عالمی میڈیا میں جاری’ یکطرفہ ‘اِس بحث نے ہمیں اور ہم جیسے کئی فکر مند پاکستانیوں کو یہ سوچنے پر ضرورمجبورکردیااور ہم پاکستانی اِس بارے میں اپنی رائے کو دنیا کے سامنے لائے بناء نہیں رہ سکتے کہ امریکی تھنک ٹینکس ’بین الااقوامی مذہبی آزادی‘ نے دنیا کے 16 ممالک کی جاری کردہ فہرست میں اگر پاکستان کا نام شامل کرنا تھا، تو اُنہیں پہلے اِس ملک کو درپیش عالمی جنونی انتہا پسندی کی مسلط کردہ فکری ونظری دہشت گردی کے پہلوؤں کو بھی اپنے سامنے ’سطحی‘ انداز میں نہیں بلکہ بنیادی اور ٹھوس شواہد کے طور پر رکھنا چاہیئے تھا جو کہ نہیں رکھا گیا۔ امریکی تھنک ٹینکس نے اپنی مرتب کردہ فہرست میں پاکستان کا نام شامل کرکے بظاہردنیا میں پاکستان کے جمہوری نظام ِتشخص پر ایک سوالیہ’دائرہ‘ لگا نا تھا، سو لگا دیا گیا؟ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ کسی نہ کسی شکل میں’’ پاکستان میں بھی مذہبی رواداری کے سلسلے میں عدم برداشت کا رویہ بڑھتا جارہا ہے‘‘ یہ اشارہ کرکے شائد وہ اپنے اندرونی نسلی تعصب کو سکین دینے کی کوئی راہ نکالنا چاہ رہے ہوں گے ؟پھر بھی یہاں پر ہمارا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گزرے برسوں میں پاکستان نے'مذہبی جنونیت' کے اپنے ہاں جو چند واقعات وقوع پذیر ہوئے اُن پر بڑی بے باکی اور کھلے انصاف پسند قانونی رویوں کو بروئے ِکار لاکر نہ صرف اُنہیں حل کرنے کی حتمی کوششیں کی ہیں، بلکہ کئی قدم آگے بڑھ کر کٹھن اور مشکل، مگر حق پر مبنی فیصلوں کو عملی جامہ پہنا نے سے گریز نہیں کیا اور دنیا پر باور کرادیا کہ ’مذہبی انتہا پسندی ‘ کے نام پر پاکستان میں کسی کو بھی قانون شکنی کی اجازت نہیں ہے، چاہے کوئی بھی معاملہ ہو قانون نے اپنا راستہ پاکستان میں خود بنایا ہے جیسے کسی مہذب اور جمہوری معاشروں کے رائج دستور میں ہوتا ہے بہت نمایاں مسلم اکثریتی آبادی کا ملک پاکستان جہاں آئینی اعتبار سے کسی اقلیتی طبقے سے کوئی ذرا بھی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جاسکتا تو اَسے ایک طے شدہ امر سمجھیں‘سماجی اورثقافتی نکتہ ِنگاہ سے اگر دیکھا جائے تو ایک اورعجیب صورتحال سامنے آتی ہے کہ پاکستان کی واضح مسلم اکثریتی آبادی کو بھی ہمہ وقت اْن کے اپنے مذہبی عقائد پرحملہ آورمسلح تنظیموں کی دہشت گردی کا خوف لاحق رہتا ہے وہ بھی خوف زدہ رہتے ہیں جیسے گرجا گھروں کا تحفظ ملکی سیکورٹی ادارے کرتے ہیں، مندروں کا تحفظ کیا جاتا ہے ویسے ہی اب ملکی مساجد اور دیگر عبادت گاہوں مثلاً امام بارگاہوں کو بھی ہمہ وقت کسی نہ کسی خطرے سے محفوظ رکھنے کے لئے ملکی سویلین اور ملٹری سیکورٹی چوکس اور چوکنا رہتے ہیں، پھر یہ کون لوگ ہیں جو اکثریتی مسلم آبادی کو خوف زدہ وہراساں کیئے ہوئے ہیں جب بھی کوئی کہیں پکڑ میں آتا ہے تو پتہ چلتا ہے اِس غیرملکی مسلح انتہا پسنددہشت گرد کا تعلق کہیں عراق سے اْٹھنے والی درندہ صفت تنظیم داعش سے ہے یا افغانستان میں مفرور جائے پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھرنے والے کالعدم عسکریت پسند تنظیم ٹی ٹی ٹی کا کوئی مسلح کارندہ نکلتا ہے یا پھر پاکستان کے آئین شکن فرقہ وارانہ تنظیم کے مفرورافراد تک اِن کا کھرا جا پہنچتا ہے‘ یہ وہ حقائق ہیں یقینا جن کا ذکر امریکی تھنک ٹینکس ادارے 'امریکی کمیشن آف بین الااقوامی ریلیجئس فریڈم' نے اپنی رپورٹ میں ضرور کی ہیں ، مگر ساتھ ہی رپورٹ میں متعصبانہ زاویہ ِنگاہ سے کہیں کہیں پر مختلف پیرایوں میں پاکستان میں مذہبی آزادیوں پر عدم اطمنان اور دیگر انسانی حقوق پر سوال اُٹھا کر پاکستان کو’ بھارت جیسا ملک‘بناکر پیش کرکے بڑی زیادتی کی جسے پاکستانی قوم سختی سے مسترد کرتی ہے 'امریکی کمیشن آف بین الااقوامی ریلیجئس فریڈم' کو کئی لحاظ سے اپنی رپورٹ عالمی میڈیا میں جاری کرنے سے قبل 16 ممالک میں پاکستان کا نام شامل کرنے سے قبل انصاف کا تقاضا تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت بھر میں بہت تیزی سے جڑ پکڑنے والی مذہبی عدم رواداری کا بھی جائزہ لینا چاہیئے تھا، امریکی کمیشن کو یہ امر اپنے پیش ِنظر رکھنا تھا کہ پاکستان میں سرگرم این جی اْوز جو کچھ بھی امریکی اور یورپی اداروں کو مذہبی عدم رواداری یا انسانی حقوق سے متعلق غیر ذمہ دارانہ مواد 'فیڈ‘ کرتی ہیں اْن میں کتنی سچائی ہوتی یا نہیں یہ مواد جو اُنہیں ملتا ہے وہ حقیقت پر مبنی مواد ہوتا ہے یانہیں ؟ یاد رہے پاکستان میں عالمی غیر سرکاری اداروں کے مالی تعاؤن سے چلنے والی 'این جی اْوز مافیا' کے کردارپر ماضی میں مالی بدعنوانیوں کے کئی سوالات اُٹھ چکے ہیں ،جنہیں موثر انداز میں لائق ِبحث لائے بناء اُن پر کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی اِس بارے میں اگر کسی کو کچھ رپورٹ کرنا بہت ہی ضروری سمجھا جارہا ہے تو پاکستانی حکومتی اداروں کی رائے کو بھی سننا انصاف کا تقاضا تو ہے 'عورت فانڈیشن' جیسی کئی ایسی این جی اْوز اب بھی پاکستان میں اپنی مبینہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جن کے ’ داغدار ماضی‘ پاکستانی عوام کی نظروں سے پوشیدہ نہیں‘ مختاراں مائی کیس‘ کوکوئی بھلا سکتا ہے؟، جس کے اصل حقائق پر تا حال نقاب پڑے ہوئے ہیں؟ اِس میں کوئی شک نہیں ’ اگر 'امریکی کمیشن آف بین الااقوامی ریلیجئس فریڈم'کی جاری کردہ رپورٹ کے 22 نکات کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا ’رپورٹ میں پاکستان میں مذہبی رواداری پر عائد کردہ الزامات کے جوابات بھی موجود ہیں‘ مثلاً پاکستان کی آبادی میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے’ یکساں مسائل‘ کی طرف نشاندہی کی گئی ہے، پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ملک بھر میں کہیں کوئی افسوس ناک واقعہ یا سانحہ رونما ہوا بھی تو اْس پر پاکستانی حکومت کے اْٹھائے جانے والے اقدامات کا ذکر بھی برابر موجود ہے مگر یہاں اُن حلقوں کے لئے یہ امر لائق ِتوجہ ہونا چاہیئے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستانی سماج میں روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی اعلیٰ وارفع روایات زیادہ پائی جاتی ہیں، دیکھی جا سکتی ہیںپاکستانی فوج کی جانب سے حالیہ شروع کردہ'آپریشن ردالفساد' کا بنیادی مقصد بارہا بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں انتہاپسندانہ فکر اور نظریہ رکھنے والوں کے لئے مستقبل میں بہت مشکلات درپیش ہونگی ہماری مساجد کے معززو محترم خطیبوں کا بھرپور تعاؤن ملکی فوج اور حکومت کو اْن کی توقعات سے بڑھ کر حاصل ہورہا ہے، اور خاص بات یہ کہ پاکستانی سماج اور معاشرے کی بڑی واضح اکثریت’ فکری جکڑبندیوں‘ سے ماوراء ہوکر اپنی پوری دینی توانائیوں کو بروئے ِکار لاکر باہمی امن کے نظرئیے اور منصفانہ اعمال کے مقاصد کو ہر قیمت پر اپنے اپنے علاقوں کے ہر ایک مسلمان فرد تک پہنچا رہے ہیں لہذاء اب یہ تسلیم کیا جائے کہ پاکستان سماجی ومعاشرتی سطحوں پر مذہبی منافرت کے چنگل سے نکل کر ’عدل‘ اور ہر قیمت پر’عدل‘ کی جانب رواں دواں ہوچکا ہے اور’ ’آج کے پاکستان‘‘ میں بنی نوع ِانساں کے تحفظ کے لئے بہت ہی یقین افزاء مشترکہ جدوجہد کے ماحول نے اپنی جگہ خود بنا نے کا پختہ عزم پروان چڑھ رہا ہے آسان لفظوں میں یوں کہہ لیا جائے تو بہترہوگا کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی مختلف مذہبی اکائیوں نے باہم مدغم ہوکر انسانیت کے حقیقی احترام کو ہر حال میں مقدم سمجھنے میں اب پہل کردی ہے مذہبی تفریق کا اب کوئی جادو پاکستان میں سر چڑھ کر بولنے کی جراّت نہیں کرسکتا۔