ ‘فٹبال ‘ہاکی ‘ دنگل وغیرہ کیلئے بڑی جگہ درکار ہوتی ہے۔ محفل مشاعرہ ڈرائنگ روم میں بھی منعقد کی جا سکتی ہے ۔ ادبی و علمی نشستوں سے عوام کا خوف و ہراس ختم ہو سکتا ہے ۔ دور حاضر کی دہشت گردی سے جوخوف عوام کے دل و دماغ میں بیٹھ گیا ہے اسے دور کرنے کیلئے ایسی محفلیں زیادہ سے زیادہ ہونی چاہیں ۔شاعر حضرات نے خوب داد سمیٹی ۔ معزز شعراء کا ایک ایک شعر نذر قارئین۔
ڈاکٹر امین جان
رات کی خموشی میں بولتے ہیں سناٹے
لوگ سوئے رہتے ہیں جاگتے ہیں سناٹے
سعد احمد سعد
زخم در زخم لگا تو جو ہے دشمن میرا
حالت جنگ میں یہ طرزِ مروت کیسی
وحید احمد انصاری
جب حسن ترا پھول کی مانند ہے پیارے
رکھنے تو پڑیں گے تجھے خاروں سے مراسم
تسنیم چیمہ
اسی کے سوگ میں پیاسی ہے کربلا کی زمیں
جو حق پرست کنارِ فرات سے گزرا
غلام عباس
فرصت ملے تجھے تو ذرا یہ بھی سوچنا
گزرا یہ سال بھی تیرے ہجر و فراق میں
جان کاشمیری
زباں سے حرف جو نکلا وہ حرف معتبر ٹھہرا
مجھے تو موت بہتر ہے زباں تبدیل کرنے سے
گلزار حسین گلزار
وہ میرا بت تھا جو گرتا تھا اور اٹھتا تھا
کھڑا تھا میں تو رکوع و سجود سے باہر
شبیر ایثار
نقاب الٹا جو اس شعلہ جبیں نے بے خیالی میں
لگے کچھ پل مری بے ربط سانسوں کی بحالی میں
محمد الیاس
کوئی خراج نہ تاوان لے کے چھوڑیں گے
اداس چہرے مری جان لے کے چھوڑیں گے
جو آگے بڑھ کے تیری راہ سے پتھر ہٹایا ہے
ترے پیروں کو میں نے زخمی ہونے سے بچایا ہے
طارق تاسی
یوں دلوں سے ظالموں کا ڈر نکالا جائے گا
کھڑکیوں سے آج قصداً سر نکالا جائے گا
محمد افضل
اک دئیے کی خواہش تھی اور خواب میں دیکھا
میرے گھر کے آنگن میں ایک کہکشاں بھی ہے
امین ایمی
اللہ نے ہم کو دی تو تھیں چار بیگمیں
لڑ لڑ کے دو مر گئیں اور دو بخار میں
یوسف مثالی
اب کسی ڈھلوان پر رکتے نہیں اپنے قدم
ٹھوکریں کھاتے ہوئے پتھر کی صورت گول ہوں
مشاعرہ کے بعد محفل موسیقی نے بھی خوب رنگ جمایا۔پولیس آفیسر ملک فیاض اروپی اور نجمہ شاہین نے زبردست گائیکی کا مظاہرہ کیا ۔ جب انہوں نے گیت’’گوری اے میں جاناں پردیس‘‘ گایا تو مرحوم پرویز مہدی اور مرحومہ ریشماں کی یاد تازہ ہو گئی۔

ای پیپر دی نیشن