سستا اور معیاری انصاف ہماری آئینی ذمے داری ہے، روز سوچتے ہیں سائلین کو انصاف دینےکے لیے کیا کر سکتے ہیں:چیف جسٹس

May 27, 2019 | 13:24

ویب ڈیسک
سستا اور معیاری انصاف ہماری آئینی ذمے داری ہے، روز سوچتے ہیں سائلین کو انصاف دینےکے لیے کیا کر سکتے ہیں:چیف جسٹس
سستا اور معیاری انصاف ہماری آئینی ذمے داری ہے، روز سوچتے ہیں سائلین کو انصاف دینےکے لیے کیا کر سکتے ہیں:چیف جسٹس
سستا اور معیاری انصاف ہماری آئینی ذمے داری ہے، روز سوچتے ہیں سائلین کو انصاف دینےکے لیے کیا کر سکتے ہیں:چیف جسٹس
سستا اور معیاری انصاف ہماری آئینی ذمے داری ہے، روز سوچتے ہیں سائلین کو انصاف دینےکے لیے کیا کر سکتے ہیں:چیف جسٹس
سستا اور معیاری انصاف ہماری آئینی ذمے داری ہے، روز سوچتے ہیں سائلین کو انصاف دینےکے لیے کیا کر سکتے ہیں:چیف جسٹس
سستا اور معیاری انصاف ہماری آئینی ذمے داری ہے، روز سوچتے ہیں سائلین کو انصاف دینےکے لیے کیا کر سکتے ہیں:چیف جسٹس
سستا اور معیاری انصاف ہماری آئینی ذمے داری ہے، روز سوچتے ہیں سائلین کو انصاف دینےکے لیے کیا کر سکتے ہیں:چیف جسٹس

سپریم کورٹ آف پاکستان نےای کورٹ نظام کے ذریعے پہلے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے قتل کے ملزم کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کر لی۔چیف جسٹس پاکستان  کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی۔

ای کورٹ نظام کے ذریعے پہلے مقدمے کی سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ  ٹیکنالوجی کی دنیا میں یہ ایک بڑا قدم ہے۔ای کورٹ سے کم خرچ سے فوری انصاف ممکن ہو سکے گا۔دنیا بھر میں پاکستان کی سپریم کورٹ میں ہی ای کورٹ نظام کا پہلی مرتبہ آغاز ہوا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آج بہت بڑا دن ہے۔ وکلاء کا تعاون مطلوب ہے۔ ای کورٹ نظام سے سائلین پر مالی بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ آج پہلے ہی روز ای کورٹ نظام سے سائلین کے پچیس لاکھ روپے بچ گئے ہیں۔ کراچی سے وکلاء اسلام آباد آتے تو فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھہرتے،کراچی سے آنے والے وکلاء اور سائلین کی ٹرانسپورٹ پر اخراجات آتے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سستا اور معیاری انصاف ہماری آئینی ذمے داری ہے، روز سوچتے ہیں سائلین کو انصاف دینےکے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

چیف جسٹس نے آئی ٹی کمیٹی کے ممبران جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مشیر عالم کو خراج تحسین پیش کیا اورچیئرمین اور ڈی جی  نادرا کی کاوشوں کو بھی سراہا۔ای کورٹ کے تحت پہلے مقدمے کے آغاز میں ویڈیو لنک کے ذریعے کراچی سے وکلا نے دلائل کا آغاز کیا۔چیف جسٹس پاکستان نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ عینی شاہدین کے مطابق نامعلوم افراد نے قتل کیا۔اس کیس کے نامزد ملزمان اس واقعے میں ملوث نہیں ۔مقامی پولیس نے کیس کی تفتیشی میں بدنیتی کا مظاہرہ کیاہے۔

 شریک ملزمان غلام حسین اور غلام حیدر پہلے ہی ضمانت پر ہیں۔عدالت نے درخواست گزار نور محمد کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کر لی۔

ملزم نور محمد کے خلاف پولیس اسٹیشن شاداب پور 2014 میں قتل کا مقدمہ درج ہوا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت کی درخواست کا تاخیر سے فیصلے پر چیف جسٹس نے نوٹس بھی لیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ 2014 میں وقوعہ ہوا، ٹرائل کورٹ نے 2016 میں ضمانت خارج کی۔سندھ ہائی کورٹ نے 2016 سے 2019 تک درخواست ضمانت کا فیصلہ نہ کیا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس طرح کے معاملات ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کے خلاف ہیں۔چیف جسٹس نے  سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل کو ہائی کورٹ کے فیصلے کی کاپی حاصل کرنے کی ہدایت کردی ۔سندھ ہائی کورٹ کے ججز کی ضمانت  کی اپیلوں سے متعلق 2ہفتوں میں کیے جانے والے فیصلوں کی رپورٹ بھی   طلب کرلی ۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا رپورٹ چئیرمین جوڈیشل کونسل کو دو ہفتوں میں ارسال کی جائے تاکہ مناسب اقدام کیا جائے۔

مزیدخبریں