یواین سیکرٹری جنرل کی مسلح تنازعات میں شامل فریقین کو ایک بار پھر جنگ بندی کی اپیل اور بے قابو ہوتی بھارتی جنونیت
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئتریس نے دنیا بھر میں جاری مسلح تنازعات میں شامل فریقین پر ایک بار پھر جنگ بندی کیلئے زور دیا ہے۔ انہوں نے گزشتہ دنوں سلامتی کونسل میں ایک رپورٹ جمع کرائی جس میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا دنیا کیلئے سب سے کٹھن امتحان ہے۔ گزشتہ ایک سال میں مختلف تنازعات میں 20 ہزار شہری ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔ آزمائش کے ان مراحل میں مسلح تنازعات کے فریقین کو ایک دوسرے سے برسر پیکار رہنے کے بجائے کرونا کی جنگ باہم متحد ہو کر لڑنی چاہیے۔ یواین سیکرٹری جنرل نے اس حوالے سے اپنے عید کے پیغام میں باور کرایا کہ ہماری دنیا ایک جسم کی مانند ہے۔ کرونا کے تناظر میں یکجہتی اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے 23 مارچ کو جاری کردہ اپنی جنگ بندی کی اپیل پر مثبت ردعمل کا بھی عندیہ دیا تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اس کو حقیقی طور پر عملی جامہ پہنانے کے سلسلہ میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اب پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے کہ یکجہتی اور اتحاد ہمارے اصول ہوں۔ آئیے سب سے بڑھ کر ہم یہ تسلیم کریں کہ ہم واقعی ایک جسم‘ ایک دنیا اور ایک اقوام متحدہ ہیں۔
اقوام متحدہ کے چارٹر میں تو یقیناً پرامن بقائے باہمی کے اصول کو مقدم رکھا گیا ہے اور سابقہ عالمی تنظیم ’’لیگ آف دی نیشنز‘‘ کے تلخ تجربات کی بنیاد پر اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر کسی دوطرفہ تنازعہ کی صورت میں ایک دوسرے کیخلاف ہتھیار اٹھانے سے گریز کی پالیسی اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے مابین کسی بھی قسم کے تنازعات کے حل کیلئے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر ہی مؤثر کردار ادا کیا جا سکتا ہے مگر بدقسمتی سے آج تک ایسا نہیں ہو پایا اور اقوام متحدہ کے رکن چند بڑے ممالک نے اس نمائندہ عالمی ادارے کو عملاً اپنی باندی بنا کر رکھا ہوا ہے جو اپنے مفادات کیخلاف اس فورم پر کسی قرارداد کی منظوری کی نوبت ہی نہیں آنے دیتے اور اگر کوئی قرارداد منظور ہو جائے تو اس پر عملدرآمد ناممکنات میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس تناظر میں تو اقوام متحدہ کی حیثیت بھی لیگ آف دی نیشنز جیسی ہی بن گئی جس کے کسی فیصلے یا قرارداد کو درخوراعتناء نہیں سمجھا جاتا ورنہ تو کشمیر اور فلسطین جیسے دیرینہ تنازعات کے طول پکڑنے کی نوبت ہی نہ آتی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو متعلقہ ممالک سے بزور عملدرآمد کراکے کشمیریوں اور فلسطینیوں کے مستقبل کا فیصلہ کرلیا جاتا۔
اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ امریکہ نے سپرپاور ہونے کے زعم میں نہ صرف مختلف ممالک کے ساتھ خود تنازعات کھڑے کئے بلکہ مسلم امہ کے اتحاد کے درپے اسرائیل اور بھارت کی خود سرپرستی کرکے انکے جنگی جنون اور توسیع پسندانہ عزائم کو تقویت پہنچائی اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کو درخوراعتناء نہ سمجھا۔ اسی طرح جدید ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری اور پھیلائو میں بھی بنیادی کردار امریکہ کا ہی رہا ہے جو اپنی سلامتی کے تحفظ کے نام پر کسی بھی ملک پرچڑھائی کرنا اپنا حق گردانتا ہے۔ چنانچہ اسکی شہ میں بھارت اور اسرائیل جیسے انسانیت دشمن ممالک کو بھی کھل کھیلنے کا موقع ملا اور اقوام متحدہ محض خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی۔ اس وقت بھی جبکہ پوری دنیا کرونا وائرس کی لپیٹ میں ہے اور دنیا بھر میں اس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد پچاس لاکھ تک پہنچ چکی ہے جبکہ ساڑھے تین لاکھ کے قریب انسان لقمۂ اجل بن چکے ہیں‘ امریکہ اس وائرس کے پھیلائو کا الزام دھر کر چین پر چڑھائی کی منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے اور نیا ایٹمی دھماکہ کرنے کے موقع کی تلاش میں ہے جبکہ بھارت کی مودی سرکار نے‘ جس نے پہلے ہی مقبوضہ کشمیر پر جبر کا ماحول پیدا کرکے کشمیری عوام کو گزشتہ 296 روز سے گھروں میں محصور کر رکھا ہے‘ کرونا وائرس کی روک تھام کے بہانے نہ صرف کشمیری مسلمانوں کو راندۂ درگاہ بنانے کے مزید سخت اقدامات اٹھائے بلکہ پورے بھارت میں مسلمانوں کا جینا حرام کرنے کیلئے ان پر کرونا وائرس کے پھیلائو کا الزام دھرنا شروع کردیا اور مساجد میں اذان تک دینے پر پابندی عائد کردی جبکہ کنٹرول لائن پر اس نے پاکستان کے ساتھ جنگ کی فضا مسلسل قائم کر رکھی ہے۔ اسی طرح وہ پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی نیت سے افغان سرزمین کو بھی دہشت گردوں کی تربیت کیلئے استعمال کررہا ہے جہاں سے کابل انتظامیہ کی معاونت سے بھارت اپنے دہشت گردوں کو افغان سرحد عبور کراتا ہے اور یہ دہشت گرد بھارتی مقاصد کے تحت پاکستان میں دہشت پھیلاتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں تو اقوام متحدہ سمیت تمام نمائندہ عالمی اور علاقائی اداروں اور اسی طرح امریکہ سمیت تمام عالمی قیادتوں کے نوٹس میں ہیں مگر مودی سرکار کے ہاتھ روکنے کیلئے انہوں نے محض رسمی تشویش کے اظہار کے سوا آج تک کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا۔ امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی نے گزشتہ ماہ جاری کی گئی اپنی رپورٹ میں بھارتی اقلیتوں کیخلاف مودی سرکار کے جنونی اقدامات کی بنیاد پر بھارت کو انتہائی خطرناک ملک قرار دیا تھا جبکہ اسکی جانب سے بھارت کو بلیک لسٹ قرار دینے کی تجویز بھی سامنے آچکی ہے۔ اسی طرح آرگنائزیشن آف کشمیر کولیشن کے زیر اہتمام منعقدہ ورچوئل کانفرنس میں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی انکوائری کیلئے کمیشن بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے فوجی مبصر پہلے ہی کنٹرول لائن اور مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرکے اقوام متحدہ کو بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر متوجہ کرچکے ہیں مگر یواین سیکرٹری جنرل کی 23 مارچ کی اپیل کے باوجود مودی سرکار نے کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کیخلاف طاقت کے استعمال کا سلسلہ بند نہیں کیا اور کنٹرول لائن پر اس نے شہری آبادیوں پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا تسلسل برقرار رکھا ہوا ہے۔ عیدالفطر سے ایک روز قبل بھی بھارتی فوج نے کھوئی رٹہ سیکٹر کے کئی دیہات کو نشانہ بنایا جس کی فائرنگ سے ایک خاتون زخمی ہوئی۔
اس صورتحال میں اقوام متحدہ کو بھارتی جنونیت اور اسکے توسیع پسندانہ عزائم روکنے کیلئے خود عملی کردار ادا کرنا ہے جو اس پر عالمی اقتصادی پابندیاں لگانے کی صورت میں زیادہ مؤثر ہوسکتا ہے۔ اگر یواین سیکرٹری جنرل باہمی تنازعات میں الجھے ممالک کو جنگ بندی کی محض رسمی اور زبانی تلقین کرتے رہیں گے تو اپنے تئیں بدمست ہاتھی بنے بھارت جیسے سرکش ملک کا ہاتھ کیسے روکا جا سکتا ہے جبکہ وہ اپنی جنونیت میں عالمی تباہی کی نوبت لانے پر تلا بیٹھا ہے۔ اس تناظر میں آج اقوام متحدہ کے باعمل اور مؤثر کردار کی ضرورت ہے ورنہ دنیا میں ’’جس کی لاٹھی اسکی بھینس‘‘ کا فلسفہ غالب ہونے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔
انسانیت کیخلاف بھارت اور اسرائیل کے جرائم روکنے کیلئے آج اقوام متحدہ کے عملی کردار کی ضرورت ہے
May 27, 2020