نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) بھارت میں مذہبی آزادی کی صورتحال پر امریکی کمشن برائے مذہبی آزادی نے سالانہ رپورٹ جاری کردی جس کے مطابق بھارت میں 2020ء میں مذہبی آزادی کی سمت منفی رہی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہندو قوم پرست پالیسیوں کو فروغ دینے سے مذہبی آزادی کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ مذہبی امتیاز پر مبنی شہریت ترمیمی ایکٹ سے ریاستی، غیر ریاستی عناصر نے مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہا پسندوں کے تشدد اور پولیس جارحیت بظاہر سوچی سمجھی سازش تھی۔ مودی حکومت شہریت کے متنازعہ قوانین کو مسلمانوں اور اپوزیشن کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔ مذہب کی زبردستی تبدیلی کے جعلی بیانیے کی بنیاد پر بین المذہبی شادیوں کو روکنے سے تشدد کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ بھارتی پارلیمان نے مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں پر مزید پابندیاں عائد کیں۔ حکومت کی جانب سے بنک اکاؤنٹ منجمد کرنے پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بھارت میں اپنے دفاتر بند کرنے پڑے۔ جبکہ کرونا وبا کے آغاز میں گمراہ کن انفارمیشن اور نفرت انگیز بیانات کے ذریعے اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ بابری مسجد کے تمام ملزموں کو بری کرنے اور مذہبی تشدد پر حکومتی خاموشی نے بھارت میں نفرت و تشدد کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اپوزیشن اور اختلاف رائے رکھنے والوں پر مودی حکومت کا مسلسل کریک ڈاؤن باعث تشویش ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہندو قوم پرست گروہوں نے بلا خوف مسلمانوں کے گھروں، مساجد، کاروبار کو وحشیانہ حملوں کا نشانہ بنایا۔ کمشن نے تجویز دی ہے کہ بھارت کو باعث تشویش ملک کا درجہ دیا جائے۔ بھارت میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف پابندیاں عائد کی جائیں۔ بھارت کے ساتھ دوطرفہ اور کثیرالملکی سطح پر مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کے معاملات اٹھائے جائیں۔ بھارت میں جاری مذہبی آزادی کی مسلسل خلاف ورزیوں کی مذمت کی جائے۔