کرونا اور پی آئی اے کا حادثہ

پی آئی اے کا بدقسمت حادثہ کورونا کی اموات کے غم کو دُگنا کرگیا جس نے اداس عیدالفطر کی اداسیوں میں مزید اضافہ کردیا۔ پی آئی اے بھی پاکستان کی تاریخ کودُہرا رہی ہے۔ حادثے پر حادثے ہورہے ہیں لیکن ہر مرتبہ بے گناہ انسانوں کے قاتل کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے بجائے تفتیش وتحقیق کے زاوئیے بدل جاتے رہے ہیں۔ لاہور سے کراچی عید منانے کی خوشیاں دلوں میں لئے مسافروں سے بھری بدقسمت پرواز کی تفتیش کا رْخ بھی تبدیل کیاجارہا ہے۔ حسب روایت معاملہ شروع کہیں سے ہوکر کہیں اور لیجایا جارہا ہے۔ مطلب ہم نے نہ سدھرنے کی شاید قسم کھارکھی ہے۔تجزیہ نگاراور ہوابازی کے ماہرین دُہائی دے رہے ہیں کہ جس نے کوتاہی برتی، وہ قاتل ہے اور اس پر 302 کا مقدمہ ہونا چاہئے۔ پوری دنیا میں ہماری بھد اڑائی جارہی ہے۔ پی آئی اے کے اپنے طیاروں کی مرمت اور دیکھ بھال کے ناقص نظام کو مورد الزام ٹھہرایاجارہا ہے۔ پورے نظام کی ازسرنوتشکیل کے مطالبے ہورہے ہیں۔ موجودہ انتظام وانصرام پر سنجیدہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ خبردار کیاجارہا ہے کہ تازہ ترین حادثے نے عالمی سطح پر قومی پرواز کی ساکھ کو بے پناہ نقصان اور دھچکا پہنچایا ہے۔ پیشگوئی کی گئی ہے کہ شاید موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے پی آئی اے کو عالمی سطح پر پروازوں کی اجازت کا مسئلہ بھی درپیش ہوجائے اور پی آئی اے مقامی سطح کی ایئر لائن بن کر رہ جائے۔ دنیا بھر میں جہازوں کو حادثات پیش آتے ہیں۔ ایک پوری تاریخ ہے لیکن ان حادثات کو پرکھنے، جانچنے اور اصلاح احوال کے لئے دنیا کا رویہ اور ہے جبکہ ہمارے ملک میں سیاستدانوں سے لے کر ہر شعبہ زندگی میں قصوروار کے حمایتی آن موجود ہوتے ہیں۔ یہ رویہ ہماری قومی اصلاح کے راستے کی سب سے بڑی کھائی، دیوار اور رکاوٹ ہے۔ اگر جزا اور سزا کو اپنی نوکری، مراعات اور ذاتی مفاد سے ہی ناپنا اور تولنا ہے تو پھر وہ معاشرہ زندہ نہیں بچ سکتا کیونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول صادق ہے کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے، ظلم کا نہیں۔نا انصافی سے بڑا ظلم اور کیاہوگا۔ ظالم کو بچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایاجائے گا تو معاشرہ کیسے بچے گا؟ قیام پاکستان سے اب تک کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو حادثات کی ایک پوری فہرست ہے۔ پی آئی اے کی کمرشل پروازاے 8303 لاہور سے کراچی ہوائی اڈے کے قریب گرکر تباہ ہوئی توپھر کئی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ پی آئی اے اور سول ایوی ایشن کی کارکردگی، ہوابازوں کی تربیت، پیشہ وارانہ اہلیت، جہازوں کی فنی حالت سمیت کئی پہلوئوں پر بات ہورہی ہے۔ کوتاہیوں، غفلتوں اور مجرمانہ انداز واطوار کے دفتر کھولے جارہے ہیں۔ پی کے 8303کے نام سے جانی جانے والی یہ مرحوم پرواز ایوی ایشن کی اصطلاح میں مکمل تباہی سے دوچار ہوئی ہے۔ پی آئی اے کو اس سے قبل بھی کئی حادثات کا سامنا ہوچکا ہے۔
20 مئی 1965 کو بوئنگ707 قاہرہ کے ہوائی اڈے پر اترنے کی کوشش میں تباہ ہوگیا تھا جس میں سوار 124 لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔ اس میں ملک کے 20 جید صحافی بھی لقمۂ اجل بن گئے تھے۔6 اگست 1970 کو پی آئی اے کا فوکر ایف27 طوفان میں پرواز کی کوشش میں تباہ ہوگیا تھا اور 30سوار افرادکی جان لے گیا۔ 8 دسمبر1972 کو پی آئی اے کا فوکر ایف27 راولپنڈی میں گرا، 26 سوار بھی اگلی دنیا سدھار گئے۔ 26نومبر1979کو بوئنگ707 کی پرواز سعودی عرب سے حجاج کو لے کر جدہ ائیرپورٹ سے اڑنے کے کچھ ہی دیر بعد گرگئی اور 156 لوگ جاں بحق ہوگئے۔ 23 اکتوبر1986کو فوکر پشاور میں گرا اور 54میں سے 13 لوگ جان سے چلے گئے۔ 17 اگست1988 کو امریکی ساختہ ہرکولیس سی 130 محفوظ ترین سمجھا جانے والا طیارہ بہاولپور میں گر کر تباہ ہوگیا۔ اس وقت کے صدر اور بری فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق سمیت 30 دیگر اعلیٰ شخصیات بشمول امریکی سفیر کی دنیا سے رخصتی کاباعث بن گیا۔
25 اگست1989 کو فوکر گلگت کے لئے روانہ ہوا اور پھر نہ ملا۔ 28ستمبر1992 کو پی آئی اے ائیر بس اے 300 کھٹمنڈو کے قریب گری جس میں167 افراد نے جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ 24 فروری 2003 ء کو چارٹرڈ سیسنا402 بی افغانستان کے وزیرمعدنیات وصنعت جمعہ محمد محمدی اور دیگر اعلیٰ حکام کو لے کر محوپرواز تھا کہ کراچی کے قریب بحیرہ عرب میں گرگیا۔ 10 جولائی 2006 کو پی آئی اے فوکر ایف 27 ملتان سے اڑان بھرنے کے کچھ دیر بعد گرا اور41 مسافر، عملے کے چار ارکان سمیت جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ 28 جولائی 2010 کو ائیر بلیو کی ائیر بس 321 کراچی سے اڑی اور مارگلہ اسلام آباد کی پہاڑوں میں دم توڑ گئی۔152 لوگوں کی جان چلی گئی۔ 5 نومبر2010 کو دو انجن والا جے ایس ائیر اٹیلی کی تیل کی کمپنی کے عملے کو لے کر کراچی سے اڑا اور 21 سواروں کی جان لے گیا۔ 28 نومبر 2010 کو روسی ساختہ کارگو جہاز کراچی سے اڑنے کے کچھ دیربعد تباہ ہوگیا۔
20 اپریل 2012 کو کراچی سے اڑنے والے بھوجا ائیر لائن کے بوئنگ737کو اسلام آباد کے قریب برے موسم سے سامنا کرنا پڑا اور 121 مسافروں اور عملے کے چھ ارکان کو اپنی جانوں سے اس کی قیمت ادا کرنا پڑی۔ 8مئی 2015 کو گلگت کے قریب طیارہ حادثے کے بعد 7 دسمبر2016 کو پی آئی اے اے ٹی آر42 جہاز چترال سے اسلام آباد آتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا۔ یہ وہی جہاز تھا جس میں گلوکار اور نعت خواں جنید جمشید بھی جاں بحق ہونے والے48 مسافروں میں شامل تھے۔ ان حادثات کی فہرست میں آخری حادثہ22 مئی 2020 کا پی آئی اے ائیر بس اے 8303 ہے جس میں 89 مسافر اور عملے کے 8 افراد اپنی جان سے چلے گئے۔
چند سال میں جو واقعات ہوئے، ان میں پی آئی کے ہوابازوں یا پائلٹس اور دیگر انتظامیہ کی غلطیوں کو سن کر بدن میں جھرجھری آجاتی ہے۔ خوف آنکھوں میں تیرنے لگتا ہے اور یہ جملہ ذہن میں آتا ہے کہ ’’ڈرائیور کی مہارت نہ انجن کا کمال۔۔چلی جارہی ہے خدا کے سہارے‘‘۔ (جاری)

محمد اسلم خان....چوپال

ای پیپر دی نیشن