یہ بات ثابت ہے اور اس کو نظرانداز نہیںکیا جا سکتا کہ تمام گواہوں کو قتل کے ذریعے منظم انداز میں ختم کیا گیا اور ایک معاملہ میں بغیر کسی شک و شبہ کہ پولیس کا کردار بنیادی تھا۔مختصر یہ کہ امیت شاہ نے شیخ اور اس کی بیوی اور چشم دیدگواہ کو قتل کرنے کیلئے پولیس کا استعمال کیا۔ یہ انتہائی بدقسمتی ہے کہ سب انسپکٹر کا بااعتماد عہدہ رکھنے والے نے قتل سے پہلے شیخ کی بیوی کی عصمت دری کی۔ بدقسمتی سے اس کو نریندرا مودی کی مکمل حمایت حاصل تھی جوکہ اس وقت وزیراعلیٰ تھے۔
نریندرا مودی نے بھارت کا وزیراعظم بننے کے بعد بطور انعام امیت شاہ کو یونین کا وزیر داخلہ بنایا تاکہ اسے ہندو توا کے نام پر قتل عام کی مکمل آزادی ہو۔
نریندرا مودی اور امیت شاہ کے گٹھ جوڑ کو ’’رنگا بلا‘‘ کا خطاب دیا گیا کہ جو بھی ان کے راستہ میں آتا ہے ان کا حال گجرات فسادات کے گواہوں اور جج لویا کے جیسا کر دیا جاتا ہے۔ یہ اس دور کے چانکیہ امیت شاہ اور گجرات کے قصاب نریندرا مودی کے ماوراء عدالت قتل کی دہشت ہے کہ کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ وہ ان میں سے کسی کے خلاف ثبوت دینے کیلئے سامنے آئے۔اس وقت کے وزیراعلیٰ‘ نریندر مودی کے دبائو پر رانا ایوب کو اس وقت کے مشہور میگزین تہلکہ میں اپنی تحقیق شائع کرنے سے روک دیا گیا جس میں فسادات میں مودی کے مرکزی کردار کا بتایا گیا تھا۔
فسادات میں مودی کے ملوث ہونے کا واحد گواہ گجرات سے پولیس سروس کا ایک سابقہ افسر سنجے بھٹ تھا۔ وہ اس وقت کے حکومت گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرا مودی کے خلاف بھارت کی عدالت عظمیٰ میں 11 اپریل‘ 2011ء کو جمع کرائے گئے بیان حلفی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں جوکہ 2002ء کے گجرات کے فسادات میں مودی کے کردار کے حوالے سے تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے مودی کی رہائش گاہ ایک اجلاس میں شرکت کی جس میں مودی نے پولیس عہدیداران کو کہا کہ وہ ہندوئوں کو مسلمانوں کے خلاف اپنے غصہ کو نکالنے دیں۔
2002ء کے فسادات کے بعد سماجی کارکنان کے ایک گروہ نے متعلقہ شہری ٹربیونل تشکیل دیا کہ فسادات کا جائزہ لیا جائے۔ گجرات کے وزیرداخلہ ہرن پانڈیا (جن کو بعد میں پراسرار طورپر قتل کر دیا گیا) نے ٹربیونل کو بتایا کہ گودھرا ٹرین آتشزدگی کے بعد جس میں63 ہندو یاتری ہلاک ہو گئے تھے کے بعد مودی نے متعدد پولیس افسران کا اجلاس 27 فروری 2002ء کو بلایا۔ پانڈیا نے دعویٰ کیا کہ اس اجلاس میں مودی نے پولیس عہدیداروں کو کہا کہ ’’ہندوئوں کی مسلمانوں کے خلاف جوابی کارروائی‘‘ کے راستہ میں نہ آئیں۔ پانڈیا نے متعدد پولیس عہدیداران کے نام بتائے جنہوں نے اس اجلاس میں شرکت کی۔ اس کو بعد میں نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔بھٹ نے اپنے بیان حلفی میں چھ گواہان کا ذکر کیا۔ جوکہ مودی کی رہائش گاہ پر اس مبینہ اجلاس کی تصدیق کر سکتے ہیں‘ لیکن بعد میں کے ڈی پانت جوکہ مرکزی گواہ تھا اس کے خلاف ہو گیا اور اس طرح مودی سزا سے بچ گیا۔ بھٹ کو 8 اگست 2011ء کو گجرات کی حکومت نے معطل کر دیا۔ ان پرالزام عائد کیا گیا کہ وہ بغیر منظوری کے اپنے فرائض سے غیر حاضر رہے۔ امیت شاہ اور مودی کے ایجنٹس نے ان سے بارہا رابطہ کیا کہ ان کی خلاف تمام ثبوت مٹا دیں۔ آخر کار اگست 2015ء میں ان کو ’’بغیر منظوری کی غیر حاضری‘‘ کی بنیاد پر ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔ گواہ اب بھی زندہ ہے جوکہ ثبوت فراہم کر سکتا ہے۔ اگر اسے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔
آر ایس ایس‘ بی جے پی اور مودی کی بھارت حکومت کے مندرجہ بالا اقدامات بغیر کسی شک و شبہ کے تجویز کرتے ہیں کہ مودی کی حکومت میں بھارتی ریاست مسلمانوں کے خلاف مزید مذہبی مظالم ڈھائے گی۔ ان کو مجبور کیا جائے گا کہ یا تو ہندو بن جائو یا پھر قتل ہونے کیلئے تیار ہو جائو۔انصاف کے حصول کیلئے میں آپ سے درخواست کرونگا کہ تحقیقاتی صحافی رانا ایوب اور دیگر زندہ گواہان کو تحفظ فراہم کیا جائے اور ان کو دعوت دی جائے کہ وہ گجرات فسادات کے اسباب کے حوالے سے اپنے ثبوت مہیا کریں جن کو اب مسلمانوں کے قتل عام کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔یہ انصاف کے مفاد میں ہوگا۔ اگر عام آدمی پارٹی کے سربراہ ارویند گجریوال اور دیگر کچھ متاثرین جوکہ آر ایس ایس کے ظلم کا نشانہ بنے کو بطور گواہ طلب کیا جائے تاکہ معزز کمیٹی میں ان کا بیان ریکارڈ کیا جا سکے۔ یو ایس کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ 2020ء کے ذریعے بھارت کی ’’مخصوص تشویش کے ممالک‘‘ میں درجہ بندی کی تنزلی ناکافی ہے کہ وہ بھارت کو باور کرائے کہ وہ آر ایس ایس اور ہندو توا کے ذریعے مسلمانوں اور بھارت کی اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کو روک سکے۔میں انسانیت اور مذہبی آزادی کے مفاد میں آپ پر زور دوں گا کہ یو این کی جانب سے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمشن تجویز کیا جائے جو ان خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرے اور جب تک بھارت مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی جان کی حفاظت کی ضمانت نہیں دیتا۔ اس پر پابندیاں عائد رکھی جائیں۔ تجویز کردہ ٹی او آرز درجہ ذیل ہیں:۔
1۔ گجرات فائل کی مصنفہ رانا ایوب اور دیگر چشم دید گواہوں کے بیانات کو ریکارڈ کیا جائے اور تحقیقات کی جائیں اور اس کو یو ایس کمشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ کا حصہ بنایا جائے۔
2۔ گجرات کے فسادات اور شیخ سہراب الدین اور ان کی بیوی کے ماورائے عدالت قتل میں نریندر مودی اور امیت شاہ کے کردار کی مزید تحقیق کی جائے۔
3۔ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف نریندر مودی اور امیت شاہ کے مظالم کے خلاف پولیس کے گواہان زندہ ثبوت ہیں ان کی جانچ کی جائے۔
4۔ امیت شاہ اور نریندر مودی مقبوضہ کشمیر اور باقی بھارت میں ڈھائے جانے والے مظالم جن کی کوئی نظیر نہیں ملتی اس کی تحقیقات کی جائیں۔
5۔ نریندر مودی کی جانب متنازعہ شہریت ترمیمی بل (سی اے اے) کے پاس ہونے کے بعد پھوٹنے والے فسادات کے دوران مذہبی اقلیتوں کے خلاف کئے جانے والے مظالم پر عام آدمی پارٹی کے سربرا اروند کجریوال کے بیان کو ریکارڈ کیا جائے۔
درج بالا ٹی او آرز پر تحقیقات سے بھارت کی مسلمان اقلیت پر نریندرا مودی اور امیت شاہ کے مظالم کے حوالے سے کافی ثبوت حاصل ہو جائیں گے۔ (ختم شد)
انسانیت کیخلاف بھارتی جرائم
May 27, 2020