اگر اقوام متحدہ کے کردار پر روشنی ڈالی جائے تو بلاشبہ اس کا کردار بنی نوع انسان کی بہتری کے انتہائی خوش آئند رہا ہے۔ اس کے زیر نگرانی قائم ہونے والے اداروں نے بڑی حد تک انسانی حقوق کی بحالی کے لئے کام کیا ہے۔خصوصاً عالمی عدالتوں کا کردار بڑی حد تک اقوام عالم کے لئے مثبت رہا ہے جس کے بے لاگ فیصلوں کی وجہ سے استعماری قوتوں کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان استعماری عالمی قوتوں نے عالمی عدالتوں کے فیصلوں کو جوتے کی نوک پر رد کرکے اقوام متحدہ کے کردار اور اس کی امن کی بحالی کی کوششوں کو بے اثر کر دیا۔ اس ممالک میں امریکی آشیرباد سے پلنے والے اسرائیل اور بھارت ہیں۔ لیکن اب تو شاید عالمی عدالت برائے انصاف بھی استعماری طاقتوں کے رنگ میں آلودہ ہو کر متنازعہ فیصلے کرنے لگی ہیں جس سے شاید اقوام متحدہ کا حشر بھی لیگ آف نیشنز کی طرح سامراجی قوتوں کی لونڈی بن کر بھولی بسری داستان بن جائے گااور دنیا میں امن کا خواب ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو ختم نہ ہونے والی جنگ کی ایک ایسی شروعات ہوگی جس میں جنوبی ایشیاء کا امن ہی نہیں، دنیا بھی امن کی دنوں کو بھول جائے گی۔ ویانا کنونشن کے تحت قائم ہونے والی عالمی عدالت کا کل بھوشن یادیو کے حوالے سے موجودہ کیس بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس میں عالمی عدالت نے اپنے مینڈیٹ اور اقوام متحدہ کے چارٹر کو پس پشت ڈالتے ہوئے اس کیس کو سنا اور پاکستان کی Sovereignty کو بھی انصاف و قانون کے منافی رد کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 8 ستمبر 2006 کی متفقہ قرارداد 60/288 جس پر تمام ممبر ممالک نے اتفاق کیا۔ یہ قراردار دہشت گردی کے خلاف تمام سابقہ قراردادوں کا پرتو تھی۔ اس قرارداد میں واضح کیا گیا ہے۔
Combat terrorism in all forms and manifestations, and reffirming that any acts of terrirism are criminal and unjustifiable, regardless of their motivation, wherever, whenever and by whomsoever commited, reffirming that terrorism and violent extremism as and when conducive to terrorism cannot and should not be associated with any religion, nationality, civilization or ethnic group, recalling the Declaration and programme of Action on a Culture of Peace.
عالمی عدالت برائے انصاف اقوام متحدہ کے چارٹر کا پابند ادارہ ہے۔ انصاف کے اعلیٰ اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس ادارہ نے بلاشبہ بڑے اچھے اور مستحسن فیصلے کئے ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے کیس میں عالمی عدالت نے اقوام متحدہ کے چارٹر کو ہی نہیں بلکہ انصاف کے تقاضوںکو بھی پورا نہیں کیا۔ ویاناکنونشن کے مطابق :
The States Parties to the Present Convention, Considerting the fundamental role of treaties in the history of international relation, Recognizing the ever-increasing importance of treaties as a source of international law and as a mean of devloping peaceful co-operation among nations, whatever their constitutional and social systems, Nothing that the Principle of free consent and of good faith and the pacta sunt servanda rule are universaly recognized.
دہشت گردی کہیں بھی کی جا رہی ہو، سولائزڈ ورلڈ ایک لمحہ کے لئے بھی دہشت کی ان وارداتوں کو قبول نہیں کرتی۔ عالمی عدالت کے صدر رونی ابراہم جن کا تعلق فرانس سے ہے۔ وہ دہشت گردی اور امن پسندی کے فرق سے بخوبی واقف ہوں گے۔ فرانس میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعہ میں بے گناہوں کا خون بہایا گیا۔ جس پر فرانس کی حکومت نے پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ کیوں! اس لئے کہ فرانسیسی حکومت دہشت گردوں کو کوئی موقع نہیں دینا چاہتی تھی۔ کسی نے فرانس کی حکومت سے یہ سوال نہ کیا کہ دہشت گردوں کو انصاف دیا جائے۔ اس کے مقابلہ میں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جنوبی ایشیاء میں امریکی اور اسرائیل کی آشیرباد سے بھارت کو کھلی چھٹی دی جا رہی ہے۔ کشمیر میں معصوم بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے کھیل کو رچانے کے لئے بھارتی ایجنٹوں نے پاکستان کے پرامن شہروں کا امن برباد کر دیا۔ ہزاروں معصوم بچے، بوڑھے، جوان مرد اور عورتیں دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ عید یا کسی تہوار کی خریداری کرتے ہوئے بھی پھول سے کھلتے ہوئے معصوم بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ کراچی ایئرپورٹ، آرمی پبلک سکول پشاور، کامرہ کمپلیکس، جی ایچ کیو، ایف آئی اے، آئی ایس آئی کے ذیلی دفاتر، مناواں پولیس سنٹر کے علاوہ بے شمار پبلک مقامات پردہشت گردی اور تخریب کاری کے بدترین واقعات ہوئے۔ ہم جانتے تھے کہ ان حملوں میں را کے تربیت یافتہ دہشت گرد ملوث ہیں۔ یہ حملے افغان سرزمین پر تربیت پانے والے دہشت گرد کر رہے ہیں۔ انہیں ٹریننگ کون دے رہا ہے اور کون دے سکتا ہے؟ یہ کسی سے چھپا نہیں! انڈین دہشت گرد ایجنسی را کے ہائی رینک آفیسر کل بھوشن یادیو کسی امن مشن پر پاکستان نہ آئے تھے۔ ان کا مقصد پاکستان کو زک پہنچانا، بالخصوص بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی اور دہشت گردی کو فروغ دینا تھا۔ اسی دہشت گردی کے نتیجے میں بلوچستان ہی نہیں پورا پاکستان جھلس رہا تھا۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں پاکستانی گھروں میں 80 ہزار لاشیں آئیں۔ لاکھوں بچے یتیم ہوئے۔ ماؤں کی گود اجڑی، عورتیں بیوہ ہوئیں اور یہ سب کل بھوشن یادیو اور اس کے سرپرست را کی کرمفرمائی تھا۔ عالمی عدالت برائے انصاف نے اسی دہشت گرد کو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے پاکستان کو اشارہ کیا ہے کہ فیصلہ ہونے تک کل بھوشن کو پھانسی نہ دے جائے۔
عالمی عدالت میں بھارت کی ترجمانی کرتے ہوئے کل بھوشن یادیو کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے عدالت کو باور کرایا گیا کہ ویانا کنونشن کے آرٹیکل کے تحت بھارت کو اپنے بے گناہ شہری تک قونصلر رسائی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے ہم اپنے شہری کو بے گناہ ثابت کر سکتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی واویلا کیا گیا کہ ویانا کنونشن کے دائرہ کار میں یہ کیس عالمی عدالت کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ اس طرح غلط بیانی کرتے ہوئے عالمی عدالت کو بھی گمراہ کرنے کی سعی کی گئی۔ حالانکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان 2008ء میں طے پانے والے معاہدہ کی clause 6 'give no acess to ' spies' ۔میں واضح طور پر لکھا ہے۔
In case of arrest, detention or sentence made on political or security grounds, each side may examine the case on its merits.
پاکستان نے ایک سال قبل ہی بھارت کو کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کی اطلاع دے دی تھی لیکن بھارت اسی کی شہریت سے ہی منکر تھا۔ اور پھر ایک سال بعد اس کی شہریت تسلیم کی۔ اس کے باوجود کسی قسم کا کوئی تعاون نہ کیا۔ ان حالات میں پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پانے والے معاہدہ کے تحت پاکستان نے اپنے حق کو استعمال کرتے ہوئے بھارت کو قونصلر رسائی کی سہولت نہ دی۔ پھر اس پر واویلا کیوں؟ بھارت سرکار کی دہشت گرد تنظیم را کا سینئر آفیسر حسین مبارک پٹیل کے نام سے جعلی پاسپورٹ بنوا کر بلوچستان میں شورش زدہ علاقہ سے پکڑاگیا۔ اپنی گرفتاری کے بعد اس نے جو ثبوت دیئے ان کی بناء پر بڑی تعداد میں دہشت گرد پکڑے گئے اور بھاری اسلحہ بھی برآمد ہوا۔ ان ثبوتوں کے بعد بھی اگر عالمی عدالت کل بھوشن کو بے گناہ مانتی ہے تو پھر یو این اور اور عالمی عدالت کا مستقبل لیگ آف نیشن کے طرح اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ جس کے بعد دنیا میں امن نام کی کوئی چیز نہ ہوگی۔ طاقت اور جنگل کا قانون ایک ایسی دہشت انگیز فضا قائم کرے گا کہ دنیا دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کو بھول جائے گی۔