بھارت میں قیام کے دوران مجھے اپنے بزرگوں کے آبائی گائوں "کلا نور "اور" ننگانہ" جانے کا موقع ملا، کلا نور اور ننگانہ ہندوستان کے ضلع روہتک کے دو مشہور گائوں ہیں یہ علاقہ راجپوت (رنگھڑوں) کا گڑھ شمار کیا جاتا ہے۔ ضلع روہتک کے مضافات میں راجپوتوں کے بارہ گائوں قیام پاکستان سے پہلے فوج کی اہم نرسری شمارکئے جاتے تھے۔ ضلع روہتک کے ان بارہ گائوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ہجرت کے بعد بھی پاکستان کی فوج اور سیاست میں اہم مقام حاصل کیا۔ کلا نور سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد میں لیفٹینٹ جنرل رائو امرائو علی خان مرحوم ( 950کی دہائی میںمشرقی پاکستان میں چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر رہے)، میجر جنرل رائو فرمان علی خان مرحوم(مشرقی پاکستان میں فوج کے کمانڈر رہے اور بعد میںوفاقی وزیر بنے)، لیفٹینٹ جنرل ذوالفقار علی خان (انجینئر کور کے کمانڈراورسابق چیئر مین واپڈا رہے)،پاکستان آرمی کے پہلے سرجن جنرل اور معروف مزاح نگار میجر جنرل شفیق الرحمن مرحوم (حماقتیں اور مزید حماقتیں کے مصنف اور اکیڈمی ادبیاب کے بانی چیئرمین) اور رائو خورشید علی مرحوم پاکستان کی پہلی مجلس قانون ساز کے ممبر، کا تعلق بھی کلا نور سے تھا ان کے علاوہ رائو فضل الرحمن مرحوم (سابق وزیر ریاست بہاولپور) ،رائو سکندر اقبال مرحوم (سابق سینئر وفاقی وزیر) رائو محمد افضل مرحوم(جنہوں نے 1988کے عام انتخابات میںاوکاڑہ سے نوازشریف کو شکست دی )رائو محمد ہا شم مرحوم ممبر پارلیمنٹ رہے ، رائو قیصر علی خان مرحوم (سابق ممبر قومی اسمبلی)،رائومحمد اجمل ممبر قومی اسمبلی (دیپالپور) اورسینیٹر رانا محمود الحسن(سابق ممبر قومی اسمبلی) کا تعلق بھی انہی علاقوں سے ہے۔
نصف صدی گزرنے کے بعد جب میں پہلی بار دہلی سے ضلع روہتک کے ان گائوں کی طرف جا رہا تھا تو مجھے تقسیم ہند کے واقعات مہاجرین کے قافلے بزرگوں کی شہادت، ہندوئوں اور سکھوں کے مظالم کی داستان، عزیز واقارب کے بچھڑنے کے واقعات کے حوالے سے کئی خیالات ذہن میں آر ہے تھے۔ روہتک ، دہلی سے سڑک کے راستے ستر کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ آبادی کے بڑھتے ہوئے دبائو کی وجہ سے یہ فاصلہ تقریباً سوا گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ نئی دہلی سے نکلتے ہی روہتک روڈ شروع ہو جاتی ہے اس سڑک کے دونوں اطراف ان لوگوں کو آباد کیا گیا ہے جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان سے ہجرت کر کے بھارت آئے۔ پہلی آبادی" پنجابی باغ" کہلاتی ہے جہاں پنجاب سے آنیوالے ہندو مہاجرین کی اکثریت آباد ہے۔ اسکے بعد" پچھم بہار" اور" ماری لور گائوں "اور بھر" پیلا گڑھی " کی آبادی ہے۔
ہمارا ڈرائیور بتا رہا تھا کہ 1947میں تقسیم ہند کے وقت دہلی سے روہتک جاتے ہوئے یہ راستہ کھلے میدان، جنگل اورکھیتوں سے گزر تا تھا۔اب تمام را ستہ نئی نئی کالونیوں اور آبادی کے دبائو کا شکار ہے۔ہندوستان اور پاکستان بننے کے بعد اکیس سال تک ضلع روہتک پنجاب کا حصہ رہا۔ 1968کی انتظامی اصلاحات کی بدولت اس ضلع کو صوبہ پنجاب سے الگ کر کے ہریانہ میں شامل کر دیا گیا۔ میں نے اس بار بھارت میں قیام کے دوران دہلی سے آگرہ اور دہلی سے اجمیر شریف کا سفر سڑک کے راستے بھی کیا۔ میں نے جو ترقی اور شہری سہولتیں آگرہ اور اجمیر شریف کے راستے میں دیکھی اس کی نسبت روہتک کی جانب ترقی کی رفتار خاصی کم نظر آئی۔ روہتک سے اٹھارہ کلو میٹر پر کلا نور کا قصبہ مین روڈ پر واقع ہے۔
روہتک سے ایک راستہ حصار کی طرف جاتا ہے۔ دوسرا راستہ سونی پت کو اور تیسرا بھوانی کو جاتا ہے۔ کلا نور اور ننگانہ سڑک پر واقع ہیں۔بھوانی کا مشہور ریلوے جنکشن کلا نور سے پندرہ کلو میٹر کی مسافت پر ہے۔ کلا نور کراس کرتے ہی ایک سٹرک بائیں جانب مڑتی ہے جو ننگانہ کو جاتی ہے۔ ننگانہ کلا نور سے چھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ان جڑواں گائوں کی زمینیں ایک دوسرے سے اس طرح ملی ہوئی ہیں کہ یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ کون سا گائوں کب ختم ہوا۔ کلا نور کو ننگانہ سے پختہ سڑک ملاتی ہے۔ننگانہ ہی وہ گائوں ہے جہاں میرے آبائو اجداد نے صدیوں قیام کیا۔ لیکن جب اسلام کے نام پر مملکت خداداد پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو میرے والدین اور بزرگوںنے اپنا سبھی کچھ چھوڑ کر پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا۔
قیام پاکستان سے پہلے میرے دادا جان (مرحوم) ہندو ستان میں تحصیلدار تھے اور قیام پاکستان کے وقت میرے والد محترم محمد منیر خان (مرحوم) بھی انڈین سول سروس میں تھے۔(قیام پاکستان کے بعد وہ ڈپٹی کمشنر کی پوسٹ سے ریٹائرڈ ہوئے) قیام پاکستان کے اعلان کے وقت انکی تعیناتی بھوانی میں تھی۔ میری والدہ محترمہ نے مجھے بتایا کہ آزادی کا اعلان ہوتے ہی مسلمان ہونے کہ وجہ سے بھوانی میں ہمارے سرکاری گھر کو نذرآتش کر دیا گیا وہ بمشکل جان بچا کر بھاگے۔ مہاجرین کے قافلوں پر حملوں اور ہجرت کے اس عمل کی وجہ سے میرے والدین ایک دوسرے سے بچھڑ گئے اور پاکستان آنے کے بعد تقریباً ڈیڑھ سال بعد دونوں ایک دوسرے کو ملے۔ اس عرصے میں دونوں یہ سمجھتے رہے کہ دوسرا شہید ہو گیا ہے۔ روہتک سے کلا نور اور ننگانہ کی طرف سفر کرتے ہوئے میں سوچتا رہا کہ ہمارے بزرگوں نے پاکستان کی خاطر کس قدر قربانیاں دیں۔ اپنے گھر، جائیداد، دوست احباب اور بڑوں کی قبریں سب ہی کچھ ایک سہانے مستقبل اور ماڈل اسلامی ملک کی تعمیر کے لیے چھوڑ دیا۔انہوں نے نئے وطن ، نئے ماحول اور نئے لوگوں میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی اور الحمد اللہ ، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ پاکستان میں بھی انہیں بھارت سے زیادہ بہتر مقام اور مرتبہ حاصل ہوا۔ میں انہی خیالوں میں گم تھا کہ ننگانہ آگیا۔ ہم گاڑی سے اتر کر سامنے آنے والے گھر کی جانب بڑھے۔ دو بوڑھے چارپائی پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ ہم ایک دوسرے کیلئے اجنبی تھے۔ وہ ہمیں حیرانی سے دیکھ رہے تھے میں نے ان سے کہا کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں ہمارے بزرگ اسی گائوں میں رہا کرتے تھے۔1947میں وہ پاکستان چلے گئے جب میں نے اپنے والد محترم اور چچا کا نام لیا تو ان کے جھریاں پڑے ہوئے چہرے پر تنائو آ گیا اور آنکھوں میں ایک چمک سی آئی ان میں سے ایک چارپائی سے کھڑا ہوا اور کہنے لگا" تم منیر کے بیٹے ہو !بچپن میںہم گینڈِی (گیند) ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ وہ کیسا ہے"؟ میں نے جب بتایا کہ وہ فوت ہو چکے ہیں تو وہ چپ سا ہو گیا۔ اس شخص کا نام دیوکرن تھا۔ اس نے میرے کئی بزرگوں کے نام لیے ان میں سے اب صرف دو زندہ ہیں۔ انہوں نے چائے اور بسکٹ سے ہماری تواضع کی۔ اس دوران گائوں کے بہت سے لوگ اور بچے ہمارے گرد جمع ہو گئے۔ دیو کرن نے ان سب کو بتایا کہ یہ ہمارے مُکھیوںکے بیٹے ہیں(یعنی اس گائوں کے سرداروں کے) وہ لوگوں کو ہمارے خاندان اور آبائو اجداد کے بارے میں بتا رہا تھا۔ ہم نے پوچھا کہ کیا گائوں میں ہمارے بزرگوں کی کوئی نشانی کوئی مکان موجود ہے اس نے کہا کہ ہاں تحصیلداروں کی دونوں حویلیاں اب بھی ہیں اور ان میں پاکستان سے ہجرت کرکے آنیوالے لوگ رہ رہے ہیں۔ میں نے پوچھا گائوں کا قبر ستان کہاں ہے۔
اس نے قریب ہی کیکروں کے ایک جھنڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ " یہ مسلمانوں کا قبرستان تھا"۔ ہم نے جب نظر دوڑائی تو کسی قبر کا کوئی نشان موجود نہ تھا۔ مٹی کی کچی بھر بھری دیوار اور قبریں سبھی کیکروں کی جڑوں میں شامل ہو چکی تھیں۔ ہم نے رک کر یہاں فاتحہ پڑھی۔ اس عرصے میں ایک اور بزرک لاٹھی کے سہارے آن پہنچا۔ وہ بھی ہمارے بزرگوں سے پوری طرح واقف تھا اس کا نام مان سنگھ شنگر تھا۔ ہم نے گائوں کا ایک چکر لگایا بزرگوں کی بنائی ہوئی حویلی دیکھی ہماری بڑی حویلی کے صدر دروازے پر جہاں کبھی دادا جان کا نام کنندہ تھا وہاں اب نئے مالک "چاولہ" کا نام نقش تھا۔ یہ وہی حویلی تھی جہاں کبھی میرے دادا اور والد صاحب کابچپن گزرا تھا ۔ اور انکی دلہنوں کی ڈولیاں انہی آنگنوں میں اتری تھیں۔ دس ہزار سے زائد آبادی کے اس گائوں میں اب ایک بھی مسلمان نہیں، گائوں کی مسجد کو گوردوارہ اور مندر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مسجد کی محراب کو بند کر کے وہاں بت اور گرونانک کی تصاویر آویزاں تھیں۔
گائوں میں تقریباً دو گھنٹے قیام کے بعد دل چاہا کہ فوراً یہاں سے واپس چلا جائے۔ پورے گائوں میں ہمارا کوئی نہ تھا، نہ اپنے لوگ، نہ اپنی زمین، نہ اپنا دین،نہ اپنا ماحول، مجھے سب لوگ اجنبی اور پرائے لگ رہے تھے۔واقعی کسی نے سچ کہا ہے کہ ملک، شہر اور دیہات سے محبت اس کی عمارتوں اور ترقی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے مکینوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ان آثاروں کو دیکھ کر مجھے دنیا کی بے ثباتی اور ہجرت کے مفہوم کی تفسیر نظر آئی۔ دنیا میں صرف ایک ہی ذات لا فانی ہے اور وہ خداوند تعالیٰ کی ذات اقدس ہے باقی سب فانی ہے۔